چیل اور عقاب

سوال پوچھنے والے بادشاہ ہوتے ہیں کچھ بھی پوچھ لیں۔یونہی کسی بادشاہ نے سر عام چیل سے سوال کیا۔تمہاری شکل وصورت تمہارا ڈیل ڈول حتیٰ کہ اڑان بھی باز سے ملتی ہے۔وہ پرندوں کا بادشاہ ہے اور تمہیں کوئی پرندوں کا گورکن بھی نہیں سمجھتا۔اس کے لئے ہر صغیر وکبیر تعریف کے الفاظ ڈھونڈتے تھک جاتا ہے جب کہ تم پہ جو بھی ڈالتا ہے حقارت کی نظر ڈالتا ہے۔تمہاری حالت زار دیکھ کے ترس آتا ہے۔تم نے کبھی اس المیے پہ غور کیا۔چیل نے گردن جھکا لی اور خیالوں میں کھو کے یوں ظاہر کرنے لگا جیسے اپنی عظمت گم گشتہ کو یاد کر رہا ہو۔پوچھنے والے نے کھنکارا بھرا تو چیل نے گردن اٹھائی اور یوں گویا ہوا۔بھیا درست کہتے ہو۔میرا جسم میرے پر میری اڑان اور میری نظر بالکل پرندوں کے بادشاہ عقاب کی مانند ہے۔میں بھی شکار کو انہی نظروں سے دیکھتا ہوں جیسے باز دیکھتا ہے بلکہ میرا شکار پہ جھپٹا بھی بالکل ویسا ہی ہوتا ہے لیکن جونہی میں شکار کے قریب پہنچتا ہوں میرا ہاسا نکل جاتا ہے ۔

پچھلے دنوں برادر اسلامی ملک ترکی میں جب کچھ جونئیر فوجی طالع آزماٗوں نے اقتدار پہ قبضے کی کوشش کی تو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان جو کہیں چھٹیاں منا رہے تھے ،اڑ کے اپنے عوام کے درمیان آ موجود ہوئے۔جمہور کی حکمرانی کے لئے اپنے عوام کو پکارا تو عوام خالی ہاتھ ٹینکوں کے آگے سینہ سپر ہو گئے۔اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے اور ہر وہ آدمی جسے اﷲ کریم نے چھوٹا سا دماغ بھی دیا ہے بخوبی جانتا ہے کہ اس بغاوت کا کیا حشر ہوا۔ترکی میں صدر ترکی کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں پورا ملک شامل تھا۔فوج فضائیہ حزب اختلاف سبھی دیوانہ وار جمہوریت کی پاسبانی اور نگہبانی کے لئے سر پہ کفن باندھ کے بر سر میدان کھڑے تھے۔بغاوت رفع ہوئی اور ترکی نے دوبارہ شاہراہ ِ جمہوریت پہ سفر شروع کر دیا۔کوئی مانے یا نہ مانے یہ بھی ایک طرح سے تبدیلی کی ہی خواہش تھی۔کچھ ایسا ہے سہی جس سے سب مطمئن نہیں لیکن یہ ترکی کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔شنید ہے کہ ترک حکمران بھی مسئلہ ختم کرنے کی بجائے مسئلہ پیدا کرنے والوں کو ختم کر رہے ہیں۔ذمہ دار لوگ ہیں اور عالمِ اسلام میں ترکی اب قیادت کا دعوے دار ہے کچھ نہ کچھ اس کا بھی وہ حل تلاش کر لیں گے۔

