اسلام آباد میں پاکستانی سفیروں کی کانفرنس
میں پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس کا سائنسی
بنیادوں پر تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم کے طور
پر احقر یہ سمجھتا ہے کہ کوئی ملک کٹ کر ترقی نہیں کر سکتا۔ ترقی کے لئے
دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑتا ہے۔ یہ دور ٹیکنالوجی کا ہے۔
ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی باتیں اب محاورہ نہیں حقیقت بن رہی ہیں۔ آج ہم
جو سوچتے یا تصور کرتے ہیں، سائنس چند برسوں میں ہی اسے عملی شکل پہنا رہی
ہے۔ بلکہ ماضی میں جو ہم سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ آج وہ حقائق سامنے آ رہے ہیں۔
ہم دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچا رہے ہیں۔ اب ہمیں زبانی جمع خرچ کرنے والے
لوگ درکار نہیں۔ انتہائی جانفشانی سے کام کرنے والے پروفیشنل ، سپیشلسٹ
چاہیئں۔ جو اپنے شعبوں میں عقل کل، جسے کبھی عقل سلیم بھی کہا جاتا تھا،
رکھتے ہوں۔
خارجہ پالیسی کو ہم نے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کو یوں آزاد
کرنے کا یہی مفہوم لیا جاتا ہے۔ جب کہ ہر ملک و قوم اپنے مفادات کو سامنے
رکھ کر منصوبہ بندی کرتی ہے۔ چیلنجز کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ معیشت کا تقابلی
تجزیہ ہوتا ہے۔ اس میں جذباتیت کا کوئی کردار نہیں۔ نظریات ترجیحات میں
شامل نہیں ۔ اگر کوئی سعودی عرب پر حملہ آور ہو، قبلہ کو خطرہ ہو، تو بلا
شبہ نظریہ غالب آتا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے سٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات
کو مدنظر رکھ کر تعلق استوار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایران، افغانستان ،
بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کا اپنا معیار ہے۔ ان ممالک کے ساتھ اس لئے بھی
دوستی کو ہر صورت میں فروغ دینا ضروری ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ہم اپنے
پڑوسیوں اور مسلم ممالک کو دشمنوں کی جھولی میں نہیں ڈال سکتے۔ بھارت کے
حوالے سے تحفظات ہیں۔ مگر بھارت میں ایک پاکستان بھی قائم ہے۔ وہ پاکستان
کے دوست ممالک کو بد ظن کر رہا ہے۔ اس کے بنگلہ دیش، ایران، افغانستان جیسے
ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات حیران کن حد تک بڑھ رہے ہیں۔ بر آمدات در آمدات
میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مفادات کی سفارتکاری کا اس حد تک غلبہ ہو رہا ہے کہ
یہ ممالک ماضی کے تمام تعلقات کو مستقبل پر قربان کر رہے ہیں۔ چابہار
بندرگاہ کو گوادر کے مقابلے میں لانے کی حکمت عملی بھی یہی ہو سکتی ہے کہ
اسلام آباد اور تہران کے مفادات کو الگ کر دیا جائے۔ کیوں کہ پائیدار دوستی
اور برادرانہ تعلقات مفادات کے سنگھم کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر مفاد
ہے تو تعلقات دوستانہ ہوتے ہیں ورنہ یہ سرد مہری کی نذر کر دیئے جاتے ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پسند و ناپسند کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں ہر
ایک ملک کا تعاون درکار ہے۔ ہر کسی کو گو کہہمنوا نہیں بنایاجا جا سکتا ہے۔
لیکن اسے دشمن بنانا یا دشمن کو گود میں ڈالنے کی پالیسی بھی انتہائی
ناکارہ ثابت ہو تی ہے۔ کوئی دوست نہیں تو دشمن بھی نہ ہو۔ افغانستان اور
بنگلہ دیش کو ہم بھارت کے میدان میں ڈال رہے ہیں۔ جبکہ وہ ہمارے سٹریٹجک
پارٹنر بن سکتے ہیں۔ یہی صورتحال ایران کی ہے۔ سعودی عرب ہمارا دوست ملک ہے۔
وہ ہمارا خیر خواہ ہے۔ ہر مشکل وقت میں ہماری ہر طرح سے مدد کرتا ہے۔ تا ہم
جب بات ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی ہو گی تو ہم دونوں کے درمیان
مفاہمت اور پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تا ہم دونوں ممالک کے دنیا سے
تعلقات کی اپنی نوعیت ہے۔ ہم اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح
افغانستان سے پاکستان کے دوستانہ تعلقات کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ افغانستان
خوشھال اور مستحکم ہو گا ، اگر وہاں امن و امان قائم رہے گا تو اس کے مثبت
اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ افغانوں کو شکایت رہتی ہے کہ پاکستان ان کے
اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ یہ شکایت دور کی جا سکتی ہے۔
افغانستان ہی نہیں پاکستان کو کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت
سے بچنا چاہیئے۔ عدام مداخلت کا اصول اپنانا ہی بہتر ہوتا ہے۔
مسقبل میں جو ممالک پاکستان کی سالمیت ،سلامتی، استحکام و ترقی کے لئے خطرہ
بن سکتے ہیں۔ ان سے الرٹ رہا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں ایسے اقدامات کئے
جاتے ہیں جن سے یہ خطرات وقتی طور پر ٹل جائیں اور اس کے بعد مکمل طور پر
ختم نہیں تو کم ہوتے جائیں۔ برادر ملک ترکی پاکستان کا ہر وقت ساتھ دیتا ہے۔
2005کے زلزلہ میں سعودی عرب، ترکی، امارات جیسے ممالک نے سب سے بڑھ کر
پاکستان کے ساتھ تعاون کیا۔ ایسے ممالک سے تعلقات مزید مضبوط ہو سکتے ہیں۔
جبکہ تجارتی رشتے بھی مزید استوار کئے جا سکتے ہیں۔ ہر ملک کی خاص مصنوعات
ہیں۔ جہاں سے بھی معیاری اور سستی اشیاء ملیں، وہاں سے حاصل کی جاتی ہیں۔
اس میں کسٹم ڈیوٹی ، کرایہ اور دیگر لاگت کا بھی تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ تا
ہم جس ملک کی بھی اہم مصنوعات ہیں ، ان سے اس کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر
خاص توجہ دینا ایک محب وطن اور کامیاب سفارتکار کی ذمہ دار ی بنتی ہے۔ جب
کہ سفارتکار ہی دوستی، تجارت، معاون اور ہمنوا بنانے میں مرکزی کردار ادا
کرتے ہیں۔
سفارتکاری قابلیت اور حب الوطنی کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر میرٹ کو پامال کرتے
ہوئے اگر ملک کے بجائے زاتی مفادات یا تعلقات ، دوستی کی بنیاد پر بیرون
ملک سفیر تعینات کئے جائیں گے تو وہ وہاں سوئے رہیں گے یا ملک کی نیک نامی
کے بجائے بدنامی کا باعث بنیں گے۔ یا اپنی مفاد کے اسیر بن جائیں گے۔ یہ
سفارتکاری کی خطرناک خرابی ہے۔ جب کہ ہمارے سفارتکاروں کو ہر وقت الرٹ اور
چست رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت، اپوزیشن ، صنعت کار، سرمایہ کار، میڈیا
کے ایڈیٹوریل بورڈز جیسے موثر اداروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کے ساتھ
لیزان قائم رکھنا ہوتا ہے ۔ یہاں اسلام آباد میں کئی ممالک کے سفیر سوئے
رہتے ہیں۔ یا سیر سپاٹوں، شاپنگ وغیرہ میں وقت ضائع کر تے ہیں۔ ایسے ممالک
بھی ہیں جن کے سفارتکار وں کے حکومتی افراد، اپوزیشن، مذہبی جماعتوں، تاجر
برادری، میڈیا سے مسلسل رابطے ہیں۔ وہ ہر ایک پروگرام میں نظر آتے ہیں۔
جولوگ اپنے ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، وہ ہر وقت متحرک
رہتے ہیں۔ وہ اپنے کام سے انصاف کرتے ہیں اور اس طرح رزق حلال کھاتے ہیں۔
معاشی طور پر مضبوط ملک ہی دنیا میں مقام حاسل کرتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ
پالیسی معاشی مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل پا سکتی ہے۔ تا ہم مسلہ کشمیر
اس میں رکاوٹ ہے۔ جب تک کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے، پاکستان کی سالمیت اور
سلامتی کو شدید خطرہ درپیش رہے گا۔ پاکستان کے سفارتکار کشمیر میں اقوام
متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کے لئے مہم چلا سکتے ہیں۔ سفارتی مشنز میں
کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں تو وہ بہتر طور پر دنیا کی حمایت حاصل کرنے کے
لئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کشمیر آزاد خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔
ہماری سفارتکاری سخت آزمائش میں ہے۔ کشمیریوں کی مسلسل قربانیوں سے دنیا
متوجہ ہو رہی ہے۔ اگر سفارتکار خلوص اور سرگرمی سے اپنی خدمات میں تیزی
لائیں تو دنیا کا بھارت پر دباؤ اہم پیش رفت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ |