بھارتی وزیر داخلہ منوہر پاریکر کشمیر میں
تعینات فوج کو مرنے کے بجائے مارنے کی ہدایت دے کر انسانیت اور جمہوریت کا
مذاق اڑا رہے ہیں۔ چنددنوں میں بھارتی فورسز نے60سے زیادہ افراد کو شہید،
ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کو شدید زخمی کر دیا ہے۔ جس پر بھارتی حکومت
خاموش ہی نہیں بلکہ غیر مطمئن ہے۔ اس نے سپریم کورٹ میں بیان جمع کرایا ہے
کہ کشمیر میں حالات ٹھیک ہیں۔ مظاہروں کے دوران پتھراؤ سے تقریباً دو ہزار
بھارتی فورسز اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اس پر دہلی میں تشویش پائی جاتی ہے۔
اس تشویش کا اظہار حکومتی وزراء بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر
میں فوج مارنے کے لئے بھیجی ہوئی ہے۔وہ مار کھانے کے بجائے لوگوں کو مارتی
کیوں نہیں۔ بھارت نے اپنی فوج کو قتل عام کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ایک طرف
افسپا جیسے کالے قوانین ہیں۔ فوج کو genocideکی اجازت ہے۔ چھاپے ،
گرفتاریاں ، تشدد، زیر حراست قتل ، نوجوانوں کو شہید کر کے اجتماعی قبروں
میں ڈالنا روز مرہ کا معمول ہے۔ کشمیر میں مہلک اسلحہ اور زہریلی گیسوں کا
استعمال عا م ہے۔ لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کی
بدترین پامالیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے
ترجمان کہتے ہیں کہ سیکریٹری جنرل کو کشمیر کے حالات کی مکمل معلومات ہیں۔
اگر ایسا ہے تو وہ بھارت پر دباؤ ڈالنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے کشمیر پر بیان نے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو
دھچکالگادیا ہے۔ پاکستان 47سے کشمیر کو متنازعہ ریاست قرار دیتا ہے۔ اگر چہ
پاکستانی حکمران زبانی کلامی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہیں لیکن
انھوں نے ملک کے آئین میں بھی کشمیر کو متنازعہ خطہ قرار دیا ہے۔ کشمیر پر
کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے۔ وزیراعظم میں مظفر آباد میں کشمیر بنے گا پاکستان
کا نعرہ لگا کر آئینی طور پر ریاستی موقف سے انحراف کیا ہے۔ جس طرح بھار ت
کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اس نے اپنے آئین میں اس موقف کا دفاع
بھی کیا ہے۔ پاکستان بھی کشمیر پر دعویٰ کر سکتا ہے۔ اگر آئینی طور پر
کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے تو کرگل جنگ کے بعد پیدا ہونے والی
خلاء سے بچا سکتا ہے۔ جب پاک فوج اور مجاہدین نے کرگل کی اہم چوٹیوں پر
قبضہ کر لیا تو یہ آئینی پیچیدگی پیدا ہوئی کہ پاکستان بھارت کے زیر قبضہ
خطے کو اپنے کنٹرول میں کیسے رکھ سکتا ہے۔ کیوں کہ پاکستان کا اس پر کوئی
دعویٰ نہیں ہے۔ بھارت کا جھوٹا ہی سہی ، کشمیر پردعویٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
پاکستان کو کرگل پر جیتی ہوئی جنگ سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ فوج واپس
بلانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
بھارت اپنی جارحیت اور ہٹ دھرمی سے ابھی تک باز نہیں آیا ۔ اس کا خیال ہو
گا کہ کشمیری تھک کر خود ہی تحریک ختم کر دیں گے یا ہمت ہار بیٹھیں گے۔
بھارت کو کشمیریوں کے مایوس ہونے تک کا انتظار ہے۔ لیکن کشمیری مایوس نہیں۔
آج کرفیو، ہڑتال اور مظاہروں کا 30واں دن ہے۔ کشمیری عوام کی استقامت اور
استقلال کو سلام پیش ہے کہ وہ مزاحمت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن بارگیننگ
کے بارے کوئی نہیں جانتا کہ کس طرح کی جائے گی۔ آج مقبوضہ کشمیر کے ادیب،
شعراء حضرات، قلمکار بیک زبان اعلان کر رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ
نہیں ہے۔وہ بھارتی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کی مذمت کر رہے ہیں۔ ان کا
مطالبہ ہے کہ مسلہ کشمیر کو سہ فریقی بات چیت سے حل کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں
کہ کشمیر بین الاقوامی سیاسی مسلہ ہے۔ اس کا حل سیاسی طور پر ہی نکالا جا
سکتا ہے۔ بھارت فوجی طور پر اس کا حل چاہتا ہے۔ جب کہ طاقت سے مسلہ کشمیر
حل نہیں ہو گا۔ بھارت اپنی فوج کو کشمیریوں کو مارنے کی تا کید کر رہا ہے ۔
جس پر دنیا خاموش ہے۔ مقبوضہ وادی کی معیشت کا زیادہ دارو مدار فروٹ
اندسٹری پر ہے۔ جس میں سیب خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ سالانہ میوہ کی
فروخت سے کشمیر کو اربوں روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ آج اس صنعت کو بھی خطرات
ہیں۔ تا ہم میوہ باغات کے مالکان نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ تحریک کے
لئے ہر قسم کا نقصان برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ کشمیر فروٹ گرورس اینڈ ڈیلرس
سمیت دیگر مکتبہ ہائے فکر کے لوگ تحریک کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ وہ بھارت
سے آزادی چاہتے ہیں۔ بھارتی جارحیت اور دہشتگردی کی مذمت کر رہے ہیں۔
اب جب کہ پاکستان کے وزیراعظم نے بھی کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگایا
ہے تو یہ نعرہ ہی نہ رہے بلکہ پارلیمنٹ میں اس ایشو کو زیر بحث لایا جا ئے
کہ پاکستان کے لئے کشمیر کیا اہمیت رکھتا ہے۔ اگر پاکستان کشمیر پر دعویٰ
کرتا ہے تو آئین میں اسے کیسے شامل کیا جا کستا ہے۔ یہ آراء پیش کی جا رہی
ہے کہ آزاد کشمیر کی تما سیاسی پارٹیوں، حریت کانفرنس اور تمام آزادی
پسندوں، بار ایسوسی ایشنز، تاجر، تعلیمی ماہرین، طلباء، قوم پرستوں غرض ہر
کسی کو مشاورت میں شامل کیا جائے تا کہ سب ایک آواز ہو کر تحریک کے لئے
کردار اداکر سکیں۔
|