یہ عجیب بات ہے کہ پوری دنیا میں میڈیا کے
نمائندے اپنی اپنی سوچ اور ترجیحات کے لحاظ سے سرگرم عمل ہیں ۔وہ ہر خبر کو
وہ اینگل دیں گے جو اُن کی سوچ کی عکاس ہوگی ۔اور اچھی خبر کو بُری خبر
بنانے اور اچھی سوچ کو بُرا ثابت کرنے میں وقت نہیں لگاتے ۔اس میڈیا کا کیا
کہنا کہ وہ ایک مطلق العنان بغیر تاج کے دنیا کا بادشاہ ہے وہ چاہے تو
پروپیگنڈہ وار کے ذریعے سلطنتوں کی سلطنت اُجاڑ دے ۔اپنے مفادات کے حصول
کیلئے جنگوں کی جنگیں چھیڑ دے ،وہ سازشوں کے ذریعے مُلکوں کے ملک راکھ کے
ڈھیربنا دے ۔اور اپنے آپ کو صحافی اور غیر جانبدار کہلانے والے اسرائیل کے
ستم کو عدل اور عالم اسلام کی تباہی کو مکافات عمل قرار دے ۔ذرا نظر ڈالیں
دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میڈیا پر کب اور کہاں ہمارے بارے میں مثبت خبر دی
گئی ۔بلکہ ہماری ہزار خوبیوں پر ہمیشہ ایک خامی انکی نظر میں غالب رہی ’’ہم
آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام‘‘ کی مانندہزاروں تعمیر و ترقی،تعلیم
و تدریس اور کمال مہارتوں،جرأت کی داستانوں اور بہادری کے بے مثال تذکروں
کا کہیں ذکرخیر نہیں ہے ۔
نہ ہماری روایت انہیں پسند ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ ،نہ ہماری ثقافت کو
دنیا کی کوئی ثقافت شمار کرتے ہیں اور نہ ہی ہماری طرز زندگی انہیں گوارا
ہے ۔نہ ہمارا دین انہیں ہضم ہوتا ہے اور نہ ہی ہماری دینداری ،نہ ہمارے میں
منصف مزاج حکمران اور نہ اسلامی معاشرے میں مہارتوں،مہمات اور جرأت کی
داستانیں رکھنے والی افواج بھی ایک نظر اُنہیں پسند نہیں ۔
آپ دیکھیں گزشتہ دنوں سینٹ میں افواج پاکستان کے فلاحی شعبے کے تحت چلنے
والے تجارتی اداروں کا تذکرہ چلا تو بی بی سی کے محمد حنیف نے پوری ایک
کہانی تراش ڈالی اور قصیدہ گوئی بلکہ مرثیہ نگاری کے انداز میں’’فوج کا
سفید پوش بھائی /بیچاری پاک بحریہ‘‘ کے نام سے تحریر لکھ ڈالی ۔یہاں پاک
بحریہ کے ملازمین کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ ان
کے کندھوں پر بندوق رکھ کروار کیا جائے اور ایک تیر میں پاک فوج سمیت کئی
اور کو بھی شکار کرنے کی کوشش کی گئی ۔طنزیہ انداز اختیار کیا گیا اور ٹیبل
سٹوری ٹائپ چیز یعنی بات کا بتینگڑ بنایا گیا ۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ
’’اگر پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی فہرست پر نظر ڈالیں تو پاکستان کی
بّری فوج اور فضائیہ نے آپ کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ایسی ایسی
سہولیات فراہم کر دی ہیں کہ آپ کو کسی سویلین سیٹھ کو منہ لگانے کی ضرورت
ہی نہیں پڑے گی۔ آپ ایک ملٹری ہسپتال میں پیدا ہو سکتے ہیں جہاں پر ملٹری
میڈیکل کالج کے تربیت یافتہ ڈاکٹر مناسب معاوضے پر آپ کی ابتدائی صحت یقینی
بنائیں گے۔ بچے سیریل شوق سے کھاتے ہیں تو فوجی سیریل پیش خدمت ہے۔ اِس کے
لیے دودھ چاہیے ہو گا تو نْور پور کا خالص دودھ دستیاب ہے۔
