متناسب نمائندگی انتخابی نظام وقت کی اہم ضرورت

وطن عزیز میں ان دنوں ہر طرف تبدیلی ، انقلاب، کرپشن، مہنگائی اور روشن پاکستان کے دعوے اور دہائیاں سنائی دے رہی ہیں ۔ جسکی جہاں حکومت ہے وہ عوام کو چین اور سکون کی بانسری بجا کر سنا رہا ہے اور حزب اختلاف کرپشن اور نااہلی کے الزامات لگارہی ہے جبکہ عوام کا ایک بڑا حصہ مہنگائی ، بدامنی، لاقانونیت، میرٹ کی پامالی ، بدعنوانی،بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے جسکو نہ پینے کا صاف پانی مل رہا ہے اور نہ ہی سرکاری سکولوں میں اعلی تعلیم، ہسپتالوں میں خواری کا بھی سامنا ہے اور انصاف اپنے تقاضوں کے مطابق نہیں مل رہا ۔ معاشرے کا غالب حصہ یہ شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ حکومت ہمارے مسائل نہیں حل کر رہی اور نہ ہی حل کرنے میں سنجیدہ ہے جبکہ حکومتی اراکین وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں اور بے اختیاری کا اظہار کرتے ہیں حزب اختلاف جب حکومت میں نہیں ہوتی تو بڑے بڑے خواب دکھاتی ہے اور مسائل کو 6 مہینے میں حل کرنے کی نوید سناتی ہے جبکہ جب اقتدار ملتا ہے تو اتنی اہلیت نہیں ہوتی کہ مسائل کو حل کر سکے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ ذیل میں ان تمام چیزوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ایک ممبر قومی اسمبلی جب انتخاب لڑنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہر حلقہ کم و بیش 3 لاکھ ووٹرز پر مشتمل ہوتا ہے اور اس انسان کو ایک مخصوص وقت میں اپنا پیغام ان تمام ووٹرز تک پہنچانا ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے لامحدود وسائل کے بغیر ممکن نہیں اسے اپنا پورا حلقہ گھومنے میں ہی 5 لاکھ سے زیادہ صرف کرنا پڑ جاتا ہے انتخابی جلسوں کے لئے اسے کم و بیش 20 لاکھ روپے مختص کرنا پڑتے ہیں اگر اسکے حلقے میں اسکے لیڈر کا انتخابی جلسہ ہو تو اسکا ایک کروڑ کے قریب خرچ ہوجاتا ہے جبکہ 25 تا 30 لاکھ روپے اسے اپنی اشتہاری مہم کے لئے مختص کرنے پڑتے ہیں اسے اپنا دفتر چلانے کے لئے بھی اپنے وسائل صرف کرنے پڑتے ہیں جسکے لئے اسکا روزانہ کی بنیاد پر 25 ہزار روپے خرچہ آتا ہے جو کہ مہینوں چلتا ہے پھر اسے انتخابی دنگل والے دن اپنے ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک پہنچانے سے لے کر انکے کھانے پینے تک اور پھر انھیں واپس انکے گھر تک پہنچانے تک کا خرچہ بھی اٹھانا پڑتا ہے پھر اسے اپنے علاقے میں لوگوں کی خوشی اور غم سب میں شامل ہونا پڑتا ہے جس کے لئے اپنے ذریعہ آمدن کو وقت نہیں دے پاتا اسکے ذریعہ آمدن کو وقت نہ دے پانے کے نقصان کو مد نظر رکھتے ہوئے اور انتخابات پر ہونے والے اخراجات سمیت اگر تخمینہ لگایا جائے تو یہ اخراجات 10 کروڑ کے قریب بنتے ہیں اور اسکے باوجود بھی جیت کی ضمانت نہیں ہوتی تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی درمیانے درجے کا آدمی جو کہ قابل بھی ہے اور مسائل کو حل بھی کرنا چاہتا ہے وہ اسمبلی میں کیسے پہہنچے گا ؟ اور جو انسان کروڑوں روپے لگا کر اسمبلی میں پہنچے گا اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ عوامی مسائل کے حل کے لئے کوشش کرے گا نہ صرف خام خیالی ہے بلکہ اس ممبر اسمبلی سے بھی زیادتی ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اگر اس سے یہ توقع رکھے کہ وہ اس سیاسی جماعت سے وفاداری کرے گا تو یہ بھی عقل مندی نہیں کیونکہ اسکے لئے سب سے زیادہ اہم اسکے حلقے کا انتخاب ہے جو کہ اسے ہر حال میں جیتنا ہے لہذا وہ موقع ملتے ہی سیاسی جماعت بدلنے میں دیر نہیں لگائے گا۔ ایک بڑی سیاسی جماعت ہر حلقے میں 50 ہزار سے زیادہ ووٹ بینک رکھتی ہے لیکن اسے جیتنے کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے مزید 30 ہزار ووٹ دلوا سکے جو اپنا ذاتی اثر ورسوخ رکھتا ہو اور انتخابی اخراجات جو کہ کروڑوں میں ہوتے ہیں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو نیز ہر طرح کے حالات کا سامنا بھی کر سکتا ہو ایسے شخص کو سیاسی اصطلاح میں

