مسئلہ کشمیر پر خاموشی کو توڑنے والی مہم کا آغاز

جب دنیا خاموش رہتی ہے تو ظلم اپنی ہر حد پار کر جاتا ہے

’’جب سے میری آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے تو میں اکثر اوپر والے سے دعا کرتاہوں کہ وہ مجھے مار ہی ڈالے کیونکہ مردوں کی طرح زندہ رہنے کی بجائے موت بہتر ہیـــ‘‘یہ الفاظ ہیں بھارتی درندگی کا شکار ہونے والے ایک 15سالہ عابد میر کے۔جس کی سوچوں کا محور صرف اسی سوال کاجواب تلاش کرنے میں سر کرداں ہے کہ’’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا ۔۔۔یاد نہیں‘۔‘جی بالکل یہ صرف عابد میر ہی نہیں بلکہ 117افراد کے دل میں اٹھنے والا سوال ہے ۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے نتیجے میں کم سن بچوں سمیت متعدد افراد بینائی سے محروم ہو چکے ہیں ۔ان مظالم کی دل خراش تصاویرمیڈیاپر باآسانی دیکھی جا رہی ہیں جو دیکھنے والے پر سکوت طاری کر دیتی ہیں اور سخت سے سخت دل انسان بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ان لوگوں نے کیا جرم کیا تھا جو ان کے جسم سمیت چہرے پر لاتعداد زخم لگائے گئے ہیں نا صرف زخم بلکہ بھارتی فوج کی طرف سے ان کو اندھے ہونے کی سزا سنا ئی گئی ہے مگرافسوس کوئی ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے سے قاصر ہے۔14سالہ انشا مشتاق جو سرینگر ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بستر پر شدید تکلیف میں ہے ،بڑی تعداد میں چھرے لگنے سے اس کاچہرہ سوجنے کے بعد مکمل طور پر بگڑ چکا ہے اور اس کی حالت تشویشناک ہے امراضِ چشم کے شعبے کے سربراہ کے مطابق’ ’انشا مشتاق کی دونوں آنکھوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ اب دوبارہ بینائی حاصل نہیں کر پائیں گی۔‘۔درحقیقت یہ سب تکلیف دہ ہے۔ درد کی حقیقت اور گہرائی بلاشبہ وہی انسان جانتا ہے جو اس میں مبتلا ہوتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس درد کا مداوا کیسے کیا جائے اور دوسروں کو اس کا احساس کیسے دلایا جائے۔اوربھارتی مظالم کے خلاف کیا اقدامات کیے جائیں کہ اگراسے اپنے کیے پر پچھتاوا نہیں بھی ہوتا مگراسے اس ظلم سے ہاتھ روکنے پر مجبور کیا جائے۔

بھارتی جارحیت کو روکنے کے لیے پاکستان میں فیس بک کے ایک پیج ’’ نیوز فور گیٹ پاکستان‘‘ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کے استعمال پر رائے عامہ اجاگر کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس میں بھارتی شخصیات کی تصاویر کو ایسا دکھایا گیا ہے جیسے انہیں پیلٹ گن ( چَھرے والی پستول) سے زخمی کیا گیا ہواور ان کے ساتھ چند پیغامات بھی تحریر کئے گئے ہیں۔چونکہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے اسی لیے فیس بک پر اس مہم کے لیے بنائے گئے پوسٹرز میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی، بالی وڈ سپر اسٹار شاہ رخ خان اور کئی دوسرے افراد شامل ہیں، یہی نہیں پوسٹرز میں فیس بْک کے بانی مارک زکربرگ کی تصویر بھی شامل ہیں۔اور اس مہم میں اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’’کیوں یہ بااثر اور مشہور شخصیات مسئلہ کشمیر پر خاموش ہیں‘‘۔واضح رہے کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلی مرتبہ اس قسم کی گن کا بطور غیر مہلک ہتھیار استعمال 2010 میں کیا گیا تھاچھروں والی بندوق (پیلیٹ گن) ایک شاٹ گن ہوتی ہے جسے عام طور پر جانوروں کو شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مگر افسوس کشمیر میں اسے معصوم بچوں اور انسانوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔پیلٹ گن کے کارتوس میں تقریباً پانچ سو چھرے ہوتے ہیں۔ جب کارتوس پھٹتا ہے تو چھرے ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔عام گولی کی نسبت یہ کم مہلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی شدید زخم آ سکتے ہیں خاص طور پر اگر یہ چھرے آنکھ میں لگیں۔انڈیا کی سکیورٹی فورسز کو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کے تحت کارروائی کرنی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی کشیدہ صورتحال میں ٹانگوں کا نشانہ بنایا جائے۔ تاہم فورسز نے جان بوجھ کر 90 فیصدسینے اور سروں کو نشانہ بنایا۔جبکہ کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کا اس بات پر اسرار ہے کہ یہ ایک خصوصی کارتوس ہے جو کم اثر اور غیر مہلک ہے۔