ہم واپس اپنی چیل کی طرف آتے ہیں۔ترکی میں عقاب نے اپنے جوہر دکھائے تو ہمارے یہاں کی چیلوں میں بھی خون کی گردش تیز ہو گئی۔جمہوریت کی بالادستی کی خوب خوب باتیں ہوئیں۔کن اکھیوں سے اپنی جنم بھومی کی طرف مخصوص اشارے کئے گئے اور کسی ایڈونچر کی صورت میں ترکی کے انجام سے دوچار ہونے کی دبے لفظوں میں دھمکیاں بھی دی گئیں ۔کہا گیا کہ وہ زمانے گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔دیکھا ترکی میں عوام نے طالع آزماؤں کا کیا حشر کیا۔یہ دھمکیاں اور طعنے دینے والے بھول گئے کہ صرف ڈیل ڈول سے اڑان سے تیکھی نظر سے چیل باز نہیں بن سکتی۔خصوصاََ وہ چیل شکار پہ جھپٹتے وقت جس کا ہاسا نکل جاتا ہو۔رجب طیب اردگان بغاوت کے ہنگام باہر سے اندر اپنے عوام کے پاس آ رہا تھاجبکہ ہم قدم بڑھاؤ کے نعرے سن کے ان دیکھی منزلوں کی طر ف ر ختِ سفر باندھ رہے تھے۔اردگان نے واپسی کی ہمت کیونکر کی اور ہم پاؤں پہ کھڑے کیوں نہ ہو سکے؟ یہ ہے وہ سوال قوموں کی برادری میں سر اٹھا کے کھڑاہونے کے لئے جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ہمارے ہاں بھی عوام سڑک پہ نکلتے ہیں۔نعرے بھی لگتے ہیں ٹینکوں کے باہر نکلنے کی تو خیر کبھی نوبت ہی نہیں آئی۔ٹرپل ون بریگیڈ کے چند ٹرک ہی کافی ہوتے ہیں ۔عوام ان کے ٹرکوں کو پیچھے سے دھکا لگا رہے ہوتے ہیں۔ مٹھائیوں کی دکانیں خالی ہو رہی ہوتی ہیں۔یہ حقیقت ہے لیکن قوم کی منافقت کا یہ حال ہے کہ جب کوئی اس کا ذکر کرے تو جمہوریت پسند جموروں کی گھوریاں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔اﷲ گواہ ہے کہ جمہور اور جمہوریت کی یہ بے بسی دل کو خون کے آنسو رلاتی ہے۔جی یہ چاہتا ہے کہ ہم بھی ترکی کی طرح دنیا میں جمہوریت پسند کے طور پہ جانے جائیں۔ لوگ ہماری بھی تحسین کریں۔ ہماری حکومت بھی ہماری مرضی سے بدلے۔ہم حکومت گرانے اور حکومت بچانے کے لئے امریکہ کی طرف نہ دیکھیں۔کسی نے کہا پاکستان میں یہ ممکن نہیں۔سندھ کی طرف سے محمد بن قاسم نے اور کابل کی طرف سے افغانوں نے ہمیں اتنا مارا ہے کہ غلامی ہمارے خون میں شامل ہو گئی ہے۔ہم اب ہر بالادست اور زور آور کے آگے سیس نوانے میں دیر نہیں لگاتے۔مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ایسا ہوتا تو ہم ایٹمی طاقت کبھی نہ ہوتے۔ہمارا میزائیل پروگرام دنیا کے بہترین پروگراموں میں شامل نہ ہوتا۔یہ سب ہم نے دنیا کے سب سے زور آور کے سامنے اور اس کے منع کرنے کے باوجود اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کیا۔

ہم کسی بھی بغاوت کو فرو کر سکتے ہیں۔کسی بھی جارح کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔کسی آمر کی مطلق العنانی کی راہ میں کھڑے ہو سکتے ہیں لیکن کیوں۔کیا یہ سب ہم ان کے لئے کریں جو ملکی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں؟جو تین تین سو کنال کے محلات میں رہتے ہیں ۔جن کے بچے ہماری زبان تک نہیں جانتے؟جن کی عورتیں بچے نہیں حکمران جنتی ہیں۔جو برے وقت میں پہلی دستیاب فلائیٹ سے محفوظ منزلوں کی طرف سفر کر جاتے ہیں۔جن سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں کوئی تعلق نہیں۔اردگان نے عوام کو بس یہ باور کرایا کہ میں تم میں سے ہوں اور تمہارا حکمران نہیں تمہارا خادم ہوں۔ میں تمہارے تمہارے بچوں اور تمہارے ملک کی سر بلندی کے لئے کام کروں گا۔پھر اس نے ایسا کرنے کی کوشش کی۔ہم بھی کسی ایسے ہی کی امید میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ کبھی ایک کو آزماتے ہیں تو کبھی دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔نجات دھندہ کی تلاش اور انتظار میں ہم آمریت تک کو قبول کر لیتے ہیں۔اس لئے نہیں کہ ہمیں آمریت پسند ہے بلکہ اس لئے کہ آمریت فسطائیت سے کم برائی ہے۔ہمارے حکمران فسطائیت کی اعلیٰ مثال ہیں کہ ان کی سوچ ذات کے دائرے سے باہر ہی نہیں نکلتی۔

جس دن ہمیں ہمارا ارودگان مل گیا دیکھنا ہماس ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دینگے۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ
میں حر ہوں اور لشکرِ یزید میں ہوں
کہ میرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
 
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 267206 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More