چینی بھی چاہیے؟ آرمی ویلفیئرشوگر مل سے لے لیں۔ بچہ تھوڑا بڑا ہو گا تو
اْسے عسکری پراجیکٹ سے جوتے اور کپڑے دلوا دیں۔ سکول بھیجنا ہے تو فضائیہ
ویلفیئر ایجوکیشن سسٹم میں ڈال دیں اْس کے بعد کئی یونیورسٹیوں میں معیاری
تعلیم کا بندوبست ہے۔ کاشتکاری کا رجحان ہے تو اوکاڑہ سیڈز سے بیج خریدیے،
فوجی فرٹیلائزرز سے لے کر کھاد ڈالیے۔ گوشت کی ضرورت ہے تو فوجی میٹ سے
خریدیے۔ باہر کھانے کا چسکا ہے تو بلیو لیگون ریسٹورنٹ آ جایے، گھر چاہیے
تو ڈی ایچ اے میں پلاٹ خریدیے، عسکری سیمنٹ لیں۔ پیسے کم پڑ رہے ہیں تو
عسکری بینک حاضر ہے۔
ذاتی حفاظت کے لیے اگر پولیس اور رینجرز سے اعتبار اْٹھ گیا ہے تو عسکری
گارڈز یا فوجی سکیورٹی سروسز میں کسی کا اِنتخاب کر لیں۔ اور اگرچہ
پارلیمنٹ میں اِس کا ذکر نہیں کیا گیا اگر کوئی چوری چکاری ہوئی ہے تو
تربیت یافتہ سراغ رساں کتوں کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یا عسکری
جنرل انشورنس سے پالیسی خریدیں اور اِن سب جھمیلوں سے نجات حاصل کریں‘‘-
مسلمانوں کا ٹیکنالوجی سے دور رہنا ،اور ان کی من پسند تشریحات کو عالمی
قوانین کا درجہ دیکر تصدیق کی مہر ثبت کرنا اور اس فیلڈ میں خاطر خواہ
اقدامات نہ کرنا وغیروغیرہ ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر آج نہ صرف اُمت
مسلمہ ان کے نشانے پر ہے بلکہ ہم بھی بھیڑ چال میں ان کی نقالی اور ان ہی
کے ذرائع سے آنے والی خبروں کو حقیقی اور معیاری قرار دیتے ہیں ۔عراق پر
آمدہ رپورٹس ،شام کے حوالے سے پالیسیاں ،لیبیا میں فریقین کی سپورٹس سمیت
ترکی کا معاملہ سب کے سب عالم اسلام پر عیاں ہے ۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ آخر ہمارے ہاں قومی سوچ یا ایک پالیسی کا فقدان کیوں ہے
۔ہم خالی الذہن کیوں ہیں ۔جو جہاں چاہے ہمیں استعمال کرلے اور پھر ٹشو کی
طرح پھیک دے ۔ہمیں اپنوں پر تو تنقید کرنا یاد رہتا ہے ۔لیکن غیروں کی
باتوں کو اپنی پالیسی سمجھتے ہیں ۔ہماری عمدہ چیزوں کو اور روایات کو وہ
ناشائستہ ،غیر مہذب اور جھالت کے دور کی مثالیں قرار دیتے ہیں اور خود جو
بھی کریں وہ اُن کے لیے ایک بہترین مثال اور پوری دنیا کیلئے قابل تقلید ہے
۔اُن کی نازیبا گوئی ،اخلاق اور اقدار کو پامال کرتی ہوئی عادتیں اور
روایات باقی رہنے کیلئے ہوتی ہیں او ر ہمارے رشتے ناطوں کی مٹھاس اور محبت
بھرے انداز بھی نفرت انگیز ہوتے ہیں ۔میں تو یہ نہیں سمجھ پایا کہ ہمارے
میڈیا میں سنجیدگی ،متانت اور وقت کی نزاکت جیسی حسین چیزیں کب آئیں گی
۔اور ہم بھی اچھی اور بُری خبر کی تمیز کرسکیں گے ۔آئیے ایک ایسی خبر پر
نظر ڈالتے ہیں ۔جو قانون قدرت بلکہ دنیا بھر میں موجود مذاہب سے یکسر
متصادم ہے ۔لیکن اُسے یہ میڈیا کس انداز میں پیش کرتا ہے ۔ جیسے یہ کوئی
برائی ہی نہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر اس عمل کو روایات کے نام پر جائز قرار
دینے کی کوشش کررہا ہے ۔وہ ہماری زبان میں کہتے ہیں، چھاننی (sieve) کوزے
(لوٹے) کو کہ رہی ہے کہ تمہارے 2 سوراخ ہیں.
