”عآپ “کا باطن بھی ظاہر ہے
(Dr Tasleem Ahmed Rehmani, India)
۶۲نومبر۲۱۰۲کو عام آدمی پارٹی کے نام سے
ہندوستان کے سیاسی افق پر انتہائی دھماکہ خیز طریقے سے ایک نئی سیاسی پارٹی
کا قیام عمل میں آیا،جس کا نام عام آدمی پارٹی رکھاگیا۔یہ پارٹی انسداد
بدعنوانی تحریک کے بطن سے برآمد ہوئی تھی جو فروری ۱۱۰۲ سے ملک میں بپاتھی
اور اس کی قیادت مہاراشٹر کے معروف سماجی کارکن اناہزارے کررہے تھے۔اروند
کیجری وال اسی تحریک کے کنوینر تھے ۔تحریک جب اپنے عروج کو پہنچی تو کیجری
وال نے محسوس کیاکہ اب اسے ایک سیاسی جماعت میں بدل دیناچاہیے،انا ہزارے اس
کے مخالف تھے،اسی اختلاف کی بناپر پارٹی وجود میں آئی۔لیکن اس پارٹی کا
کوئی واضح سیاسی نظریہ کبھی سمجھ میں نہیںآیا۔پارٹی میں دائیں بازو اور
بائیں بازو کے نظریات کے حامل تمام لوگ ہی شریک تھے اور اسی بناپر پارٹی
میں نظریاتی اختلافات بھی ہر وقت موجود رہے ۔اس کے نتیجے میں پرشانت بھوشن
،یوگیندر یادو،جسٹس ہیگرے جیسے لوگوں کو بالآخر پارٹی سے باہر آناپڑااور اب
سننے میں آرہاہے کہ یہ لوگ ۲اکتوبر ۶۱۰۲تک سوراج ابھیان کے نام سے ایک
دوسری پارٹی کا اعلان کرنے والے ہیں،جب کہ اناہزارے واپس اپنے گاؤں رالے
گنج سدھی واپس جاچکے ہیں اور انسداد بدعنوانی تحریک بھی دم توڑ چکی ہے۔جن
لوک پال بل لانے کاوعدہ بھی کھٹائی میں پڑ چکاہے اور ملک کو سوراج کی سوغات
دینے کے امکانات بھی بھی معدوم ہیں۔اس دوران عام آدمی پارٹی نے حیرت انگیز
طور پر دہلی کے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی اورتقریبا۵۵فیصد ووٹوں
کے ساتھ ۰۷میں سے ۷۶سیٹیں جیت کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔پارٹی بدعنوانی
کے خلاف ،حکومت میں عوامی ساجھیداری کے نام پر عوامی فلاح وبہبود کو اپنی
پہلی ترجیح قرار دے کر اقتدار میں آئی تھی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک
ہی سال کے اندر پارٹی کے ۲۱ممبران اسمبلی کو بدعنوانی ،پھروتی،دھوکہ
دھڑی،لینڈ مافیا اور عورتوں کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے الزامات میں جیل
رسید کردیاگیا۔ساتھ ہی یکے بعددیگرے بدعنوانی کے الزامات میں ہی چھ میں سے
چار وزرا کو برطرف کرنا پڑا۔ حالانکہ پارٹی کا الزام ہے کہ یہ سب کچھ بی جے
پی کی معاندانہ کارروائی کی نتیجہ ہے مگرتین وزراءکو تو پارٹی نے خود ہی
باہر کا راستہ دکھایا ہے اور اکژ گرفتا شدہ ارکان اسمبلی پر الزامات ثابت
ہیں۔ ان سب حالات نے دہلی کی عوام کی امیدوں کو توڑ دیالیکن پارٹی نے ہمت
نہیں ہاری اور اب پنجاب میں ایک سیاسی متبادل بننے کی کوشش کررہی
ہے۔حالانکہ شروع میں اروند کیجری وال اور ان کے ساتھ دوسری پارٹیوں سے
استعفیٰ دے کر آئے ہوئے لوگوں کو پارٹی میں شریک کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں
لیکن پچھلے کچھ عرصے سے وہ اس قسم کے لیڈروں کو نہ صرف پارٹی میں جگہ دے
رہے ہیں بلکہ دانستہ کوشش بھی کررہے ہیں کہ دیگر پارٹیوں کے بڑے لیڈروں کو
عام آدمی پارٹی میں شریک کرلیں۔بہار میں پروین امان اللہ اس کی ایک مثال
رہی ہیں اور حال ہی میں پنجاب کے ممبر پارلیمنٹ نوجوت سنگھ سدھو کو پارٹی
میں شریک کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں۔سدھو پچھلے لوک سبھا انتخابات
