بے گنہ کون ہے اس ملک میں قاتل کے سوا

آج یہی صورتحال ہم ہندستانیوں کا مقدر بن چکی ہے ۔بی جے پی کی مرکزی و ریاستی سرکارو ں نے جیسے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک کر جب تک کہ جلا کر راکھ نہ کرڈالیں گی ،چین سے نہیں بیٹھیں گی
جب کوئی پرلے درجے کا بے غیر ت و بے حیا ہو جائے پھر اسے کیا ، وہ کچھ بھی کرسکتا ہے ۔فارسی کامشہور مقولہ ہے ’ بے حیاباش ہر چہ خواہی کن‘۔یعنی انسان جب بےشرم ہو جاتا ہے تو اس کے اندرون کی تمام اچھائیاں اک اک کرکے رخصت ہوجاتی ہیں اور وہ ساری خباثتیں ابھر آتی ہیں جو اس کے اندر کسی سبب دبی رہتی ہیں ، پھر وہ انسان نہیں درندہ اور سفاک بن جاتا ہے ۔ خیریہ تو ایک فرد کے بگاڑ کی بات ہے ، جس کی درندگی اور سفاکیت کے اثرات بہر حال محدود ہوتے ہیں کیونکہ اس کی سرزنش اور ازالہ ٔ شر کیلئے سماجی اور سرکاری سطح پر کچھ اصول و قوانین موجود ہوتے ہیں ،جس کے زور پر اس کی حیوانیت اور فتنہ سرائیوں پر انکش لگاکر داخل زنداں کردیا جاتا ہے اور عوام الناس میں سکون و اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔لیکن جب یہ ساری برائیاں اور مجرمانہ خصلتیں انتظامیہ اور قانون ساز اداروں میں سرایت کرجائیں تو پھر سماج کو افراتفری کے ہلاکت خیز طوفان سے بھلا کون بچا سکتا ہے ۔

آج یہی صورتحال ہم ہندستانیوں کا مقدر بن چکی ہے ۔بی جے پی کی مرکزی و ریاستی سرکارو ں نے جیسے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک کر جب تک کہ جلا کر راکھ نہ کرڈالیں گی ،چین سے نہیں بیٹھیں گی ۔ملک کے گوشے گوشے میں آج اسی طرح کی خبریں گشت کرتی رہتی ہیں ، اخبارات اٹھائیں ، نیوز چینل کھولیں ہر طرف بس یہی طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے ۔ آج کل تازہ ایشو بیف اور گائے کے گوشت پر اٹھایا جارہا ہے ۔ ملک بھر میں گذشتہ کئی مہینوں سے اسی ایشو کی آڑ میں فرقہ پرستوں کی جانب سے مسلسل شرانگیزیاں کی جارہی ہیں، اور بے قصور مسلم نوجوانوں پر حملے کرکے نہ صرف انہیں زدوکوب کیا جارہا ہے بلکہ جیلوں میں بھی بھرا جارہا ہے ۔ابھی تک تو یہ سلسلہ مسلم نوجوانوں تک ہی محدود تھا، اب خواتین کو بھی اس میں ملوث کیا جارہا ہے ۔ حال ہی میں دو مسلم خواتین کو ریلوے پلیٹ فارم پر سر عام نہ صرف بے رحمی سے پیٹا گیا بلکہ ان کی بے عزتی بھی کی گئی ۔گذشتہ دنوں یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے مندسور میں پیش آیا جب دو مسلم خواتین ریلوے پلیٹ فارم پر جیسے ہی اتریں تبھی گئؤرکشک سمیتی اور بجرنگ دل کے غنڈے ان پر یہ کہتے ہوئے ٹوٹ پڑے کہ انہوں نے دو بڑی تھیلیوں میں گائے کے گوشت بھر رکھے ہیں ۔یہ سب پولس کی موجودگی میں ہوا ،افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ سارے معاملات میں پولس کا رول محض تماشائیوں جیسا رہا ، غنڈے کافی دیر تک حملے کرتے رہے ، انہیں چھوڑکر پولس نے ا ن عورتوں کو ہی گرفتارکرلیا ، جب پولس کی یکطرفہ کارروائی پر عوامی احتجاج بڑھا تو چند غنڈوںکو بھی گرفتارکرلیا گیا ،مگر فوری ضمانت بھی دے دی گئی ۔ اس سے قبل دادری میں بے گناہ اخلاق کے قتل نے سب کی آنکھیں نمناک کردی تھیں ۔کچھ دنوں قبل گجرات میں بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جب ان گئؤرکھشکوں نے مردہ گائے کی کھال اتارنے والے چند دلتوں کو بڑی بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر لہو لہان کردیا ۔جس کے نتیجے میں پورے گجرات میں دلتوں نے زبردست احتجاج کیا ۔اس کے بعد ہی راجستھان میں بھی ایک نوجوان کو نشانہ بنایا گیا ، ابھی ان واقعات کا شورتھما بھی نہ تھا کہ بدترین فساد جھیل چکے مظفرنگر کے قریب کاندھلہ میں گئؤکشی کی خبر کے بعدشرپسندوں کے ہجوم نے ایک مسلم گھرانے پر حملہ کردیا ،جس سے پورے علاقے میں زبردست کشیدگی پھیل گئی ۔پولس نے اس الزام کے تحت ذیشان نامی ایک نوجوان اور اسکے گھر کے تین افراد کو حراست میں لے لیا ۔ہجوم نے ذیشان کے گھر کو نہ صرف نقصان پہنچایا بلکہ آگ تک لگانے کی کوشش کی ، بہر حال پولس نے کچھ حملہ آوروں کو بھی گرفتارکرکے آنسو پونچھنے کی کوشش کی ہے اور ان پر مختلف دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کرلئے ۔یادرہے کہ مندسورہو یا دادری کہیںبھی گائے کا گوشت ثابت نہیں کیا جاسکا ۔

اس طرح ایک تسلسل کے ساتھ اور پے در پے ہونے والے واقعات کیا اس بات کی طرف واضح اشارہ نہیں کررہے ہیں کہ اس ملک میں اب کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے اور لااینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز ہی نہیںرہ گئی ہے ۔اور کیا ان تمام واقعات کی مرکزی سرکار اور وزیراعظم نریندرمودی کو خبر نہیں ہے جو سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی یہ سوالات بار بار اٹھائے جارہے ہیں ،اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا عملی اقدام کیوں نہیں اٹھایا جارہا ہے جس سے ملک بھر میں پھیلی لاقانونیت اور شرپسندو ں کی ان متعصبانہ کارروائیوں پر لگام لگائی جاسکے ۔ ان واقعات سے چشم پوشی ، لاتعلقی یا پھرشدید قسم کی لاپرواہی سے دو ہی باتیں ابھر کر سامنے آمنے آتی ہیں ۔پہلی بات تو یہ کہ حکومت و انتظامیہ پوری طرح ناکارہ و نا اہل ہیں یا پھر سب کچھ انہی کی شہ پر ہورہا ہے ، اور یہ دونوں ہی باتیں ان کے اقتدار پر قائم رہنے کے جواز کو کالعدم کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ مگر فارسی کے اس محاورے کا کیا ہوگا ؟
 
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.