1975ء تک صدارتی نظام کے تحت آزاد کشمیر
میں جب پارلیمانی نظام متعارف کرایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مسلم کانفرنس کا طوطی
چہار سو بولا اور کشمیر کی سیاست کا واحد محور رہا تقریبا 25 سال مسلم
کانفرنس کے راج کے بعد پاکستان مین برسر اقتدار رہنے والی جماعتوں نے بھی
کشمیر کی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کردی اور کچھ نئے اور کچھ مسلم
کانفرنسی پرانے مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے ۔ پھر پی پی پی بھی وفاق میں
اقتدار کے باعث آزاد کشمیر میں راج کرنے میں اور باقاعدہ ٹنیور مکمل کرنے
میں کامیاب ہوئی۔ تحریک انصاف جس جذبے اور ولولے سے کشمیر میں ان ہوئی اس
کیلئے پاکستان میں آزمودہ جماعتوں کے بعد میدان تقریبا خالی تھا۔ اگرچہ
برادری کی سیاست کا کشمیر کے الیکشن میں بہت بڑا عمل دخل ہے اور سیاسی اور
مذہبی جماعتیں برادری کے ووٹ کی بْنیاد پر ہی اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں
لیکن نوجوان طبقہ پی ٹی آئی کو دل و جان سے سپورٹ کرتا ہے اور پی ٹی آئی
کیلئے حکومت بنانا اگرچہ آسان نہ ہوتا لیکن قدرے پوزیشن میں آنا مشکل نہیں
تھا۔ مگر یہاں پی ٹی آئی نے جن چہروں کا انتخاب کیا وہ آزمائے ہوئے تھے اور
سیانے کہتے ہیں’’ آزمائے ہوؤں کو آزمانہ حماقت ہے‘‘ اگر پی ٹی آئی کے پی کے
کی طرح نوجوانوں کو موقع فراہم کرتی بلخصوص اووسیز کشمیریوں کا موقع فراہم
کیا جاتا جو جذبہ بھی رکھتے ہیں اور کام کرنا بھی جانتے ہیں تو پھر امید کی
جاسکتی تھی پوزیشن یہ نہ ہوتی کافی بہتر ہوتی۔
اس بات میں شک نہیں کہ وفاق کا بہت بڑا عمل دخل ہے کشمیر کے الیکشن میں اور
گزشتہ الیکشن کے دن چینلز پر کشمیر کے حوالے سے حکومتی موقف پر مبنی
ڈاکیومینٹری ٹائپ کی ایڈورٹائزمنٹ اکثر چینلز پر دیکھی گئی یہ بھی الیکشن
پر اثر انداز ہونے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے اسی طرح الیکشن سے عین قبل کشمیر
کے موقف پر یوم سیاہ اور اخبارات کے اشتہارات کشمیر پر اْصولی موقف کا
اعادہ وغیرہ حکومت کے پلس پوائنٹ اور وغیرہ وغیرہ ہیں۔
مگر پھر بھی کشمیر کے اس الیکشن میں عوامی اور حکومتی دلچسپی اور اس عمل
میں محنت اور جدوجہد سیاسی جماعتوں کے جلسے اور جلوس اور گہما گہمی کشمیر
کیلئے اور کشمیر عوام کیلئے بہت کچھ بہتر ہونے کی نوید سنا رہے ہیں۔ پی پی
پی نے اپنے پانچ سال مکمل کیے کارکردگی سب کے سامنے تھی اور پھر ٹکٹوں کی
فروخت اور اہل افراد کو نظر انداز کرنا سب کچھ ان کی خبر دے رہا تھا مگر
سیاسی سطح پراس قدر توجہ بلاول کی سیای ٹریننگ کے علاوہ ایک اچھا عمل ہے پی
پی پی کو ایک ایڈ وانٹیج یہ بھی رہا کہ ان کی میڈیا کمپین بہت خوبصورت اور
معیاری ڈیزائن کی گئی تھی جس کی بنا پر الیکشن مین کافی بہتر پوزیشن نظر
آئی عمران خان کا نتائج تسلیم کرلینا اچھی روایت ہے۔
