مسئلہ کشمیر اورامن

عمران مومند
اس وقت پوری دنیا میں پاکستان اوربھارت کے مابین تنازعہ کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ بن کر زیر بحث ہے اس کی اہمیت اورنوعیت سے اس لئے بھی صرف نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس ایٹمی دورمیں چھوٹے چھوٹے ممالک کے درمیان جھگڑے فروغ پاکر کسی بڑی جنگ کی شکل اختیار کرسکتے ہیں جس میں اپنے اپنے مفادات کی خاطر بعض بڑے بڑے ممالک کوبھی کو دناپڑتاہے۔اس قسم کا تصادم عالمی امن اوربنی نوع انسان کی بقا کے لئے بھی ایک شدید خطرہ بن سکتاہے۔پوری دنیا میں علم،تہذیب ،تمدن سائنس اورٹیکنالوجی نے بے پناہ سائنس اورٹیکنالوجی نے بے پناہ ترقی کی ہے اوریقینی طورپر علوم وفنو ن کے حوالے سے لوگوں میں ادراک بھی نمو پذیر ہواہے مگر شایدہ ہمارایہ تاثر غلط نہ ہو،کہ انسان کو ابھی جنگل کی ہولناک کیوں سے کماحقہ آگاہی نہیں ہے۔ایٹم کی دریافت سے پہلے دنیا جن جنگوں کے جہنم سے گزرچکی ہے اورجن ممالک کو ایسی جنگوں میں ملوث ہوناپڑاتھا۔برس یا برس کا فاصلہ طے کرنے کے بعدوہ ممالک ابھی تک اپنے زخموں کوسہلا رہے ہیں اوروہاں کے باشندوں نے اپنی نئی نسلوں کے دل میں جنگ کے خلاف نفرت کی شدت ا س طرح راسخ کردی ہے کہ جنگ کا نام آتے ہی وہ کانوں کو ہاتھ لگاناشروع کردیتے ہیں۔پھر دنیا نے تو ایٹم کی طاقت سے وہ جنگی ہتھیار تیارکرکے اپنے اسلحہ خانوں میں جمع کررکھے ہیں کہ خدانہ کرے کہ ان کے استعمال کی نوبت آئے تو پلک جھپکنے میں کرہ ارض پر نبردآزما خطے اس طرح مٹ سکتے ہیں۔کہ عالمی نقشے پر ان کے وجود کی گواہی بھی مشکل سے مل سکے گی۔پاکستان اوربھارت دونوں اب ایٹمی صلاحیت سے مالاما ل ہیں۔دونوں ملکوں نے معرض وجود میں آنے سے لے کر اب تک پچاس ساٹھ برسوں میں یہی کام کیا ہے۔ان ملکوں نے اپنے عوام کی بھوک اوربدحالی گوارا کرلی لیکن اندرون خانہ سا شہ پارے پرکام کرتے رہے جس کانام ایٹم بم ہے۔ایٹم کو اگر ترقیاتی مقاصدکے لئے استعمال کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن پاکستان اوربھارت کے درمیان کچھ ایسی فضا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے یہ دھڑکا سا لگا رہتاہے کہ کوئی فریق دوسرے کے خلاف کسی مرحلے پرجذبات کی رویا یا نادانی میں ایٹم کے ہتھیاروں کا استعمال نہ کرلے۔اگرپاکستان اوربھارت کے مابین کشمیر کا جھگڑا نہ ہوتا تو شاید کسی بھی جانب سے آئے د ن اس قسم کے وسوسے جنم نہ لیتے۔اب چونکہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پرایک خوفناک مسئلہ بن چکاہے اورکہاجاتاہے کہ اس کے نتیجہ میں ایک نہ ایک دن فریقین میں کسی زبردست ٹکراؤ کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔اصل وجہ یہ ہے کہ نصف صدی سے ہمارے ہمسایہ ممالک نے کشادہ قلبی اور وسیع النظری کیساتھ اس مسئلے کو سلجھانے کے لئے اخلاص نیت کے ساتھ کبھی کوشش ہی نہیں کی۔تاریخ اس امر کی واضح گواہی دیتی ہے کہ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کررکھاہے اوراب اس کی فوج وہاں کے لوگوں پر وحشیانہ مظالم توڑ کر ان کو خاموش کرانا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے حق خودارادیت کا نعرہ بلند کرنے سے محروم ہوجائیں۔پاکستان کاجرم صرف یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو دفاعی پوزیشن میں رکھا اورکشمیریوں کے حق خود ارادی کی بھرپور حمایت ہمیشہ سے کی اوردونوں ملکوں کے وسیع ترمفاد میں ہمیشہ یہ مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی متفقہ طورپر پاس شدہ قراردادوں کی روشنی میں یہ مسئلہ حل کیاجائے۔اب بھارتی وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اخلاص نیت سے کام لیں۔ہٹ دھرمی کی راگنی کوترک کردیں۔محاذآرائی کی سیاست کو چند لمحوں کے لئے بالائے طاق رکھ دیں اوربقائے باہمی کے تقاضے پیش نظررکھیں تو ساری الجھنیں دورہوسکتی ہیں۔کشمیریوں کویہ حق دیں کہ وہ سرے عام اعلان کریں کہ وہ کس کے ساتھ رہنا یا حصہ بننا چاہتے ہیں۔اورنتائج منظرعام پر آسکیں۔اوراس نتائج کو تسلیم کرنے کے لئے دل کو کشادگی دے۔نتائج کو تسلیم کرنے سے بھارت اس ندامت سے محفوظ رہے گا جو تاریخ رہتی دنیا تک بھارت کی آئندہ نسلوں کوبھی اپنے آئینے میں نظر آتی رہے گی۔کشمیرکے حوالے سے اگر بھارت ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے گریز وانحراف کے راستے سے جنگ کے دہانے پرپہنچنے کی صورت پیداکر رہاہے تو پھر واضح طورپر اس کا اعلان کرے۔چوروں کی طرح کنٹرول لائن پر نقب لگانے اورنہتے کشمیریوں پرشب خون مارنے سے بھارت کو ذلت اوررسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔اگر بھارت کو امن کے تقاضوں کاعلم نہیں توکم ازکم جنگ کے آداب سے تو اسے آگاہ ہوناچاہیے۔کیونکہ وہ اچھی طرح جانتاہے کہ پھر ہماری فوج تو مردمومن اورفولادہے۔حق پر مرمٹنے اور اپنے بھائیوں کی حفاظت کرنے کے لئے۔
 
Waqar Ahmad
About the Author: Waqar Ahmad Read More Articles by Waqar Ahmad: 65 Articles with 46380 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.