’’براعظم افریقہ اپنی عجیب و غریب اور پر اسرار تاریخ اور ثقافت کے لحاظ سے
دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہے جسے دیکھ کر آج بھی دور قدیم کی یاد
تازہ ہوجاتی ہے ایسی ہی تاریخ لیے افریقی ملک کیمرون بھی خاصی شہرت رکھتا
ہے جہاں ایک خاص روایت کے مطابق تخت سے اترنے والے بادشاہ کی بیویاں نئے
بادشاہ کو منتقل ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے اس بار بننے والے بادشاہ کی
بیویوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کمیرون کے علاقے بیفٹ میں ابومبی
دوم نے 11 ویں فون یعنی بادشاہ کی حیثیت سے تاج اپنے سر سجایا تو اس کو
وراثت میں اپنے باپ کی 72 بیویاں بھی ملیں جب کہ اس نے ان بوڑھی بیویوں کے
ساتھ ساتھ جوان لڑکیوں سے بھی شادی کی جس سے اس کی بیویوں کی تعداد 100 تک
پہنچ گئی۔
شہزادہ نکسن کا کہنا ہیکہ کسی بھی شہزادے کو بادشاہ کی تربیت دینا پرانی
بیویوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ ابومبی کی تیسری بیوی کا کہنا تھا کہ ہر
کامیاب مرد کے پیچھے ایک پختہ خاتون ہوتی ہے اورہماری روایت ہے کہ بادشاہ
کی پہلے سے موجود بیویاں اپنی ذمہ داریاں جوان بیویوں کو سونپ دیتی ہیں جب
کہ پرانی بیویاں نئے بننے والے بادشاہ کو سلطنت چلانے کے گر سکھاتی ہیں۔
بفٹ میں 47 سال سے حکمرانی کرنے والے ابومبی کا کہنا تھا وہ چاہتے ہیں کہ
جدید طرز اور قدیم روایات کو اس طرح ملایا جائے کہ لوگوں کی ثقافت متاثر نہ
ہو کیوں کہ ثقافتی اقدار کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔ ان کا کہنا
تھا کہ باپ سے وراثت میں ملنے والی بیویاں سوائے ایک اخلاقی ذمہ داری کے
کچھ نہیں۔ رپورٹ کے مطابق ابومبی کے بعد نئے بننے والے بادشاہ فون زوفوا
تھری کو وراثت میں 72 بیویاں اور 500 بچے ملیں گے۔‘‘
اس خبر کے کئی پہلوہیں ۔ جو غور کرنے والوں کیلئے قابل توجہ ہیں ۔یہ میڈیا
ہی ہے جو سعودی عرب کے بادشاہوں اور اُنکی فیملی کے لحاظ سے اکثر وبیشتر
ایسی خبریں شائع کرتا رہتا ہے کہ انکی اتنی اتنی شادیاں ہیں یہ ایسے کرتے
ہیں ۔تیس چالیس بچے ہیں ۔جہاں جاتے ہیں شادی کرتے ہیں ۔بے شمار عورتیں
رکھتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ کے پروپیگنڈہ کرتے ہیں ۔حالانکہ یہ مصدقہ ہے کہ وہ
بیک وقت چار سے زیادہ شادیاں نہیں کرتے اور کبھی بھی ماں کے درجے کو پامال
نہیں کرتے ۔اور دوسری طرف کمیرون کا بادشاہ ہے جس کی بیویوں اور بچوں کی
تعداد سب کے سامنے ہے اور امریکی میڈیا شاباش دینے کے انداز میں سراہتے
ہوئے خبر کو تحریر کررہا ہے ۔ایک طرف مسلمان کو چار شادی کی اجازت ہے اُس
پر اعتراض ہے اور دوسری طرف 100پر بھی نہیں ایک طرف پچیس تیس بچوں پر
اعتراض ہے اور دوسری طرف پانچسو پر بھی نہیں ۔یہ ہے اس میڈیا کا دوغلا پن
،دوہرا معیاراور اپنی سوچ مسلط کرنے کا طریقہ اور ہم مسلم ہیں کہ انکے
بہکاوے میں آکے اپنے آپ پر ہی افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔اور تمام بیماریوں
اور خرابیوں کی جڑ اپنے آپ کو قرار دیتے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان حقیقت کی طرف لوٹیں،اور ہر ایک مسلم اصول کو
تسلیم کرتے ہوئے ، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اپنے حصے کا
چراغ روش کریں اور ان بے سروپا ،غیر حقیقی،پروپیگنڈہ زدہ باتوں کو رد کرنے
کیلئے سوشل میڈیا،پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سینہ بسینہ میڈیا کو
استعمال کریں کیونکہ ہاتھ،زبان اور دل کا تعلق برائی کے روکنے کے تذکرہ میں
کیا گیا ہے اور پھرویسے بھی فراز نے کہا تھا کہ
شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے |