سی سی پی او کراچی کی صاف گوئی......!!!!
ٹارگٹ کلنگ روکنے میں کوئی کامیابی نہیں ملی کیوں.......؟
اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کو ہر حال میں تحفظ فراہم کرنے والے
فورسرز کے اداروں کی بے حسی اور لاچارگی دیکھ کر اور ملک کے موجودہ حالات
اور معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں اور سرزمینِ پاکستان پر روزبروز
انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے ہونے والے قتل کے واقعات کے بعد جب بھی میں
اپنے اِردگرد کے ماحول کا بغور جائزہ لے رہا ہوتا ہوں تو کبھی کبھی بڑی شدت
سے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ہم کس زمانے اور معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں
انسانی اقدار کا اوپر سے نیچے تک کوئی وجود ہی نہیں ہے نہ قانون ہے نہ
قاعدہ اور نہ ہی کوئی ایسا ضابطہ اخلاق ہے جس کے سہارے لوگوں کو زندگی
گزارنے کا کوئی سلیقہ ہو۔ پھر دل و دماغ میں یکدم سے بہت سارے ایسے خیالات
آمڈ آتے ہیں کہ بے کار ہے وہ انسان جس میں انسانیت نہ ہواور جس شخص میں
انسانیت نہیں اِس کا کوئی مذہب نہیں اور اِسی طرح یہ بھی کہ انسانی رشتے
صرف خون کے رشتوں تک محدود نہیں ہوتے اور آج کے اِس پُرآشوب دور میں جہاں
ہر انسان بے بس اور لاچار ہے ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ انسانیت سے تعلق
رکھتا ہو اور پھر خیال آتا ہے کہ یہ کتنا اچھا ہوجائے کہ جب خدا نے ہمیں
انسان کی شکل میں پیدا کیا ہے تو کیوں نہ ہم انسان بن جائیں کیونکہ یہ ایک
اٹل حقیقت ہے اور ہر دور سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ انسان کا انسان بن جانا
اِس کی فتح ہے۔
مگر پھر اگلے ہی لمحے کوئی ایسی سنسی خیز خبر سماعت سے ٹکراتی ہے کہ ملک کے
فلاں علاقے میں ہونے والی دہشت گردی سے اتنے معصوم انسان ہلاک ہوگئے تو
مایوسیوں کے بادل مجھے اپنے سائے میں لے لیتے ہیں اور میں یہ سوچتا رہ جاتا
ہوں کہ شائد ہم خود بھی کسی مثبت اور تعمیری راہ پر چلنا ہی نہیں چاہتے تب
ہی تو چند ڈالروں کے عوض کسی نہ کسی ملک دشمن کے آلہ کار بن کر ہم کبھی
ٹارگٹ کلنگ سے اور کبھی اپنے ہی جسموں پر بم باندھ کر انسانیت کا خون کر کے
وہ کچھ کر گزرتے ہیں کہ جس سے انسانیت بھی لرز اٹھتی ہے۔
آہ! آج بڑے افسوس کے ساتھ مجھے یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان کے
صنعتی اور تجارتی شہر اور موجودہ صدی میں دنیا کے بارہویں انٹرنیشنل سٹی کا
درجہ رکھنے والے شہر کراچی کی زمین کا ایک ایک زرہ آج ایک بار پھر ٹارگٹ
کلنک کے باعث موت کی وادی میں پہنچنے والے معصوم اور نہتے انسانوں کے بہنے
والے خون سے تر ہے جن کی آہ وفغان سے نہ صرف شہر کراچی کے در و دیوار ہی
لرز رہے ہیں بلکہ اِس شہر میں بڑھتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے پورا ملک
ہی غم و غصے میں مبتلا ہو کر نڈھال ہے۔
اور اِس کے ساتھ ہی اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک دشمن قوتیں بالعموم
پورے ملک میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر کے اور بالخصوص شہر کراچی میں
سیاسی، مذہبی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے کارکنان سمیت ڈاکٹرز اور عام
شہریوں کو ٹارگٹ کلنگ کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے اپنے ایجنڈے
پر عمل پیرا ہیں جس میں اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں نہتے
پاکستانی ہلاک وزخمی ہوچکے ہیں۔
