سارک یا اکھاڑا

جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) کے رکن ممالک کی وزارت داخلہ کا سہ روزہ اجلاس اسلام آباد میں اختتام پزیر ہو گیا۔اجلاس میں پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور بھارت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کے علاوہ دیگر رکن ممالک کے وزراء داخلہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کا مقصد علاقائی سطح پر انسانی اسمگلنگ روکنے ، منشیات کے اسمگلنگ روکنے کے علاوہ دہشتگردی کے خاتمے اور علاقائی سلامتی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا تھا جبکہ رکن ممالک کو بزنس مینوں اور سول سوسائٹی اور صحافیوں کے لئے ویزہ فری بنانا تھا۔ چوہدری نثار علی خان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی طرف سے کی گئی تقریر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ راج ناتھ سنگھ نے اپنی تقریر میں پاکستان کا نام لئے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جیسے پاکستان کشمیر میں جاری آزادی کی تازہ لہر کی پشت پناہی کر رہا ہے او ر ان کے بقول دہشتگردی کے سپورٹ کر رہا ہے۔ اس موقع پر افغانستان نے بھی بھارت کی ہمنوائی کی اور بھر پور انداز میں بھارت کے موقف کو سپورٹ کیا۔ چوہدری نثار علی خان جو اس کانفرنس کے میزبان بھی تھے، نے راج ناتھ سنگھ کو جواب دینا بہت ضروری سمجھا اور ان کے الزامات کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے پیچھے بھارت اور افغانستان کی خفیہ انجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ بعد میں چوہدری نثار علی خان نے سارک کانفرنس کے شرکاء کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں شرکت کرنے سے انکارکر دیا۔ یہاں بہت اہم سوال یہ ہے کہ میزبان کی حیثیت سے کیا چوہدری نثار کو بھارتی وزیر داخلہ کو ترکی بہ ترکی جواب دینا چاہیے تھا یا بحیثیت میزبان اپنے جواب کو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھنا چاہیے تھا؟ کیا چوہدری نثار کو استقبالیہ میں شرکت کرنے سے انکار کرنا چاہیے تھا یا میزبان ہونے کے ناطے انھیں اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے استقبالیہ میں شرکت کرنی چاہیے تھی؟ سارک وزراء داخلہ کی اس کانفرنس میں پاکستان کا رویہ کیا ہونا چاہیے تھا اور چوہدری نثار کے اس رویہ کا دیگر ممالک اور ان کی قیادت پر کیا اثر پڑے گا یہ بھی خاصہ اہمیت کا حامل سوال ہے۔ کیا چوہدری نثار علی خان کا رویہ میزبانی کے تقاضو ں کے مطابق ہے یا یہاں انھوں نے جذباتیت سے کام لیا ہے؟ یہاں ایک اور اہم ترین سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ مستقبل قریب میں سارک سربراہ کانفرنس جو اسلام آباد میں ہونے والی ہے اس کے انعقاد کے حوالے سے آج کا چوہدری نثار علی خان کا رویہ کیا نتائج برآمد کرے گا۔ کیا سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا یاسب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا حالیہ کشیدگی کے بعد بھارتی وزیر اعظم اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کرپائیں گے؟ جمعرات کو کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کی مٹھ بھیڑ نے کم از کم یہ پیغام تو دے دیا ہے کہ دونوں اطراف کی موجودہ حکومتیں آپس کے تعلقات کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں اور اب نہ ہی اس کا بظاہر کوئی امکان رہا ہے۔ میاں نواز شریف اور نریندر مودی حکومتیں اپنے اپنے موقف پر ڈٹ گئی ہیں تاہم میاں محمد نواز شریف اور نریندر مودی کے ذاتی تعلقات نہایت خوشگوار ہیں اور امکان یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے رہنماؤں کے باہمی اور ذاتی تعلقات بدستور معمول پر اور خوشگوار ہی رہیں گے۔ سارک ممالک کا مذکورہ اجلاس دو ممالک کے آپس کے کشیدہ تعلقات کا شکار ہو گیا ہے اور رسمی طور پر بھی کسی بہتری کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔سار ک تنظیم کے قیام کا مقصد علاقائی سطح پر ا یک دوسرے سے تعاون کرنا تھا لیکن اپنے قیام سے اب تک یہ تنظیم اور اس کے رکن ممالک خاص طور پر پاکستان اور بھارت باہمی تعاون کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں کر پائیں ہیں۔ تنظیم کے تمام اجلاس محض خانہ پری کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں۔نہ تو اس تنظیم کے فیصلوں اور نہ ہی قراردادوں کو رکن ممالک نے کبھی کوئی اہمیت دی ہے یعنی اگر یہ کہا کہ سارک تنظیم کو ہونا نہ ہونا برابر ہے تو شاید غلط نہیں ہو گا۔ تنظیم کے قیام کے وقت ہی بھارت نے دو ٹوک انداز سے پاکستان سمیت دیگر رکن ممالک کو اس بات کا پابند کر دیا تھا کہ کشمیر سمیت کوئی بھی دوطرفہ مسئلہ تنظیم کے پلیٹ فارم پر زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ہی مسئلہ کشمیر ہے اور اسی کی بنیاد پر دونوں ممالک میں دیرینہ دشمنیاں ختم ہونے کے بجائے ہر آنے والے دن پہلے سے زیادہ بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں ایسی صورت میں سارک کو نتیجہ خیز ہونے کے لئے اپنے بنیادی ڈھانچے اور مقاصد میں تبدیلیاں کرنا ہونگی بصورت دیگر یہ تنظیم محض ایک کاغذی تنظیم سے زیادہ کچھ نہیں کہ جس کی چھتری تلے مختلف ممالک کے رہنماؤں کو مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ تنظیم کے اجلاسوں میں اپنے ملکی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کا تحفظ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
 
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 27 Articles with 19930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.