چھوٹا منہ اور بڑی بات

زرداری کے دور کے خاتمے کے بعد حالات بتا رہے تھے کہ اب پی پی پی کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔ بھٹو نییہ پارٹی بنائی تھی اور اس کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔ بھٹو سے لاکھ اختلاف سہی، اس کی بے شمار غلطیاں سہی، مگر اس حقیقت سے کو ئی ا نکار نہیں کر سکتا کہ وہ واقعی ایک لیڈر تھا۔ جہاں اس نے غلطیاں کیں وہاں کچھ اچھے کام بھی کیے مثلا ایٹم بم کی داغ بیل بھی ڈالی۔ بھٹو کے بعد بے نظیر آئی اس کی ابتدا تو اتنی اچھی نہیں تھی مگر اس میں مستقبل کی جھلک تھی جو بعد ازاں صحیح ثابت ہوئی اور اس نے بھی منوا لیا کہ وہ بھی لیڈرشپ کی حقدار تھی۔ مگر اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ اپنی پارٹی میں موجود کئی اہل اور نظریاتی افراد کو رد کر کے ایک گمنام سے شخص سے شادی کر لی جو بعد میں بے نظیر کے نام سے پہچانا گیا اور اس کے ذہن پر یہ کومپلککس اس قدر سوار تھا کہ جب وہ صدر پاکستان کی حیثیت سے یو این او میں تقریر کرنے کھڑا ہوا تو بے نظیر کی تصویر لہرا کر سب کو دکھائی اور اسے سامنے رکھ کر تقریر کی، گویا وہ پاکستان کی نہیں بے نظیر کی نمائندگی کر رہا تھا شاید ایسی اور کوئی مثال یو این او میں نہ کبھی پہلے تھی اور نہ کبھی آئندہ ہو گی۔

اب ذرداری اپنا دور گزار کر فرار ہو چکا ہے اور مستقبل قریب میں اس کی واپسی کی کوئی امید نہیں ہے جب تک کہ ایک اور این آر او نہ آ جائے جس کی فی الحال امید نہیں۔ جب ذرداری نے اپنا کالا دور، پاکستان کی تاریخ کا سب سیبرا دور گزار لیا اور فرار بھی ہو گیا تو پارٹی کی حالت بہت بری ہو گئی وہ پارٹی جو چاروں صوبوں کی نمائندہ کہلاتی تھی آج اپنے صوبے میں بھی پوری طرح پاور میں نہیں آ سکی، تو اب ذرداری نے نیا مہرہ آگے بڑھایا ہے جی ہاں ہم بلاول ذرداری کی ہی بات کر رہے ہیں۔

کیا عبرتناک منظر ہوتا ہے جب بڑے بڑے جغادری سیاستدان جن کا صرف تجربہ ہی بلاول کی عمر سے دگنایا دگنے سے بھی زیادہ ہے اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں ،پچاسی سال کے وزیر اعلی اس بچے کے سامنے ایک آواز پر ادب سے حاضر ہو کر اپنا استعفی پیش کر دیتے ہیں اور وہ نئے وزیراعلی کا نام خود اناوٗنس کرتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے عمر اسی دشت کی سیاہی میں کاٹ دی ہے وہ رہنمائی کے لیے اس کل کے بچے کی طرف دیکھتے ہیں۔ اﷲ ان کے حال پر رحم کرے۔

بلاول اگر بھٹو کا نواسہ ہے یا بے نظیر کا بیٹا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بھی لیڈر ہو گا۔ اس میں دور دور تک لیڈرشپ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اس لیے وہ اپنی ماں کی آواز اور انداز میں تقریریں کرتا ہے وہ تقریریں جن میں بھٹو کی تقاریر سے بھی جملے چرا کر شامل کیے جاتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ بھٹو ہو یا بے نظیر وہ جو تقریر کرتے تھے وہ ان کے اندروں سے نکلی آواز ہوتی تھی جب کہ یہ بلاول ان کی نقل میں اپنی اصل بھی کھو بیٹھا ہے جس کی وجہ سے اسے بلو رانی کا خطاب بھی مل چکا ہے۔ بھٹو کی تقریر ہزاروں کے مجمع پرسحر طاری کر دیا کرتی تھی اور آخر میں سامعین اسی نکتے پر متفق ہو جاتے تھے جہاں بھٹو ان کو لانا چاہتا تھا۔بے نظیر میں اتنی کوالٹی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ جو کہتی تھی اپنے اندر سے کہتی تھی مگر بلاول صرف سطحی طور پر چلاتا رہتا ہے کوئی بات ایسیء نہیں جو اس کے دل کی بات ہو۔
ہم نوازشریف کی حمایت یا مخالفت سے بالا ہو کر بعض نکات سامنے لانا چاہتے ہیں کیونکہ ہماری عوام کی یاد داشت بہت کمزور ہے انہیں بار بار ایک بات یاد دلانی پڑتی ہے مگرپھر بھی وہ بھول جاتے ہیں اور خوشنما کھوکھلے نعروں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بلاول کی حالیہ تقاریر میں کرپشن کا بہت ذکر ہوتا ہے جب وہ منہ بھر بھر کر اچھل اچھل کر نین مٹکاتے ہوئے لچکیلے انداز میں یہ سب کہتا ہے تو ہمارے ذہن میں یہ جملہ گونجتا ہے، ․․چھوٹا منہ اور بڑی بات․ کیا یہ اتنا ہی معصوم ہے؟ کیا اسے اپنے باپ کی اصلیت نہیں پتہ؟۔