اِدھر اگر ہم گزشتہ چھ ماہ سے صرف کراچی میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے
واقعات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ اِس عرصے میں2500 کے قریب
نہتے انسان صرف اِس بنیاد پر موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں کہ اُن میں سے
زیادہ تر کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تھا اور اِن میں وہ
معصوم افراد بھی شامل ہیں جن کا تعلق نہ تو کسی سیاسی اور مذہبی جماعت سے
تھا اور نہ ہی وہ اِن کے ہمدرد تھے اِن کا قتل محض شہر میں دہشت پھیلانے
اور اِس شہر کو مفلوج کرنے کے لئے کیا گیا تھا اور اِن سطور کے تحریر کرنے
تک اطلاعات یہ ہیں کہ ابھی تک شہر میں قاتلوں کا راج ہے اور انسانیت اِن کے
ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئی ہے اور آج بھی یہ شہر کی سڑکوں، گلی کوچوں
اور محلوں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور اِن کے سامنے عوام کو اِن سے تحفظ
فراہم کرنے والے ادارے بے بس اور لاچار بن کر رہ گئے ہیں اور یوں اِن دہشت
گردوں اور شیطان کے چیلوں اور انسانیت کے دشمنوں نے اپنی بندوق سے شعلہ
اگلتی گولی سے کئی معصوم انسانوں کے جسموں کو چھلنی کر کے اِنہیں ٹارگٹ
کلنگ کر کے اِنہیں قبروں میں اتارنے کا سامان کر دیا ہے۔ اور یوں یہ بیچارے
ہلاک شدگان اپنے کنبوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ دنیا میں پھینک کر اپنی قبروں
میں جا سوئے ہیں اور اِنہیں اِس منزل تک پہنچانے والے شیطان کے دوست اور
انسانیت کے دشمن قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے آزادی سے ہمارے اردگرد گدوں
کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ اِنہیں کوئی پکڑنے والا نہیں ہے جس کا یہ فائدہ
اٹھاتے ہوئے پھر کچھ عرصہ بعد کئی معصوم انسانوں کی ٹارگٹ کلنگ کر کے
اِنہیں ملکِ عدم پہنچا دیں گے۔
جب اِس منظر اور پس منظر میں اِس شہر میں انسانوں کے خون کے پیاسے دندناتے
درندوں کو لگام دینے والے ادارے محکمہ پولیس کے جب ایک اعلیٰ عہدیدار سی سی
پی اُو کراچی وسیم احمد سے صحافیوں نے اِن سے سوال اور استفسار کیا تو
اُنہوں نے انتہائی لاچارگی اور بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اِس کا جواب کچھ
یوں دیا کہ یہ حقیقت ہے کہ کراچی پولیس نے دیگر جرائم پر تو کافی حد تک
قابو پالیا ہے مگر یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ آج شہر میں بڑھتے ہوئے
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات روکنے میں پولیس کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے جس
کی اُنہوں نے صاف گوئی کا سہارا لیتے ہوئے یہ وجہ بتائی کہ نفری میں کمی
اور وسائل کی عدم دستیابی ہے تاہم اُنہوں نے یہ بھی واضح اور دو ٹوک الفاظ
میں کہا کہ پولیس پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث عناصر کی گرفتاری سے
متعلق کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے ہاں البتہ! اُنہوں نے انتہائی عاجزی
اور انکساری سے اتنا ضرور کہا کہ عوام کو پولیس سے اچھی اُمیدیں وابستہ
رکھنی چاہئیں اور ایسے واقعات کی تفتیش کے حوالے سے پولیس کو وقت ملنا
ضروری ہے تاکہ تفتیش صحیح رخ میں ہوسکے۔ اگرچہ سی سی پی اُو کراچی وسیم
احمد نے جتنا کہا وہ بھی ایک حقیقت ہے مگر اِس کا کیا ....؟ کیا جائے جو
دہشت گرد شہر میں ٹارگٹ کلنگ سے روزانہ دسیوں لوگوں کو موت کی نیند سُلا