سے ہی بی جے پی سے ناراض چلے آرہے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو لوک سبھا
میں انتخاب لڑنے کا موقع نہیں دیاگیا۔اب پنجاب اسمبلی انتخابات کے موقع پر
ان کی بیوی نے راجیہ سبھاسے استعفیٰ دے کر عام آدمی پارٹی کی طرف جانے کے
اشارے دیے تھے لیکن انھوںنے پارٹی نہیں چھوڑی ۔ابھی چند روز قبل سدھو نے
پنجاب میں ایک بہت بڑی پریس کانفرنس کی ،توقع تھی کہ وہ اس کانفرنس میں عام
آدمی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گے لیکن ایساکچھ بھی نہیں ہوا ،بلکہ
یہ محسوس ہواکہ سدھو نے پارٹی پر دباو ¿ بناکر پنجاب بی جے پی میں اپنی
قیادت کو مستحکم کرنے کا داؤ کھیلا تھا۔اس طرح پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی
یہ قواعد بھی اسی طرح ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس طرح بہار میں پروین
امان اللہ کے ذریعے پارٹی کو کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔بہرحال!ہر سیاسی
پارٹی ملک گیر سطح پر اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی کوشش کرتی ہی ہے،اسی طرح
مختلف قسم کی سیاست کرنے کے عنوان پر قائم ہوئی یہ پارٹی بھی عامیانہ
طریقوں سے ہی ملک میں اپنی پکڑ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔لیکن دہلی اور اس کے
بعد ہریانہ کا تجربہ عوام کے سامنے عقدہ کشا بن گیاہے۔
ابتدائی دور میں انا ہزارے کی تحریک کے وقت بھی ہماری رائے یہی تھی کہ یوپی
اے کی سرکار کے خلاف ایک مخصوص قسم کی انتخابی تحریک چھیڑی گئی ہے جس کے پس
پشت بی جے پی اور آرایس ایس کے اعلیٰ ذہن کام کررہے تھے ،بعد کے حالات یکے
بادیگرے اس پہلو کو واضح کرتے چلے گئے ۔انا کی تحریک میں جس طرح وندے ماترم
اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگائے گئے ،اس نے ہی شک میں مبتلا
کردیاتھا۔بعد میں کچھ اخباری رپورٹوں کے ذریعے صورت حال مزید واضح ہوئی اور
یہ معلوم ہواکہ وویکانند انٹر نیشنل فاؤنڈیشن جو کہ آرایس ایس کی ایک ذیلی
تنظیم ہے اور جس کے بانی آئی بی کے سابق سربراہ اور موجودہ حکومت میں قومی
سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال ہیں۔انا کی تحریک دراصل انھیں کے ایما پر شروع کی
گئی تھی۔یکم اپریل ۱۱۰۲کو فاؤنڈیشن کے صدر دفتر واقع چانکیہ پوری دہلی میں
ایک میٹنگ ہوئی جس میں اناہزارے اور اروند کیجری وال،کرن بیدی ،بابارام
دیو،شری شری روی شنکرسمیت کئی راہنما موجود تھے۔اسی میٹنگ میں انسداد دہشت
گردی تحریک کا خاکہ تیار کیاگیااور انا کو اس کی قیادت سونپی گئی۔دلچسپ بات
یہ ہے کہ اس تحریک کا نام ”انڈیا اگینسٹ کرپشن“رکھاگیا۔واضح رہے کہ اسی نام
سے ایک پرانی تنظیم پہلے سے رجسٹرڈ ہے اور اس تنظیم کے مقاصد میں بھی صاف
لکھاہے کہ وہ ایک غیر سیاسی سیکولر ،سماج وادی ،جمہوری ،انقلابی ،ہندووادی
تحریک ہوگی ،اس کے نوٹ میں لکھاگیاہے کہ ہندوتواایک ایساقدیم نظریہ ہے جو
بنیادی طور پر مختلف عقائد کے مابین ہم آہنگی قائم کرکے تمام مذاہب کو ساتھ
لے کر چل سکتاہے۔اس تنظیم کی ویب سائٹ انڈیااگیسنٹ کرپشن ڈاٹ کو ڈاٹ ان پر
تمام تفصیلات پڑھی جاسکتی ہے۔اس تحریک کا مقصد بھی ملک میں سوراج کا قیام