بے نظیر کا پہلا دور تھا ، آصف ذرداری کے کرپشن کی گونج غیر ممالک میں بھی سنی گئی، غیر ممالک کے میڈیا نے کس کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا تھا؟ اس دور میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اچانک بہت بڑھ گئی تھیں مگر کوئی مجرم پکڑا نہیں جاتا تھا یہاں تک کہ ایک صاحب غالبا لندن سے تشریف لائے وہ پاکستان میں کچھ رفاہی کام کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے بہت بڑی رقم بی سی سی آئی کے ذریعے پاکستان منتقل کی اور خود بھی آ گئے مگر یہاں ان کو اغوا کیا گیا اور ان کو مجبور کیا گیا کہ بنک سے رقم نکلوا کر اغوا کاروں کے حوالے کر دیں جب وہ مجبورا راضی ہوئے تو ان کی ٹانگ سے بم باندھ کر انہیں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع بنک میں لے جایا گیا ، وہاں انہوں نے رقم نکلوا کر ان کے حوالے کی تو انہیں دھمکیاں دے کر چھوڑ دیا گیا وہ جہاں سے آئے تھے وہیں پہنچ گئے اور یہ سارا قصہ کھول دیا ان کے اشارے کس شخص کی طرف تھے؟ ان دنوں ویڈیو نیوز بھی آنی تھیں ایک کمپنی نام ہمیں یاد نہیں ہر ماہ پورے مہینے کی اہم خبروں پر مشتمل کیسٹ جاری کرتی تھی اس کا آخری کیسٹ ان ہی اغوا کی وارداتوں سے متعلق تھا اس میں مغویوں اور ان کے گھر والوں کے انٹرویو بھی شامل تھے اور ایک بڑا انکشاف ہونے والا تھا مگر ہوا کیا؟ جس دن وہ کیسٹ ریلیز ہو رہی تھی صبح ہی صبح پولیس نے ریمبو سینٹر کو گھیر لیا اورساری کیسٹس ضبط کر لی گئیں دور نے نظیرہی کاتھا ایسا کیوں ہوا ،آخر اس کیسٹ کی ریلیز سے کس کو خطرہ تھا؟

بے نظیر کا دوسرا دور بھی کچھ مختلف نہیں تھا ہاں ذرداری نے ضرور ترقی کر لی تھی اور اس کا ریٹ اب ٹین پرسنٹ نہیں رہا تھا بلکہ بہت بڑھ گیا تھا بعض کیسوں میں تو ہنڈرڈ پرسنٹ کی خبریں بھی آئی تھیں، لطیفے کی بات یہ ہے کہ اسی دوران میں ترکی میں بھی ایک خاتون تانسو چلر وزیراعظم بن گئی تھیں ان کے شوہر نامدار تانسو نے بھی اتنا ہی نام کمایا تھا جتنا ذرداری نے،کہ غالبا مغرب کے کسی اخبار نے بے نظیر اور تانسو کی تصاویر سرورق پر چھاپیں اور نام یوں لکھے بے نظیر چلر ، تانسو ذرداری۔ اس سے ظاہر کیا گیا کہ دونوں کے شوہر ایک سے ہی کرپٹ ہیں۔