’’ الیکٹیبل ‘‘ کہتے ہیں اور یہ الیکٹیبلز سیاسی جماعتوں کی مجبوری بن جاتے ہیں اور بڑی سے بڑی سیاسی جماعت ان الیکٹیبلز کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے جس سے اس جماعت کے نظریاتی کارکنان میں مایوسی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بجائے بہترین سیاسی کارکن بننے کے اپنے وسائل کو بڑھانا شروع کردیتے ہیں اور یو ں ایک سیاسی کارکن جو کہ اپنی جماعت کی پالیسیوں کا سب سے بڑا ناقد ہوتا ہے سیاسی عمل کی بہتری کے لئے کوششیں ترک کر دیتا ہے جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قابل لوگ جن کے اندر کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ مسائل کو حل کرنے کی خواہش ہوتی ہے وہ سیاسی عمل سے کٹ کر رہ جاتے ہیں اور ایسے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں جنکے مفادات اور ایک عام آدمی کے مفادات میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے اور جس چیز میں کسی کا مفاد نہ ہو انسانی فطرت ہے کہ اکثر و بیشتر وہ اسکے لئے کوشش نہیں کرتا بلکہ ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دیتا ہے جس سے عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جاتے ہیں اور سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی مقبولیت کھوتی جاتی ہیں اور الیکٹیبلز کی سیاست کو فرغ ملتا ہے -

سیاسی جماعتوں کے اندر بھی چونکہ جمہوریت نہیں ہوتی اسی لئے نئی لیڈر شب کے ابھرنے کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں جو کہ جمہوری نظام کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ انتخابی نظام کو بدلا جائے اور حلقوں کی سیاست کو ختم کر کے متناسب نمائندگی کے نظام کو نافذ کیا جائے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے یہاں میں ان لوگوں کو لئے جو متناسب نمائندگی کے نظام سے واقف نہیں ہے کے لئے اس نظام کی تشریح کرتا چلوں ۔ متناسب نمائندگی نظام سے مراد یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی ٹیم کا اعلان کریں اور اسے بعد اسکی تشہیر کریں عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کریں اور جس جماعت کو جتنے ووٹ ملیں اسی تناسب سے اسے اسمبلی میں نشستیں دے دی جائیں اس سے تمام کے تمام اخراجات سیاسی جماعت برداشت کرے گی اور وہ جاگیر دار جو اپنے مزارعین سے اپنے لئے قرآن پر حلف لے کر ووٹ لیتا ہے اسکا عمل دخل کافی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی اور حقیقی حق رائے سامنے آئے گی اور ایسی سیاسی جماعت جسکے منشور میں جان ہوگی اور جو ان مسائل کو حل کرنے کی استعداد بھی رکھتی ہوگی وہ عوام کی ایک غالب اکثریت کو اپنی جانب متوجہ کر لے گی اور ووٹ بھی اسی تناسب سے حاصل کرلے گی پیسے کا عمل دخل کم ہونے سے بہترین دماغ سیاست کی جانب اپنی صلاحیتوں کا رخ موڑے گا اور بہترین سے بہترین لوگ سیاست میں آئیں گے اور اسمبلیوں میں ملک کا بہترین دماغ موجود ہوگا جسکے پاس عوامی مسائل کے حل کا فارمولا موجود ہوگا ۔

موجودہ انتخابی نظام عوام کو سہولیات پہنچانے اور انکے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو چکاہے عوام اور سیاسی جماعتوں دونوں کو اس انتخابی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرنا ہونگی وگرنہ وہی طبقہ اقتدار میں آتا رہے گا جو کروڑوں روپے بغیر کسی دقت کے خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتا اورایسے لوگ کسی بھی معاشرے کا کتنے فی صد ہوتے ہیں اسکا اندازہ کرنا مشکل نہیں اور صرف 2 فی صد 98 فیصد پر حکمرانی کرتا ہے اور جب ایسا ہو تو پھر تبدیلی ، انقلاب، روشن پاکستان اور روٹی کپڑا اور مکان سب نعرے بے کار لگتے ہیں ۔
Zahid Mehmood
About the Author: Zahid Mehmood Read More Articles by Zahid Mehmood: 57 Articles with 75685 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.