اس دفعہ جماعت اسلامی سیاسی میدان میں بازی لے جانے میں کامیاب رہی کشمیر
کی سطح پر الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد زمینی حقائق کو تسلیم کرتے
ہوئے کرلینے سے سبکی سے محفوظ رہنے کے علاوہ کچھ نہ کچھ ہاتھ مین آنے کا
باعث ثابت ہوگا اگر چہ وہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے لیکن اس
فیصلے میں عبد الرشید ترابی کی محنت اور درست فیصلہ بہت خوب ثابت ہوا جبکہ
جمعیت علماء اسلام ف سست ثابت ہوئی اور کشمیر کی سطح پر الیکشن کو مکمل طور
لوز کیا حالانکہ جماعت اسلامی کے مقابلے میں ن سے ایڈجسٹمنٹ ان کے لیے آسان
ہے وہ الگ بات ہے بہت چھوٹی سی سفارش پر وہ بعض اوقات اپنی جیتی ہوئی سیٹ
بھی دوسروں کی گود میں ڈال دیتے ہیں راولپنڈی پی پی گیارہ کا الیکشن اس بات
کا ثبوب ہے گزشتہ کل فیس بک پر ایک محترم دوست اور کالم نگار عبد القدوس
محمدی کے مولانا سعید یوسف کے الیکشن کے حوالے سے پوسٹ پر مختصراً ایک بات
تحریر کی کہ حکومت ۔۔۔۔۔۔حکومت ہے تو ایک دوسرے دوست نے فون پر گلہ کیا کہ
آپ مولانا سعید یوسف کے الیکشن جیتنے کے خلاف ہیں میں نے کہا کہ بھائی مجھے
تو خوشی ہوگی کہ مولانا الیکشن جیت جائیں لیکن زمینی حقائق اس کے بر عکس
ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ دعا تو کرسکتے ہیں، مایوس کن باتیں کیوں کرتے
ہیں میں نے کہا کہ میرے بھائی میدان عمل میں دعا اور دوا دونوں کی ضرورت
ہوئی اور پھر یہ جو کہا گیا کہ ’’ من جد وجد ‘‘ اس کا کیا مطلب ہے اور ’’
ہمت مرداں مدد خدا‘‘ کیوں کہا جاتا ہیخیر وہ جے یو آئی کے جیالے تھے میں
اْنہیں نہیں سمجھا سکا لیکن اب سمجھ آگئی ہوگی ۔
اس روایتی الیکشن میں صحافتی برادری کے ایک نامی گرامی لیڈراور ممتاز اینکر
اور صحافی ہمارے بھائی اور دوست مشتاق منہاس بھی معرکہ سرکرنے میں کامیاب
ہوئے ہیں وہ جفاکش محنتی جذبے والے فرد ہیں انتہائی باصلاحیتاورقابل اور
سمجھدار انسان ہیں۔مسلم لیگ ن اگر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اْٹھا ئے تو
اْٹھا سکتی ہے ۔اور توقع کی جاسکتی ہے کہ مشتاق منہاس نے جیسے صحافتی
برادری کیلئے بے مثال جدوجہد کی وہ اپنے ابائی علاقے کے لوگوں، بھائیوں،
بہنوں اور بزرگوں کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
دعا ہے کہ یہ الیکشن کشمیر میں عملی تعلیمی تربیتی ترقی کا زریعہ ثابت ہو
اور منتخب شخصیات عوام کی خدمت کو دیانت داری سے سر انجام دے کر اپنے فرائض
منصبی سے عہدہ برآں ہوں اورکشمیر جنت نظیر کے عوام کے مسائل معاشی مشکلات
اور پریشانیاں حل ہوں اگر خدمت کا سلسلہ جاری رہا تو عوام نے جیسے آج ’’چشم
ماروشن دل ماشاد‘‘ کیے ہیں اسی طرح پھر انہیں عزت اور خدمت کا موقع فراہم
کریں گے نہیں تو جانے والوں کی طرح فراموش کرکے حقیقی پیغام دیں گے سب
جانتے ہیں کہ پولنگ بوتھ میں کیمرہ نہیں ہوتا اور حقیقی فیصلہ وہیں ہوتا ہے۔
|