رہے ہیں اِنہیں بھی تو آپ ہی کو لگام دینا ہے جناب .....اور اِس سے بھی
جیسا آپ نے فرمایا کہ پولیس کی بروقت کاروائیوں سے شہر میں ہونے والے دیگر
جرائم میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر کیا.....؟ہی
اچھا ہو کہ آپ اپنی اِسی قلیل نفری کے ساتھ کوئی کارنامہ ایسا انجام دے
جائیں کہ شہر سے ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کا نام و نشان مٹ جائے اور لوگ آپ
کو بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ جناب محکمہ پولیس میں کوئی وسیم احمد نامی سی سی
پی او ایسا بھی گزرا تھا جس نے اپنی انتہائی کم نفری ہونے کے باوجود بھی
شہر میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو کنٹرول کیا اور اِس میں ملوث
عناصر کو گرفتار کر کے اِنہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا۔ ویسے جناب وسیم احمد
صاحب! شہر کراچی کے لوگ ہی کیا....ساری دنیا بھی یہ بات اچھی طرح سے جانتی
اور خوب سمجھتی ہے کہ اگر ہماری(پاکستانی )پولیس اپنے پر آجائے تو اچھے
اچھوں کے چھکے چھڑانے میں بھی کوئی دیر نہیں کرتی مگر شرط اِس کے لئے صرف
یہ ہے کہ اِسے اِس جانب سنجیدگی سے راغب ہونے کی مہلت دی جائے تو پھر
دیکھیں کہ ہماری پولیس دہشت گردوں کا کیا حشر کرتی ہے۔ اور شہر کو ٹارگٹ
کلنگ کرنے والے انسانوں کے خون کے پیاسے بھیڑیوں سے پاک کرتی ہے۔
مگر اُدھر دوسری طرف ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب شہر کراچی کے
حالات کو کنڑول کرنے کے لئے پاکستان رینجرز بھی اپنے فرائض اچھی طرح سے
انجام دے رہی ہے تو پھر شہر کراچی میں آئے روز ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہونے
ہی نہیں چاہئیں کیونکہ پاکستان رینجرز کے ہزاروں جوان رات دن اِس شہر کراچی
میں کئی کئی کلو کی وزنی گنیں اپنے ہاتھوں میں تھامیں سڑکوں، بازاروں اور
چوراہوں پر اپنے خصوصی اختیارات کے ساتھ اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہوتے ہیں تو
پھر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا ہوجانا آسانی سے سمجھ میں نہ آنے والا وہ سوال
بن کر رہ گیا ہے جس کا کوئی جواب آج شائد کسی کے بھی پاس نہ ہو.....؟؟؟؟کیونکہ
جب بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے
یہ ادارے کسی ایک بھی کلر(قاتل) کو پکڑنے اور کسی بھی گینگ کا سراغ لگانے
میں آج تک کامیاب نہ ہوسکے ....؟ اِس کی بھی کیا وجہ ہے یہ بھی ایک عام
شہری کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
مگر اِن تمام باتوں کا اگر واقعی کوئی حل ہے تو وہ یہ ہے کہ حکومت کراچی
پولیس کی نفری میں فوری طور پر اضافہ کرے اور اِسے ایسے جدید ہتھیار سے لیس
کرے جِسے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کی پولیس جرائم پیشہ
افراد کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنے لئے استعمال کرتی ہے۔ اور صدر مملکت آصف
علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی خصوصی عرض ہے کہ وہ جب
بھی کراچی آئیں تو خدارا اپنی سیکورٹی کے لئے ہزاروں پولیس والوں کو تعینات
نہ کریں کیونکہ کراچی پولیس پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اِس کی نفری میں کمی
کی ایک وجہ وی وی آئی پیز کی سیکورٹی ہے جس کے باعث کراچی پولیس کی نفری
میں کمی واقع ہوئی ہے اور پولیس کی یہی کمی عوام کو دہشت گردوں سے تحفظ
فراہم کرنے میں اِس کی ناکامی اور بدنامی کا باعث بھی ہے۔ |