امریکی میڈیا کا دعویٰ.......
امداد دے کر....امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان پر دباؤ کیوں.......؟
حضرت بایزید بسطامیؒ کا ایک قول ہے کہ سچائی میں بڑی طاقت ہے اور وہ اپنا
آپ دکھا کر رہتی ہے اور آج یہی حق اور سچ ہے جس کا انکشاف امریکا کے ایک
انتہائی معروف اخبار نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں) جس حقیقت کا والہانہ(
انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نائن الیون (جو مسلمانانِ عالم کے نزدیک خود
ساختہ امریکی ڈرامہ ہے )کے بعد دس سال سے دنیا بھر سے دہشت گردوں کے خاتمے
کے نام پر شروع کی جانے والی اِس امریکی جنگ جس میں اِس وقت ایک اندازے کے
مطابق کم و بیش 3100 کمپنیاں اور ایجنسیاں دن رات اپنے اپنے حصے کے کاموں
میں مصروف ِ عمل رہ کر بھی یہ نائن الیون کے ذمہ داروں کا سراغ لگانے میں
اَب تک ناکام رہی ہیں۔ اور یوں یہ اپنے اِس ہی فعلِ شنیع سے انسانوں کے لئے
دنیا کو جہنم بنائے ہوئے ہیں۔
مگر اِس سارے منظر اور پس منظر میں ایک انتہائی افسوسناک بات تو یہ بھی ہے
کہ امریکا جِیسے دہشت گرد ِاعظم نے دس سال قبل دنیا کو دہشت گردوں سے پاک
کرنے کی جو جنگ شروع کی تھی اتنا بڑا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ دادا گیر
امریکا اور اِس کے چیلے اَب تک اِس جنگ میں ایک فیصد بھی کامیابی حاصل کرنے
کا حقیقی معنوں میں اپنا کوئی دعوی ٰ نہیں کرسکے ہیں اُلٹا اِس جنگ کی
صُورت میں یہ بات دنیا کے سامنے آگئی ہے کہ اِنہیں جو ہزیمت اٹھانی پڑ رہی
ہے وہ بھی دنیا کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ بننے کو ہے۔
اور اِس کے علاوہ امریکا اور اِس کے حواریوں (جن میں ہمارا ملک پاکستان بھی
سرِفہرست ہے) کے لئے یہ سب سے زیادہ حیران اور پریشان کُن ایک نقطہ یہ بھی
ہے کہ امریکا کی جانب سے زبردستی کی اِس لاحاصل شروع کی گئی جنگ جس سے
متعلق خود امریکا کا یہ خیال ہے کہ اِس جنگ کا اختتام کب ...؟اور اِس حال
میں ہوگا....؟اِس کا کچھ پتہ نہیں ہے ....
بس اِس ہی جنگ سے متعلق اِس امریکی میڈیا نے اِن تمام حقائق کا احاطہ کرتے
ہوئے اپنی رپورٹ میں اِس کا دعوی ٰ کیا ہے کہ 11/9 کے بعد دنیا کا ٹھیکیدار
بننے والے امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی ہے جس کا اَب تک
کوئی سر پیر نظر نہیں آرہا ہے اِس جنگ سے امریکا کو تو کچھ حاصل نہیں ہو
سکا ہے اُلٹا امریکا نے اپنی اِس جنگ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں
اپنے خلاف روز بروز نفرت کا جذبہ پیدا کردیا ہے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جِسے
اَب امریکا کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ مسلم دنیا امریکا سے شدید نفرت کرنے
لگی ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِس امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ جِسے اِس نے ٹاپ
سیکریٹ امریکا"Top Secret America" کا نام دیا ہے جِسے اِس نے اِنٹیلی جنس
اور فوجی افسران و اہلکاروں اور دیگر اعلیٰ حکام کے انٹرویوز اور اِن کے
تجزیوں اور تبصروں کی روشنی میں تیار کی ہے اِس میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ دعویٰ
اور انکشاف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ایک امریکی ٹی وی فاکس نیوز کو انٹرویو
دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان پر زور دیتے ہوئے کہا
ہے کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ پاکستانی حکومت کا اعلیٰ سطح سے
نچلی سطح تک کوئی نہ کوئی فرد القاعدہ کی اعلیٰ قیادت اسامہ بن لادن ے بارے
میں ضرور جانتا ہوگا....؟کہ وہ کہاں ہے...؟اور یہی ہم جاننا بھی چاہتے ہیں
اور اِس کے ساتھ ہی اِس شاطر اور انتہائی اعلی ٰ درجے کی لومڑی جیسی آنکھوں
والی چالاک امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے یہ بھی کہا کہ اِس سلسلے میں
وہ القاعدہ کے خلاف پاک امریکا تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں جاننا
چاہتی بلکہ وہ تو ذاتی طور پر القاعدہ قیادت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے
میں دلچپسی رکھتی ہیں کہ بس پاکستان القاعدہ اور اِس کے اہم رہنما اسامہ بن
لادن کے بارے میں خفیہ معلومات فراہم کرے۔ جس کا اِس نے بار بار اظہار کرتے
ہوئے کہا ہے کہ یہ میری ذاتی دلچسپی کا عنصر ہے کہ میں القاعدہ اور اسامہ
بن لادن سے متعلق پاکستان سے ہر صورت میں معلومات حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
یہاں میرا یہ خیال ہے کہ ہیلری کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ خود القاعدہ اور
اسامہ بن لادن سے متعلق معلومات حاصل کررہی ہے.....؟ اِس صُورت حال میں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لومڑی جیسی چالاک امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن
کو بھلا کیا ذاتی دلچپسی ہے کہ وہ اپنے دشمن القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے
متعلق معلومات حاصل کرے....؟ اور اِسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے فرائض
پر اپنی ذاتی دلچسپی کو فوقیت دے رہی ہے......؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس کا
القاعدہ کی بہادر قیادت اور اسامہ بن لادن پر دل آگیا ہو....؟اور وہ اِنہیں
بچانے اور اِس آڑ میں امریکی سازش کے جال میں پھنسانے کے لئے اپنے عشق
ومحبت کا کوئی چکر چلا کر امریکی ٹکروں کا حق ادا کرنا چاہ رہی ہو .....؟ویسے
کچھ بھی ہو امریکا کو یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ القاعدہ
کی قیادت اور اسامہ بن لادن نہ تو پاکستان میں موجود ہے اور نہ ہی پاکستانی
حکومت کا اعلی ٰ سطح سے نچلی سطح تک کسی بھی فرد کا القاعدہ اور اسامہ بن
لادن سے کوئی رابطہ ہے...
اور یہ کیا کہ امریکی چند ڈالر پاکستان کو امداد دے کر اِس کے ڈانڈے ترنت
القاعدہ سے ملاکر پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف صاف وشفاف کردار کو مشکوک
بنا دیتے ہیں۔ اِنہیں پاکستان جیسے اپنے مخلص دوست پر ایسا الزام لگانے سے
پہلے سو مرتبہ ضرور سوچ لینا چاہئے کہ وہ پاکستان پر کیا الزام لگا رہے ہیں
....؟اور کیوں وہ ایسا کر رہے ہیں.....؟اور اِس کے ساتھ ہی اِس بے حس اور
منافقانہ امریکی رویے پر ہمارے غیور اور محب وطن .......؟؟؟؟؟ حکمرانوں اور
سیاستدانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہاتھ پھیلا کر امریکا سے امداد اور
خیرات بٹورنے سے پہلے ہی اِس کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے ہر غلط الزام
کا منہ توڑ جواب دیں پھر بیشک اِس سے اپنی جھولی پھیلا کر امداد لیں۔
