بھارتی ریاست تلنگانہ کے علاقہ سکندر آباد
میں 28 جولائی کو ایک خاتون یاپرال جواہر نگر تھانے پہنچی اور پولیس سے ایف
آئی آر درج کرنے کامطالبہ کیا۔ اے جوزف نامی اس خاتون کا مطالبہ یہ تھا کہ
اس نے اپنے گھر میں 4 آوارہ کتے رکھے ہوئے تھے، انہیں کسی نے زہر دے کر مار
ڈالا ہے جبکہ ایک کتیا پر تیزاب پھینکا گیا ہے۔ اس خاتون نے ساتھ ہی پولیس
کو انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل انڈیا کا ایک خط بھی دیا
جس میں لکھا گیا ہے کہ جو کوئی کتوں کو مارنے والے کی نشاندہی کرے یا
قانونی کارروائی کے لئے معلومات فراہم کرے، اسے 50 ہزار کا نقد انعام دیا
جائے گا۔ ساتھ ہی بتایا گیا کہ جن 3 کتوں کو زہر دیا گیا تھا انہیں بلیو
کاسٹ نامی ایک تنظیم اپنے ساتھ لے گئی تھی تاکہ ان کا علاج معالجہ کر کے ان
کی جان بچائی جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ خاتون کی درخواست پر مقدمہ کا
اندراج ہوا اور پھر تب سے اب تک علاقے کی پولیس کی دوڑیں ایسی لگی ہوئی ہیں
کہ وہ کتوں کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے باؤلی ہوئی پھرتی ہے اور قاتل
ہیں کہ پھر بھی ہاتھ نہیں آ رہے۔
اسی بھارت کی یہ ایک اور ریاست ہے جس کا نام مدھیہ پردیش ہے۔ یہاں کتوں کے
واقعہ سے صرف 2 دن پہلے یعنی 26 جولائی 2016کو مندسور ٹاؤن کے ریلوے سٹیشن
پر ہندوؤں نے اچانک 2 مسلم خواتین کو گھیر لیا اور پھر سرعام دونوں کی
پٹائی شروع کر دی۔ان کا جرم یہ بتایا گیا کہ ان کے پاس گائے کا گوشت تھا۔
بے بسی کی تصویر بنی خواتین نے اپنے پاس موجود وہ خریداری رسید بھی دکھائی
جس پر لکھا تھا کہ یہ گوشت بھینس کا ہے۔ مار پیٹ سے شروع ہونے والی بات مار
پیٹ پر ہی نہیں رکی، وشوا ہندو پریشد سے وابستہ ان ہندوؤں نے مسلمان خواتین
کی سر عام ہر طرح سے چھیڑ چھاڑ کرتے تصویریں اور ویڈیوز بھی بنانا اور انٹر
نیٹ پر ڈالنا شروع کر دیں۔ اسی دوران میں کسی نے پولیس کو خبر دی تو پولیس
نے آ کر پہلے خوب تماشہ دیکھا، پھر ’’ قانون کے پابند ‘‘بن کر ہندوؤں کے
شکنجے سے خواتین کو تو چھڑوایا۔اس کے ساتھ ہی انہیں تھانے لے جا کر پہلے ان
پر گائے کا گوشت کاٹنے اور پھر قانون انسداد مظالم حیوانات 1960ء کی مختلف
دفعات کے تحت مقدمات درج کر کے جیل منتقل کرا دیا۔یوں ساتھ ہی معاملہ عدالت
میں پہنچ گیا، جہاں اب خواتین کی پیشیاں جاری ہیں اور بھارتی میڈیا تماشہ
دکھا رہا ہے۔ خواتین سے برآمد ہونے والا گوشت لیبارٹری بھیجا گیا تو وہاں
سے بھی تصدیق ہوئی کہ خواتین سے جو گوشت برآمد ہوا ، بھینس ہی کا تھا لیکن
مسلمانوں کی جان کیسے چھوٹے؟
کتوں کے مارے جانے کے واقعہ کے دو دن بعدیعنی30جولائی 2016کو راجستھان میں
ہندوؤں نے ایک مسلم نوجوان پر گائے کا گوشت لے جانے کا الزام عائد کیا اور
پھر اس کی سر بازار ایسی پٹائی کی کہ الامان و الحفیظ……اس سارے معاملے کو
بھی ایک کھیل تماشہ بنا کر اس کی بھی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر ڈال دی گئی
کہ سب مسلمانوں کا یہی حشر ہو گا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ چند روز پہلے ا
یسے ہی واقعہ میں ایک مسلمان کو ہندوؤں نے پکڑا اور بے تحاشہ مار پیٹ کے
بعد اسے گائے کا گوبر کھلایا اور گائے کا پیشاب پلایا تو اس سب تماشے کی
ویڈیو بھی دھڑلے سے انٹرنیٹ پر ڈال دی گئی،اس سب کے باوجود حرام ہے کہ
بھارت میں کسی ایسے ہندو کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہو یا ہو سکے۔یہ کون
سے بھارتی مسلمانوں کے حشر نشر کی کہانیاں ہیں؟ جی ہاں! وہی بھارتی مسلمان
جو بھارت میں 27 کروڑ سے زیادہ آبادی کے دعویدار ہیں۔ بھارت ان کی آبادی کو
16 کروڑ تسلیم کرتا ہے لیکن پھر بھی ملک میں ان کی حیثیت انگلی پر گنے جانے
کے برابر بھی دینے کو تیار نہیں۔ کتوں کی ہلاکت کے معاملے پروہی بھارتی