ہے۔گویایہ تحریک نظریاتی طور پر ملک میں سیکولرزم کے نام پر ایک
ہندونظریاتی سوراج کا قیام چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ غیر سیاسی ذرائع
استعمال کرنا چاہتی ہے۔اناہزارے اور اروند کیجری وال دونوں ہی ۶۰۰۲سے اس
تنظیم سے وابستہ رہے ہیں لیکن جب اروند کیجری وال نے اسے سیاسی رنگ دینے کی
کوشش کی تو اناہزارے کے ساتھ اس تنظیم نے بھی ان کی مخالفت کی۔یہ سمجھنا
آسان ہے کہ تنظیم ہندووادی نظریات کی حامل ہے اور تنظیم سے وابستہ افراد
بھی ہندووادی نظریے کے ہی حامل ہیں۔ایسے میں یہ سمجھنا بھی آسان ہوسکتاہے
کہ عام آدمی پارٹی بی جے پی سے مختلف حکمت عملی اختیار کرکے ملک کی اقلیتوں
اورپسماندہ طبقات کو دوسرے نمبر کے شہری کی حیثیت سے ہی دیکھنا پسند کرتی
ہے ۔
ملک کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ بی جے پی اب ملک کا سیاسی مستقبل
ہے اور کانگریس اپنا مقصد تاسیس مکمل کرکے ختم ہونے کے نزدیک ہے۔ایسے میں
قومی سطح پر ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو حزب اختلاف کا رول تو
اداکرسکے مگر نظریاتی طور پر بی جے پی سے ہم آہنگ ہو۔یہ بالکل اسی طرح ہے
جس طرح ۵۷۹۱ تک ملک کے سیاسی افق پر صرف کانگریس پارٹی ہی موجود تھی اور
دیگر پارٹیاں برائے نام حزب اختلاف کا رول اداکرتی تھیں۔کانگریس سیکولرزم
کے پردے میں نرم ہندوتوا کا رول انجام دیتی رہی اور نتیجہ کار سخت گیر ہندو
عناصر کو تقویت دیتی رہی ۔اس زمانے تک کانگریس نے کسی بھی سیاسی جماعت کا
قد بلند نہیں ہونے دیا۔لیکن ایمرجنسی کے بعد کے حالات نے جو سیاسی افراتفری
مچائی ،اس نے بی جے پی کو طاقت دی اور اب ۴۱۰۲کے انتخابات کے بعد یہ پارٹی
کانگریس مکت نعرے کے ساتھ اس حالت میں ہے کہ ملک کی تقریبا ہر ایک سیاسی
جماعت نظریاتی طور پر آرایس ایس سے ہم آہنگ نظر آتی ہے اور کبھی نہ کبھی
کسی نہ کسی سطح پر بی جے پی سے ہاتھ ملاتی رہی ہے۔آئندہ بھی ان جماعتوں کو
بی جے پی سے تعاون کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن زیادہ تر سیاسی
جماعتیں علاقائی نوعیت کی ہیں،حتی کہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی ملک کے سیاسی افق
سے معدوم ہوتی چلی جارہی ہیں۔ایسے میں قومی سطح پر ایک مضبوط حزب اختلاف کی
ضرورت ہے جس کے لیے عام آدمی پارٹی کا وجود ہی غنیمت محسوس ہوتاہے۔چنانچہ
عام طور پرسیاسی حلقوں میں یہ چہ میں گوئیاں کی جاتی ہیں کہ کانگریس کی جگہ
اب عام آدمی پارٹی لے لے گی۔سیکولر زم کے نعرے کی دل فریبیوں کے ساتھ سماجی
وادی طرز کار اختیارکیے ہوئے اس پارٹی کی بنیاد میں بھی ہندوتواکے مخفی
عناصر موجود رہیں گے ۔اس طرح ملک کے سیاسی منظر نامے پر حکمراں جماعت اور
حزب اختلاف دونوں نظریاتی طور پر ایک ہی ہوں گے۔یہی آرایس ایس کا نصب العین
بھی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کے دوسری صف کے راہنما سیاسی
طور پر بہت زیادہ تجربہ کار نہیں ہیں ۔یا یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس
پارٹی کی قیادت نے ایسے لوگوں کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا جو سیاسی سوج
بوجھ کے مالک ہیں،بلکہ ان لوگوں کو موقع دیاجو پہلے سے ہی اقتدار کے لالچی