اور اِس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ اِس روئے زمین پر بسنے والے
ہر انسان اور اِسی طرح بالخصوص دنیا کے ممالک کے حکمرانوں کا بھی فرض ہے کہ
وہ اپنے آپ کو حقیقتوں کے آئینے میں پہچانیں اور اگر اِنہیں خود میں کوئی
خرابی نظر آئے تو اُسے درست کریں۔ اور جب یہ اُسے ٹھیک کرلیں تو پھر اِنہیں
چاہئے کہ وہ انسانوں کی دنیا میں خود کو ایک مثالی کردار میں پیش کریں اور
انسانوں کے ساتھ امن و سکون سے رہیں اور اپنے اندر پائی جانے والی ہر چھوٹی
سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی غلطی پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہیں تاکہ اِن کی
کسی غلطی کی وجہ سے اِن کا گھر، محلہ، معاشرہ، ملک اور دنیا کسی مصیبت میں
نہ پھنس جائے۔ اس موقع پر مجھے شیکسپئر کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ جو لوگ
اور ملکوں کے حکمران اپنے اندر پائی جانے والی غلطی کو درست کرنا نہیں
چاہتے تو اِنہیں نہ تو زندگی گزارنے کا طریقہ آتا ہے اور نہ ہی ایسے حکمران،
حکمرانی کرنا جانتے ہیں وہ کہتاہے کہ ایسے لوگوں کو اطاعت کرنے کا ڈھنگ
سیکھ لینا چاہئے تو ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا گھر، محلہ، معاشرہ ، ملک اور
دنیا اِن کی اِس مثبت اور تعمیری تبدیلی سے گل وگلزار بن جائے۔
اور اِس کے ساتھ یہی ایک حقیقت ہے کہ جب دنیا کے کسی معاشرے میں بسنے والا
کوئی انسان اپنے اندر پائی جانے والی منفی حقیقتوں کو جاننے سے عاری ہو تو
پھر اِسے زمین پر اکڑ کر چلنے اور اپنے وجود سے دنیا کو جہنم بنانے کا کوئی
حق نہیں یقیناً ایسا انسان زمین پر ایک بوجھ اور بداخلاقی کا ایک ایسا گندا
انبار ہے جس کے وجود سے دنیا میں قدم قدم پر فتنہ فساد اور برائیاں جنم
لیتی رہتی ہیں۔ اِدھر جس کی مثال میں امریکا جیسے اُس ملک سے دینا چاہوں گا
کہ جو آج خود کو بڑا تہذیب یافتہ اور انسانیت کے حقوق اور تحفظ کا بڑا
علمبردار بنا پھرتا ہے مگر اِس کے اِس یکطرفہ نظر آنے والے رویوں کا دوسرا
رخ وہ ہے جو اِس نے اپنے یہاں نائن الیون کو پیش آنے والے ایک خودساختہ
ڈرامے کے بعد اُمتِ مسلمہ کے خلاف روا رکھ کر اِس میں اپنے لئے پہلے سے
موجود نفرت کی آگ کو مزید بھڑکا دیا ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ آج دنیا میں بسنے والا کوئی بھی مسلمان ہو وہ اِس سے
قطعاً انکار نہیں کرسکتا کہ امریکا نے نائن الیون کے بعد دنیا بھر کے
مسلمانوں سے متعلق اپنے ظالمانہ رویوں سے اِن کے دلوں میں نفرت کی جو آگ
بھر دی ہے وہ اَب یوں اتنی جلدی ٹھنڈی نہیں ہوسکتی کیوں کہ اَب اِن امریکی
مظالم پر خاموشی اختیار کرنے والی اُمت مسلمہ کو بیدار ہونے اور دنیا سے
امریکا کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اِسے متحد اور منظم ہونے کی اشد
ضرورت ہے تاکہ مسلم امہ اپنے اتحاد اور جذبے سے سرشار ہوکر اِس صدی کی
فیصلہ کن صلیبی جنگ کے بعد ہی اپنی فتح و کامرانی کی صُورت میں اپنے دلوں
میں لگی امریکا سے نفرت کی یہ آگ ٹھنڈی کرسکے گی۔ اور پھر یوں مسلم امہ
اپنے اتحاد اور جذبے سے ہی امریکا کو شکست دے کر اِس کا گھمنڈ خاک و خون
میں ملا دے گی۔ اِس سے بیشتر امریکا کو چاہئے کہ وہ اپنی غلطیوں کا ازالہ
اُمت مسلمہ سے معافی مانگ کر کرے۔ ورنہ اپنے اِس انجام کو پہنچنے کے لئے
تیار ہوجائے جس کا میں پچھلی سطور میں ذکر کر چکا ہوں۔ |