پولیس الٹی لٹکی ہوئی ہے جودن رات ملک بھر میں مسلمانوں کو اپنی زیر نگرانی
ہندوؤں سے پٹواتی اور قتل تک کراتی ہے اور بھارتی مسلمان ہیں کہ خون کے
آنسو بہا کر سوائے ضبط کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ بھارت کے کونے کونے
میں ہندوؤں کا جب کبھی شغل میلے کو جی چاہتا ہے تو ان کے سبھی بچے بوڑھے
جوان راہ چلتے مسلمانوں، ان کی خواتین، ان کی دکانوں، گاڑیوں اور گھروں پر
دھاوے بولتے، انہیں پکڑتے، بدترین طریقوں سے مارتے، ان کی تصویریں، فلمیں
بناتے اور پھر انہیں تفریح طبع کے لئے اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ڈال
دیتے ہیں۔بھارتی مسلمانوں کو جرم ضعیفی کی سزا میں ایسی مرگ مفاجات کا
سامنا ہے کہ اس کا انہیں کوئی حل نظر نہیں آتا۔کلکتہ میں 31جولائی کو ایسی
ہی ہندوؤں نے ایک 41سالہ مسلمان کو یہ کہہ کر مار ڈا لاکہ وہ بجلی چور
تھا۔لیکن ذرا ٹھہرئیے، اسی بھارت کے زیر قبضہ ایک علاقہ کا نام ریاست جموں
کشمیر ہے جہاں بھارت نے گزشتہ تین دہائیوں سے ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس
لاکھوں مسلح فوجی تعینات کر رکھے ہیں کہ وہ یہاں کے باسیوں کو اپنے زیردام
لا سکیں۔ یہاں کی ساری کل مسلم آبادی ایک کروڑ بھی نہیں۔ یہاں کے مسلمانوں
کو ہر لحاظ سے تباہ و برباد کرنے کے لئے بھارتی مسلمانوں کی طرح ان کے خلاف
ہر تکنیک کا استعمال کیا گیا۔ ظلم و دہشت اور قتل و غارت گردی کا وہ کون سا
حربہ ہے جو بھارت نے یہاں نہیں آزمایا لیکن یہاں کے باسی کشمیری اس بھارت
کے لئے لوہے کا وہ سخت چنا ثابت ہوئے ہیں کہ نہ نگلے جا سکیں اور نہ تھوکے
جا سکیں…… کیوں؟صرف اس لئے کہ انہوں نے ایک ہی فیصلہ کیا ہے، عزت کے ساتھ
جی نہیں سکتے تو عزت کے ساتھ مر تو سکتے ہیں،تاریخ عالم جانتی اور دنیا
مانتی ہے، جو مرنے کے لئے تیار ہو جائے پھر اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا۔
یہ سرینگر شہر کا مرکزی علاقہ ڈاؤن ٹاؤن ہے ۔یہاں جہادی کمانڈر برہان وانی
کی شہادت کے بعد ساری وادی کی طرح بدترین قتل و غارت گری اور مار دھاڑ کے
بعد اب کئی روز سخت ترین کرفیو ہے۔ اس کرفیو کے بیچ ایک5 سالہ ننھا بچہ گھر
سے غلیل لئے نکلتا ہے اور پھر…… غلیل میں پتھر ڈال کر پاس کھڑے بھارت کے
فرعونی فوجیوں پر تان کر انہیں للکارنا شروع کر دیتا ہے…… فوجی ہاتھ آگے کر
کے دفاع کی دیوار بنا رہے ہیں تو ساتھ ہی اس ننھی کلی سے التجا کر رہے ہیں
کہ وہ انہیں پتھر نہ مارے…… یہاں ایک دوسرے مقام پر ایک ایسا ہی بچہ مظاہرے
میں پلے کارڈ لئے کھڑا ہے ’’ میں برہان وانی ہوں ،مجھے قتل کرو۔‘‘بھارت ان
کشمیریوں کے ہاتھوں دنیا بھر میں رسوا ہے،انہیں رام کرنے کے لئے ان کے ہر
سطح کے عہدیدار یہاں کے دورے کرتے ہیں لیکن بات نہیں بنتی۔بھارت جانتا ہے
کہ جس دن کشمیر کا کوئی فیصلہ ہوا تو اس کا غیر فطری وجود بکھرنے میں دیر
نہیں لگے گی کہ یہاں بے شمار مظلوم من میں چنگاریاں دبائے بیٹھے ہیں۔
بھارت کے 27 کروڑ مسلمانوں سے کوئی پوچھے، آخر کیا وجہ ہے کہ اب تک ان میں
کوئی ایسا بچہ پیدا نہیں ہو پایا جو یوں سینہ تان کر کھڑا ہو سکے۔ بھارت
میں کتوں کے قتل سے توکہرام بپا ہے، قاتلوں کی گرفتاری پر انعام مقرر ہیں
لیکن 27 کروڑ مسلمانوں کی حیثیت بھارت اور بھارتی ہندوؤں کے سامنے کتنی
ہے؟سب جانتے ہیں۔ بھارت میں ہندوؤں نے تقسیم ہند کے بعد بھارت میں جتنے
مسلمان قتل کئے، ظلم ڈھایا،نئی دہلی کے نیتاکشمیر میں لاکھوں کی فوج کے
ذریعے سے بھی اتنے قتل اور ظلم نہیں کرسکے۔ وہ جتنا بھی ظلم ڈھائے ،اسے
بالآخر کشمیریوں کے سامنے اپنی ناتوانی کی بساط بچھانا ہی پڑتی ہے…… کہ اس
کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں۔سوال تو بس اتنا ہے کہ بھارتی مسلمان یہ
سب کب سوچیں گے اوراس راہ کی طرف آئیں گے۔ |