،مجرمانہ ذہنیت کے مالک اور سماج کے حاشیے پر کھڑے ہوئے لوگ تھے۔حالانکہ
انتخابات کے وقت ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں تھی جو انتہائی سوج بوجھ
رکھنے والے نیک طینت اور شریف لوگ تھے جو سماج میں مثبت تبدیلی کی خواہش لے
کر پارٹی میں شریک ہوئے تھے ،ایسے لوگوں کو نظر انداز کرکے پارٹی نے جان
بوجھ کر ان لوگوں کو ترجیح دی جو بلاسوچے سمجھے کیجری وال اور منیش
سسودیاکی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔اس کی بدترین مثال مسلم امیدواروں کا
انتخاب ہے۔دہلی میں صرف ۴مسلمانوں کو ٹکٹ دیاگیااور چاروں بالکل نئے چہرے
تھے جن کا فعال سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھاجو بے حد کم پڑھے لکھے ،عوام
میں غیر مقبول ،زمینوں کی مجرمانہ خریدوفروخت سے وابستہ لوگ تھے۔جب کہ ٹکٹ
کے دعویداروں میں اس سے کہیں زیادہ بہتر لوگ بھی موجود تھے اور پارٹی کے
ٹکٹ پر پچھلا الیکشن لڑ چکے تھے بہت اچھے ووٹ بھی لے چکے تھے لیکن نہ جانے
کن نادیدہ اشاروں کے زیر اثر ان چہروں کو پیچھے ہٹا دیاگیا اور مسلمانو ں
کی نمائندگی بے پڑھے لکھے ناپسندیدہ اورغیر سیاسی افرادکے سپرد کردی گئی ۔یہی
وجہ ہے کہ چار میں سے ۲ایم ایل اے کے خلاف مقدمات جاری ہیں۔تیسرے پر کسی
وقت بھی بن سکتاہے اور چوتھے ایم ایل اے اپنا دستخط کرنا بھی نہیں جانتے
اور کسی بھی سیاسی ایشو ع پر بات کرنے سے بھی قاصر ہیں۔واضح رہے کہ ملک کی
اکثر سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے سیاسی اذہان کو نظر انداز کرنے کا وطیرہ
اختیار کیے ہوئی ہیں۔ خاص طور پر آرایس ایس نے ہمیشہ مسلمانوں کی سیاسی
شخصیات کو ہدف تنقید بناکر انھیں فرقہ پرست بھی کہاہے اور کسی بھی اہم عہدے
پر فائز نہ ہونے دینے کی دانستہ کوشش بھی کی ہے۔مثلاجب تسلیم الدین کو وزیر
مملکت داخلہ بنایاگیاتو پوری تحریک چلاکر چند دن کے اندر ہی انھیں استعفیٰ
دینے پر مجبور ہونا پڑا۔مفتی محمد سعید کی وزارت داخلہ پر بھی ایسی ہی
تحریک چلائی گئی تھی،نیز مہاراشٹر کے عبدالرحمن انتولے اور بہار کے
عبدالغفور کے خلاف بھی تحریکیں چلاکر انھیں اپنے عہدے سے ہٹنے پر مجبور
کیاگیااس کے بعد سے اب تک اس قسم کے کلیدی عہدوں پر یا سیاسی پارٹیوں کی
صدارت تک کوئی مسلمان فائز ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔گویاسیاسی جماعتوں میں
محض غلامانہ ذہنیت کے بے بہرہ اذہان کو ہی رسائی حاصل ہے۔آرایس ایس کی یہی
حکمت عملی عام آدمی پارٹی نے بھی بحسن وخوبی اپنائی ہے ۔یہ محض ایک مثال ہے
جس سے سمجھاجاسکتاہے کہ ملک کی قومی سیاست کے افق پر آرایس ایس کے پروردہ
حزب اختلاف کی تیاری بھی مکمل ہوچکی ہے ۔عام آدمی پارٹی اسی کا پرتو ہے جو
دہلی کے بعد پنجاب ،گجرات ،اترپردیش وغیرہ شمالی ریاستوں میں اپنے پیر
پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔یہ حالات متقاضی ہیں کہ مسلمان ملک گیر سطح پر
خود اپنی سیاسی صف آرائی کے لیے کمر بستہ ہوں اور اس صف آرائی کے بعد ملک
کے دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ مل کر ایک قومی متبادل بننے کی کوشش
کریں۔آرایس ایس کی زہریلی حکمت عملی کا اس سے مؤثر کوئی جواب نہیں ہوسکتا۔ |
|