’’کیوں یہ بااثر اور مشہور شخصیات مسئلہ کشمیر پر خاموش ہیں ‘‘برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس مہم کا آغاز کراچی سے ہوا جس کے کارفرما جبران ناصرہیں۔جبران ناصر کے مطابق اس مسئلے پر خاموشی ایک تشویشناک عمل ہے جس کی بناء پر سب سے پہلے ہم نے سنسرشپ کے حوالے سے رائے عامہ میں آگہی پیدا کرنے کے لیے فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کا انتخاب کیا اور ان کی تصویر کو فوٹوشاپ کر کے ایسا دکھایا جیسے انہیں پیلٹ گن سے زخمی کیا گیا ہے لیکن فیس بْک کی حالت دیکھیں کہ وہ پیلٹ گن سے زخمی ہونے والی تصاویر اور کہانیوں کو سنسر کر رہی ہے۔اس کے علاوہ اس مہم میں ہر شخصیت کے انتخاب کی ایک وجہ ہے ۔ مودی چونکہ وزیراعظم ہیں اس لیے ان کا نام لازمی اس کا حصہ ہونا تھا، سونیا گاندھی کا انتخاب ان کی حکومت کی جانب سے عمر عبداﷲ کو وزیراعلیٰ بنانے کے فیصلے کی وجہ سے کیا گیا جنھوں نے سب سے پہلے پیلٹ گن کے استعمال کی اجازت دی۔ چونکہ فلمی ستارے بھارت سمیت مقبوضہ کشمیر میں بہت مقبول ہیں اور لوگ ان کی فلمیں دیکھانا چاہتے ہیں اور ماضی میں فلمی ستارے اس طرح کے ایشوز پر اپنی رائے دیتے رہے ہیں۔ ان کی فلمیں کشمیر میں بکتی بھی ہیں اور ان کی فلمبندی بھی ہوتی ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کیوں ان ستاروں کو کشمیر میں رہنے والوں کا درد نظر نہیں آرہا؟جبران ناصر نے اس مہم کے حوالے سے بتایا کہ اس ڈیجیٹل دور میں کشمیر کی جدوجہد کو اجاگر کرنے اور عوام میں آگہی پیدا کرنے کے لیے ہم جو بہتر کرسکتے تھے وہ کیا جس کا مقصد مظلوم کی آواز آگے پہنچانا ہے اور ہم سب ایک بات پر متفق ہیں کہ کشمیریوں کو فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ان تصاویر کے ساتھ جو پیغامات دئیے گئے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ ان اہم شخصیات کو جو یہ محسوس کرایا جا سکے کہ اگر یہ ان کے ساتھ ہوتا تو وہ کیا محسوس کرتے ۔۔۔ لہذا خاموشی توڑیں اور کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنیں اور ان مظالم کو روکیں کیونکہ یہ سب ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.