بھگوا میڈیاکے خلاف موثر ایکشن کی ضرورت

مشہوراینکربرکھادت نے ارنب گوسوامی کوگھیرتے ہوئے پوچھاہے کہ انہیں صحافی کس نے بنادیا،اسی طرح معروف صحافی رویش کماربھی مستقل بھگوامیڈیاکوآئینہ دکھارہے ہیں جس کی وجہ سے اس کے چہرے سے بہت حدکھل کرسامنے آگئے ہیں۔الیکٹرانک میڈیامیں یہ د وچارنام رویش کمار،برکھادت ایسے ہیں جنہیں اس دورکی آبروئے صحافت کہناچاہئے، زرخریداورزردصحافت کے اس دورمیں یہ لوگ واقعی امیدکی کرن ہیں۔لیکن بطورِمجموعی الیکٹرانک میڈیاسے اب عوام کااعتماداٹھتاجارہاہے۔وہ میڈیا جو مظلوم کو ا نصاف دلانے کا کام کرتی تھی آج وہ مظلوم کو ظالم ،ظالم کو مظلوم بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اور ابھی تو ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کا مسئلہ صرف مسلمانوں کوہرطرف سے گھیرناہے۔ اسے ملک میں پھیلی بدامنی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ اسے صرف بلاتحقیق کے خبرنشرکرنااوربرادران وطن کے دماغوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت بھرنا ہے۔
خبر آرہی ہے کہ مشہور اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو انٹلی جینس کی طرف سے کلین چٹ مل گئی ہے ۔ انٹلی جینس نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعدیہ رپورٹ پیش کی ہے کہ ذاکر نائیک کی تقریریں نہ اشتعال انگیز تھیں اور نہ ملک مخالف ۔ ان کی تقریر میں نہ مذہبی شدت پسندی اور نہ ہی مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصرپائے گئے ہیں۔ ذاکر نائیک تو پہلے سے ہی یہ کہتے آرہے تھے کہ میں بے گناہ ہوں مجھے میڈیا ٹرائل کے ذریعہ پھنسایاجارہاہے اور میری تحریک کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تحریک کیا ہے ان کی، ان کا مشن کیا ہے؟۔ ان کی تحریک انسانیت کے فروغ کی تحریک ہے کہ انسان آپس میں انسانیت کے ساتھ زندہ رہے،حیوانیت سے کوسوں دور چلا جائے۔ ان کی تحریک، جمہوری طور طریقے پرمشن اسلام کا فروغ ہے۔ جب یہ خبریں آرہی تھیں کہ ذاکر نائیک اسلام قبول کرنے والوں کو پچاس پچاس ہزار روپئے بطور لالچ دیاکرتے تھے ان کی بھی تردید ان نومسلموں نے کردی تھی کہ ہمیں کوئی پیسے نہیں دیئے گئے بلکہ ہم نے اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے قبول کیا ہے۔ذاکر نائیک کو صرف انٹلی جینس نے ہی کلین چٹ نہیں دی ہے بلکہ لوک سبھا میں بھی یہ معاملہ گونجا اور انہیں بھی مجبورہوکریہ کہنا پڑا کا ذاکر نائیک کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوک سبھا میں ہنس راج گنگا رام اہیر کو یہ بات کہنی پڑی کہ ان کے اور دہشت گردوں کے درمیان کوئی بھی لنک نہیں پایاگیاہے اور ان کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔لہٰذاانہیں مکمل کلین چٹ دی جاتی ہے۔ذاکر نائیک نے اپنا میڈیا ٹرائل کروانے والے ٹائمز نائو اور ارنب گوسوامی پرہتک عزتی کا مقدمہ دائر کردیا ہے اور کرنا بھی چاہئے۔یہی علاج ان بھگواکنبہ کے میڈیااہلکاروں کاہے۔ جمہوری ملک ہندوستان میں اگر اس طرح کی میڈیا اور ان کے کارکنان رہے توجمہوریت کوزبردست خطرہ لاحق ہے۔ ویسے تو ہندوستان میں میڈیا کا کردار ایک زمانے سے صرف ایک طبقہ کے لوگوں کیلئے مشکوک رہا ہے، عموماً یہ ہوتا رہا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو میڈیا آسمان و زمین کے قلابے ملا دیتی ہے، عدالت میں جانے سے پہلے ہی اس کی زندگی کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے جو کام عدالت میں بیٹھ کر ججوں کو انجام دینا تھا اسے اینکرز بخوبی نبھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر جب کبھی بھی عدالت نے کسی مسلمان کو باعزت بری کیا ہے تو میڈیا کے پاس اتنا وقت نہیں رہا ہے کہ اسے عوام تک پہونچا سکے، ٹھیک اسی طرح دلت پر ہورہے مظالم کے تئیں بھی میڈیا میں بڑی خاموشی رہتی ہے۔ میڈیا کا کردار تو یہ ہے کہ اسے خبروں کو بعینہ عوام تک پہونچا دے لیکن اب میڈیا کا ایک بڑا طبقہ خبروں کے بجائے فیصلہ کرنے لگا ہے۔ ہندوستان کا بہت مشہور انگلش نیوز چینل، ٹائمز ناؤ، اور اس کے بلند آواز کے مالک اینکر ارنب گوسوامی نے تو اپنے ہی ساتھی صحافیوں کی صحافت کو چیلنج کردیا ہے۔ یوں تو ارنب گوسوامی متنازعہ شخصیت کے مالک رہے ہیں، ذاکر نائیک کے معاملہ میں جس دروغ گوئی سے کام لیاتھا اور ذاکر نائیک کو دہشت گردی کی جڑ بنا دیا تھا لیکن جب تفتیش میں کوئی بھی ایسی چیز سامنے نہیں آئی تو بھی اس آدمی نے صحافت کے پیشہ کو داغدار کرتے ہوئے اپنی زبان کو بند کر رکھا ہے ۔ کشمیر کے معاملہ میں بھی ارنب گوسوامی نے تعصب کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر طرح سے دروغ گوئی سے کام لیا ہے، ایئر کنڈیشن روم میں بیٹھ کر دوسروں کی قسمت کا فیصلہ سنانے والوں کو کیا معلوم کہ گولیوں کی چھن چھن کیسی ہوتی ہے، جب ایک معصوم بچہ اپنی ماں کے گود میں گولی کھاکر دم توڑ تا ہے تو اس ماں کی ممتا کیا تصور کرتی ہوگی۔ جب ایک بوڑھے باپ کو اپنے جوان بیٹے کو کندھا دیکر قبرستان لیجانا پڑتا ہے تب اسے کیا خیال آتا ہوگا، جب کسی نئی نویلی دلہن کے سہاگ اجڑ جائے تو اس کی زندگی کا تصور کیجئے؟ برکھا دت نے صحیح کہا کہ میں ایک ایسے پیشہ سے وابستہ ہوں جس سے ارنب جیسے لوگ بھی وابستہ ہیں۔ ارنب جی سنگھی دماغ کو چھوڑ دیجئے اور میڈیا کا عوام سے اعتماد متزلزل ہونے سے بچائے اور میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اسے باقی رہنے دیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے ڈھا دیا جائے۔ مشہوراینکربرکھادت نے ارنب گوسوامی کوگھیرتے ہوئے پوچھاہے کہ انہیں صحافی کس نے بنادیا،اسی طرح معروف صحافی رویش کماربھی مستقل بھگوامیڈیاکوآئینہ دکھارہے ہیں جس کی وجہ سے اس کے چہرے سے بہت حدکھل کرسامنے آگئے ہیں۔الیکٹرانک میڈیامیں یہ د وچارنام رویش کمار،برکھادت ایسے ہیں جنہیں اس دورکی آبروئے صحافت کہناچاہئے، زرخریداورزردصحافت کے اس دورمیں یہ لوگ واقعی امیدکی کرن ہیں۔لیکن بطورِمجموعی الیکٹرانک میڈیاسے اب عوام کااعتماداٹھتاجارہاہے۔وہ میڈیا جو مظلوم کو ا نصاف دلانے کا کام کرتی تھی آج وہ مظلوم کو ظالم ،ظالم کو مظلوم بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اور ابھی تو ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کا مسئلہ صرف مسلمانوں کوہرطرف سے گھیرناہے۔ اسے ملک میں پھیلی بدامنی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ اسے صرف بلاتحقیق کے خبرنشرکرنااوربرادران وطن کے دماغوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت بھرنا ہے۔ قومی میڈیا بک چکی ہے۔مکمل بھگوا پرست ہوگئی ہے۔کیوں انہیں مسلمانوں کی مظلومیت نہیں دکھائی دیتی،کیوں کسی بھگوائی نیتا کی زبان درازیاں انہیں نظر نہیں آتیں،کیایوگی آدتیہ ناتھ، سادھوی پراچی، ساکشی اورگری مہاراجوں کی تقریریں ملک مخالف نہیں ہیں۔ کیا کسی محب وطن کوپاکستان بھیجو کا نعرہ دینے والے یہ بھگوائی دہشت گردنہیں ہیں۔اس سے حیرت انگیزرجحان یہ ہے کہ ٹی وی چینل پرمسلم مخالف بیانات دینے والوں کوبلایاجارہاہے۔تسلیمہ نسرین جیسی ملک بدرمتنازعہ لیڈی کوبلانااوراسلام کوگالی دلواناکون سی دیش بھکتی ہے؟۔خیرکانگریس کے سنیئرلیڈرغلام نبی آزادنے پارلیمنٹ میں اس جانب حکومت کوتوجہ دلائی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میڈیا اور اس کے ارنب گوسوامی جیسے بلیک میلر کہاں چلے جاتے ہیں کیا انہیں صرف مسلمانوں میں ہی اشتعال انگیزی نظر آتی ہے اگر آتی ہے یہی تو دوہرا رویہ ہے۔اسے اسدالدین اویسی کی حق بات کڑوی لگتی ہے لیکن پراچی کی طرف سے مسلمانوں کو دی جانے والی گالیاں جمہوریت پسنداورملک موافق نظرآتی ہیں۔اس رویہ کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ ہمیں پتہ ہے کہ ملک میں برسوں سے ہمارے ساتھ رہنے والے کچھ برادران وطن جو ہمارا ہر موقع پر ساتھ دیتے ہیں وہ بااثر بھی ہیں اوربارسوخ بھی ان کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ آکر ان مسلم مخالف میڈیا والوں پر کارروائی کروائیں تاکہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب برقرار رہ سکے۔میڈیا کے دوہرے رویے کا اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کہ کوئی مظلوم جیل کی سلاخوں سے رہا ہوکر آتا ہے تواس خبر کو نہ بریکنگ نیوز بنائی جاتی ہے اور نہ ہی ان مظلوموں کو گرفتار کرنے والوں کی سرزنش کی جاتی ہے۔ ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ جب کوئی مظلوم مسلمان ناکردہ گناہوں کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے تو ملکی میڈیا اسے صبح وشام بریکنگ نیوز کے طورپرپیش کررہی ہوتی ہے لیکن وہی مظلوم انسان جمعیۃ علماء ہند اور دیگر تنظیموں کی قانونی مدد سے جب رہا ہوکر آتا ہے تو اس کاکہیں کوئی چرچانہیں ہوتا۔ وہ تو بھلا ہو ملک کی عدالت کا کہ وہ انصاف کے ترازو کو برابر رکھے ہوئے ہے اگر وہاں بھی یہ بدامنی آجائے تو پھر مسلمان ہندوستان میں ناپید ہوجائیں۔ ابھی جس طرح تمام مسلمانوں نے یک جٹ ہوکر سوائے شاذتنظیموں کے، ذاکر نائیک کے مسئلے پراپنے موقف کو حکومت کے سامنے پیش کیا تھاکہ (ذاکرنائیک اس سے ہمیں لاکھوں اختلاف صحیح لیکن اسے ابھی صرف مسلمان سمجھتے ہوئے ہراساں کیا جارہا ہے)ہم ذاکرنائیک کی حمایت کرتے ہیں اگریہی حمایت اور یہی اتحاد مولانا انظر شاہ قاسمی اور مولانا عبدالسمیع وغیرہ کی گرفتاری کے موقع پربھی کیاگیاہوتاتوشاید آج مولاناانظرشاہ کی تاریخ پر تاریخ نہیں لگتی اور مولانا عبدالسمیع بھی رہا ہوچکے ہوتے ۔ ان کی گرفتاری کے بعد بھی میڈیا کا یہی رویہ تھا ۔ اور ہمیں یقین ہے کہ وہ بھی بے گناہ ہیں ان کی تقریریں بھی خالص اسلامی مشن اور فروغ اسلام پر مبنی ہیں۔ لیکن افسوس!ان کی گرفتاری کے وقت قائدین ملت مکمل خاموشی اختیار کئے رہے۔آج جمعیۃ ان کے مقدمے لڑ رہی ہے۔کیادیگرتنظیمیں جو مسلمانوں کا مسیحا ثابت کرنے میں اپنے ہاتھ پائوں مار کر تصویریں کھنچانے پر یقین رکھتی ہیں وہ اس وقت جمعیۃ کی آواز میں آواز ملا کر حکومت پر دبائو نہیں بنا سکتی تھیں۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77846 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.