ٹیک تھری
(Syed Shahid Abbas, Rawalpindi)
شعور کی منازل پہ ابھی قدم نہیں رکھا تھا
کہ ہمارے گاؤں میں ڈرامے کی ریکارڈنگ کے لیے فنکار آئے۔ بچے بوڑھے سب ہی
شوق میں جمع ہو گئے۔ ایک لڑکا سا ہاتھ میں لکڑی کی تختی سی پکڑئے ہوئے جس
پہ سیادہ رنگ پینٹ ہوتا اور اس پہ کچھ حروف لکھے ہوتے کھٹ سے کھڑکاتا اور
پکارتا ٹیک ون، کچھ دیر کیمرہ وغیرہ چلتا پھر کام رک جاتا چند لمحوں بعد
پھر یہی عمل دوہرایا جاتا اور آواز آتی ٹیک ٹو، اسی طرح کبھی کبھار ٹیک دس
یا زیادہ پہ بات چل نکلتی کبھی کم پہ ۔ ہوش سنبھالا تو پتا چلا کہ کسی ایک
ہی سین کو بہتر انداز میں ریکارڈ کرنے کے لیے بار بار ٹیک کا سہارا لیا
جاتا ہے تا وقتیکہ وہ سین بہترین حالت میں نہ فلمایا جا چکے۔
آزاد کشمیر انتخابات ٹیک تھری تھا۔ جی ہاں سین کو بہتر سے بہتر کرنے کی
کوشش کی جا رہی ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں تمام پارٹیاں اپنی اپنی ٹیم
کے ساتھ مناظر فلمانے میں مصروف تھیں باقی تمام پارٹیاں ابھی رول، کیمرہ
ایکشن کی صدائیں ہی بلند کر رہی تھیں کہ نواز لیگ نے پہلے ہی ٹیک میں سین
فائنل کر دیا۔ اور اقتدار کی مسند سنبھال لی ۔ پہلے سین کی ہی کچھ مزید
جزئیات کی صورت میں بلدیاتی انتخابات کا ٹیک ٹو ہوا جس میں کوئی واضح
تبدیلی دیکھنے کو محسوس نہیں ہوئی اور بلدیاتی نظام میں وہی نتائج آئے جس
کی روایتی تجزیہ کار توقع کر رہے تھے۔ اور کچھ جوشیلے قسم کے رائٹر ز کے
دعوے غلط ثابت ہوئے۔ سین میں کچھ کمی رہ گئی تھی۔ ٹیک ٹو میں بنیادی طور پر
کچھ مزید بہتر انداز میں سین فلمایا گیا ۔ جو جزئیات پہلے سین میں رہ گئی
تھیں ان کو مکمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور تمام مراحل میں کوئی مقابلہ بھی
نظر نہ آیا۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کو نواز لیگ کا ٹیک تھری کہا
جانا بہت بہتر ہو گا۔ کیوں کہ حالیہ ریاست آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج
دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ پہلے سین کو ہی بار بار کٹ کر کے اس کو بہتر کرنے
کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حقیقی معنوں میں وادی کے انتخابات میں سب سے اہم تاثر یہ ابھرا ہے کہ نہ
صرف پاکستان تحریک انصاف کے تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلتی نظرآ رہی ہے بلکہ
بلاول کی آکسفورڈ لہجے کی اردو بھی کچھ خاص دبدبہ قائم نہیں کر پائی۔ کوئی
شبہ نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پوسٹرز اور بینرز پہ آصف زرداری اور
فریال تالپور کی تصاویر نسبتاً بلاول کی تصاویر سے چھوٹی کر کے یہ تاثر
دینے کی کوشش کی گئی کہ پارٹی کا حقیقی وارث بلاول ہی ہے لیکن اس کے باوجود
نقادوں کے لیے پیپلز پارٹی کی اتنی بری شکست حیران کن رہی ۔ پاکستان تحریک
انصاف تو خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا کہ مصداق بیرسٹر کے ہاتھوں لٹ گئی۔
کچھ ہاتھ بھی نہیں آیا اور عزتِ سادات بھی گئی۔الیکشن کہانی میں سب سے
زیادہ افسوس کا مقام یہ ٹھہرا کہ کشمیر کی صرف ایک مقامی جماعت اس نظام میں
مقابلے میں تھی۔ جس کی قیادت مضبوط اعصاب والے سردار عتیق کے ہاتھ میں تھی۔
سردار عبدالقیوم جیسا نام ہونے کے باوجود اس کی شکست سمجھ سے بالاتر ہے۔
شاید مسلم کانفرنس کو پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسمٹ گلے پڑا
ایسا ڈھول بن گیا جسے نہ اتارا جا سکے نہ بجایا جا سکے۔
پہلے سین کا ٹیک تھری ،مکمل طور پر نواز لیگ کے نام رہا۔ اور سونے پہ سہاگہ
یہ ہوا کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں جو تھوڑی بہت اپوزیشن پریشانی پیدا کرتی
رہتی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں تو وہ بھی نہیں ہے۔ 41 میں سے 31حکمرانی کے
لیے اس لیے کافی سے بھی زیادہ ہوں گی ۔ کیوں کہ کوئی واضح اپوزیشن باقی
نہیں رہے گی۔ ایک دو دو ممبران سے کہاں اپوزیشن جیسا مضبوط کردار نبھانا
ممکن ہو پائے گا۔ کشمیریوں نے تحریک انصاف کے آزمائے ہوئے راہنماؤں کی
تبدیلی کو جہاں واضح انکار دیا ہے وہیں پہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بھی
بگل بج گیا ہے کہ اب بھٹو کارڈ سے نکل آئیے۔ بھٹو نے کشمیریوں کا اگر ساتھ
دیا ہے تو آج تک پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر انہوں نے بھی اس ساتھ کا حق ادا
کر دیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت کو اتنی سیٹیں اپنی کارکردگی سے زیادہ
دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے ملی ہے۔ مسلم کانفرنس کا پاکستان تحریک انصاف
سے اتحاد، پیپلز پارٹی کی ناقص حکمت عملی ایسے عوامل رہے ہیں جس کی وجہ سے
عوام نے بروں میں سے کم برے کو منتخب کرنا زیادہ اہم سمجھا ہے۔ اس کے علاوہ
پاکستان کے وفاق اور سب سے بڑے صوبے میں نواز لیگ کی مضبوط حکومت قائم ہے
اور وادی میں یہ تاثر قائم ہے کہ جس پارٹی کی پاکستان کے وفاق میں حکومت
قائم ہو گی وہی ان کا بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔
جس طرح کے حالات ترتیب پا رہے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ ٹیک تھری کی طرح، 2018
میں ٹیک فور بھی اسی سین کو دوبارہ سے سامنے لائے گا۔ کیوں کہ جہاں پاکستان
مسلم لیگ نواز غلطیاں بھی کر رہی ہے تو دوسری پارٹیاں اپنی کارکردگی کے
بجائے صرف نعروں کو ووٹ کاذریعہ سمجھے بیٹھی ہیں۔ |
|