بلاول کا ایک نعرہ یہ بھی ہے جو پابندی سے ہر تقریر میں لگواتا ہے کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے، بے شک ایسا ہی ہے مگر جو راجیو گاندھی کا یا کی یار ہو وہ؟ بلاول اپنی یاد داشت تازہ کرو ، انڈیا کا وزیراعظم راجیو گاندھی شدید پریشان تھا ایک طرف کشمیر دوسری طرف خالصتان موومنٹ اس کو بھارت کے ٹکڑے ہوتے نظر آ رہے تھے، ایسے وقت بے نظیر نے خالصتان موومنٹ کے سرخیلوں کی فہرست آپ کے انکل اعتزاز احسن کے ہاتھ بجھوائی تھی جس کے بعد ان لوگوں کا چن چن کر خاتمہ کر دیا گیا اور خالصتان موومنٹ ختم ہو گئی یاد رہے یہ ہم نہیں کہہ رہے بے نظیر کا اپنا بیان ہے جو ریکارڈ پر ہے ، اب ذرا بتاوٗ کہ جو راجیو کا یا کی یار ہے وہ کیا ہے؟ کشمیر پر بھی بلاول بہت چیختا ہے کہ موجودہ حکمران کشمیر کے لیے کچھ نہیں کر رہے ان کی مودی سے دوستی ہے وغیرہ وغیرہ، چھوٹے میاں ذرا یہ تو بتاوٗ آپ کے والد نے ابھی تین سال پہلے اپنا پانچ سال کا ٹرم پورا کیا ہے کیا اس وقت کشمیر مظلوم نہیں تھا؟ اس وقت کیوں تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا اور جب اس وقت نہیں کیا تو اب کیا کرو گے؟ یہاں ایک بار پھر تمہیں ماضی کا دریچہ کھول کر ایک منظر دکھائیں، راجیو گاندھی پاکستان آیا تو بے نظیرنے کشمیر ہاوٗس پر سے بورڈ اتروا دیا تھا کہ کہیں راجیو کو برا نہ لگے۔ تو تو تو تو جو راجیو ،،،،،،،،،،،،، ہم آگے کچھ نہیں کہتے خود ہی سمجھ جائیں۔

بلاول کی تقاریر میں دہشتگردی کا اور طالبان کا بھی ذکر ہوتا ہے اور نزلہ حکومت پر ہی گرتا ہے، مگر اے بلاول حقائق بڑے تلخ اور بے رحم ہوتے ہیں جب ماضی سے پردے اٹھتے ہیں تو سچ ننگا ہو جاتا ہے۔ آوٗ ماضی کی ایک اور کھڑکی کھولیں پاکستان میں دہشتگردی کس نے شروع کی؟ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ، اس کے بچے خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے تھے تب ایک دھماکا ہوا پی آئی اے کا جہاز اغوا کر کے کابل پہنچا دیا گیا اغوا کاروں کا لیڈر ٹیپو تھا جس نے اپنا تعلق الذولفقار نامی تنظیم سے بتایا ۔ بعد ازاں اس نے پی پی پی کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور میر مرتضی بھٹو اس سے ملنے کابل پہنچے تو کوئی شک ہی نہ رہ گیا کہ یہ کون ہیں۔ کراچی میں پہلا بم دھماکا صدر بوہری بازار میں ہواجس میں سیکڑوں بے گناہ شہری اپنی جان سے گئے اور چند دن بعد عید تھی، اس دھماکے کے پیچھے کون تھا؟ آخر میں یاد دلا دیں کہ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو نصیراﷲ بابر نے کہا تھا یہ ہمارے بچے ہیں، کچھ یاد آیا بلاول؟

لگے ہاتھوں یہ بھی یاد کر لو کہ آج ایم کیو ایم پر را سے تعلقات اور تربیت لینے کا الزام لگایا جاتا ہے، یہ سچ ہے کہ ایسا ہے مگر ایم کیو ایم کو بنے کتنے سال ہوئے ہیں؟ اور الذولفقار کب بنی تھی؟ الذولفقار کے لوگوں کو دہشتگردی کی تربیت را نے فراہم کی تھی ان کے ٹریننگ کیمپس انڈیا میں تھے ۔ میر مرتضی بھٹو کی رہائش ہندوستان میں تھی۔

غرض :۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتائیں

ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا اب بال آپ عوام کورٹ میں ہے۔

کاش ہماری عوام اب جاگ جائے اور ان خوشنما و کھوکھلے نعروں کے جال سے نکل کر صحیح قیادت منتخب کرے ایسے لوگوں کو چنے جو واقعی ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوں اور پاکستان کے لیے کام کریں۔
Tughral Farghan
About the Author: Tughral Farghan Read More Articles by Tughral Farghan: 13 Articles with 11704 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.