شہداء ماڈل ٹاؤن کا قصاص انقلاب کے بند
دروازے کھولے گا۔ ملک پاکستان کے نام میں لفظ پاکستان سے پہلے آئین میں دو
الفاظ اور بھی موجود ہیں اور ان کو ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ نام اسلامی
جمہوریہ پاکستان بنتا ہے۔ پاکستان کی بنیاد میں وہی اسلامی جمہوریت رکھی
گئی جو ساڑھے چودہ سو سال ہمارے خدا نے اپنے محبوب کے ذریعے عطا کی۔ جو
جمہوریت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد میں ہے وہ ہر مزدور کو اس کی
مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہوجانے سے پہلے لینے کا حق دیتا ہے۔ یہ اسلامی
جمہوریت جان مال، عزت و آبرو کا تحفظ دیتی ہے۔ یہ اسلامی جمہوریت ایک انسان
کو خون کا بدلہ خون لینے کا حق دیتی بشرطیکہ قانون کے دائرہ کار میں رہا
جائے۔ اس کالم کا پہلا جملہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہے۔ جن کے کارکنوں
نے ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر اور مرکزی سیکرٹریٹ کی حفاظت کے لئے
اپنی جانوں کی قربانی دی۔ اس کا پس منظر ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد
کو روکنا تھا یا ان کے تربیت یافتہ اور مہذب کارکنوں کو ڈرا کر ان کی
انقلابی جدوجہد سے دور رکھنا یہ سب دوسری باتیں ہیں۔ تاریخ میں رقم ہونے کے
قابل بات یہ ہے کہ کارکنوں نے اپنے قائد کے لئے جانیں دیں آپ اور میں ڈاکٹر
طاہرالقادری سے لاکھ اختلاف رکھتے ہوں مگر حقیقت ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری
دو سال سے اب تک جیسے اپنے کارکنوں کے انصاف کے لئے جنگ لڑ رہا ہے اس کی
مثال کم از کم تاریخ پاکستان میں تو نہیں ملتی۔ پاکستان کی تاریخ کی دو
انوکھی تحاریک چلانے کے بعد اب ڈاکٹر طاہرالقادری نے تحریک قصاص کا اعلان
کیا ہے اور مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ تحریک اپنے نام میں ہی اپنا پس منظر،
اپنا آغاز اور اختتام سنبھالے ہوئے ہے اور یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی تاریخ
میں اس طرح کے واقعے کی مثال ملنا مشکل ہے جس میں قانونی بیریئرز کو ہٹانے
کے لئے رات کے دو بجے پولیس نے دھاوا بولا سب گفت و شنید ناکام ہونے کے بعد
شیلنگ اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی قومی میڈیا کے تمام نمائندگان اس
واقعہ کے عینی شاہد ہیں اور ان نمائندوں کے ذریعے پاکستان کے کونے کونے تک
پہنچنے والی اس کوریج نے پاکستان کے ہر شہری کو اس واقعہ میں ہونے والے ظلم
و ستم کا گواہ بنایا۔ دو سال سے زائد عرصہ کے دوران شہیدوں کے ورثاء کو
لاکھوں، کروڑوں روپے کی پیشکش کی گئی اور ان ورثاء نے کمال بہادری و جرات و
غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس پیشکش کو مسترد کیا بلکہ آئین و قانون
کے تحت قصاص کا مطالبہ کردیا۔ دھرنے کے اختتام کے کچھ ہی عرصے کے بعد
پاکستان کی فضائیں ڈیل، ڈیل کے شور سے گونج اٹھیں اور پاکستان مسلم لیگ ن
کے چند ٹھیکیداروں نے یہ آواز بلند کی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور شہیدوں کے
ورثاء نے دیت لے لی ہے اور یہ کیس تقریباً ختم ہونے کو ہے۔
اس نازک حالات میں پاکستان عوامی تحریک کے قائدین کی جانب سے عقلمندی کا
مظاہرہ دیکھنے کو ملا اور ان قائدین نے مطالبہ کیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن
کے قائدین یہ تو جانتے ہیں کہ ڈیل ہوگئی اور دیت لے لی گئی تو خدارا ہمیں
ان لوگوں کے نام بتادیں جنہوں نے یہ دیت دی کیونکہ عوام یہ بات جانتی ہے کہ
دیت ہمیشہ مقتول کے ورثاء کو قاتل کی جانب سے دی جاتی ہے۔ یہ شرف ڈاکٹر
طاہرالقادری کو ہی حاصل ہے جو ایسے کارکن ان کا مقدر ہوئے جو ان کے ہر حکم
کی تعمیل میں کمر بستہ رہتے ہیں اور یہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کا
ہی خاصہ ہے جو ایسا قائد رکھتے ہیں جس نے دنیا کی ہر آسائش اور مال و دولت
قربان کرکے حکمران وقت کی طرف سے کئے جانے والے ہر پروپیگنڈے کا سامنا کرتے
ہوئے اپنے معصوم اور شہید کارکنوں کے حقیقی انصاف کے لئے تگ و دو کرنے میں
مصروف ہے۔ ورنہ پاکستان میں موجود باقی پارٹیز کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو
معلوم پڑتا ہے کہ اور بھی بہت سے لوگ اپنے قائد کے لئے حادثاتی طور پر یا
شعوری طور پر شہید ہوئے مگر امداد کے نام پر غیرت و حمیت کو دباکر یہ
معاملہ ہمیشہ کے لئے دبادیا گیا اور ان قائدین کو بھی ان کے نام نہ یاد ہوں
گے۔ سو یہ کہا جاسکتا ہے کہ قربانی کو اور قربانی دینے والے کو یاد رکھنا
اسی تحریک کا خاصہ ہے۔
اب دو سال سے زائد عرصے کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے قائد ان ایکشن ہیں
اور کارکنوں سے مشاورت اور مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد تحریک قصاص چلانے کا
فیصلہ کیا ہے اس کے پہلے مرحلے میں پاکستان کے بڑے شہروں میں دھرنوں کا
اعلان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ اعلان کرتے ہوئے مزید کہا کہ
قصاص، انقلاب کے بند دروازوں کو کھولے گا۔ اور میرے نزدیک یہ بیان اس پورے
اعلان میں Milestoen کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس کی طرح
روشن ہے کہ پاکستان میں موجودہ کرپشن، دہشت گردی اور لاقانونیت جیسے دیگر
بڑے مسائل کو ختم کرنے کا واحد حل بہت بڑے پیمانے پر تبدیلی ہے جسے انقلاب
کا نام دیا جاتا ہے اور پاکستان نے حالیہ دنوں جو ریکارڈ بنائے ہیں وہ
تاریخی کہلائے جانے کے قابل ہیں۔ پاکستان پر قرضوں کی تشویشناک صورتحال کے
باوجود حکومت پاکستان نے اندرون پاکستان سوا چار کھرب کے قرضے معاف کئے جن
میں سے 3کھرب کے قرضہ جات صرف پنجاب میں معاف کئے گئے۔ اب ان حالات میں اگر
انقلاب کا راستہ قصاص سے کھلے گا اور اس قصاص میں پاکستان میں شہید ہونے
والے ہر مظلوم کا قصاص شامل ہوگا ہر اس بچے کا قصاص شامل ہوگا جو ان ظالموں
کی غفلت کی وجہ سے مرگیا اس پولیس افسر کا قصاص بھی شامل ہوگا جو ایمانداری
کی وجہ سے مارا گیا اور اس غریب ماں کو بھی اس کا حق دیا جائے گا جس کا
جوان بیٹا اس کے بڑھاپے کا سہارا غاصبوں نے صرف سچ بولنے پر ماردیا۔ میں
اگر اپنی ناقص عقل کو عقل صحیح پر لاکر حالات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لوں
تو اس نتیجے پر پہنچتی ہوں کہ ہماری سالمیت اب اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے
میں ہے اور مطالبہ کرنے کے بعد وہ جماعت جوائن کرنا ہوگی جو اپنے حقوق سے
مطالبہ کے بعد پیچھے ہٹنا تصور بھی نہ کرے۔ آپ میں سے ہر اک شخص کو اگر
اپنے پر ہونے والے ظلم کا انصاف چاہئے تو جان لیں کہ اس انصاف کا راستہ اس
قصاص سے ہوکر گزرے گا جس کے خاطر پاکستان عوامی تحریک تن، من، دھن کی
قربانی کو تیار بیٹھی ہے۔ |