اس سے قطع نظر کہ عمران خان کونسا نیا
پاکستان بنانا چاہتے ہیں اور پرانے پاکستان کے ساتھ کیاسلوک کرنا چاہتے ہیں
لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب بھی اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے ٗ
سبزہلالی پرچموں سے مارکیٹیں اور بازار سجنے لگتے ہیں لوگ جشن آزادی منانے
اور رب کریم کا شکر ادا کرنے کے لیے اپنے اپنے انداز میں تیاریوں میں مصروف
ہوتے ہیں تو نہ جانے کیوں عمران خان کے پیٹ میں درد اٹھنے لگتا ہے ۔ یہ بھی
ہوسکتا ہے وہ موجودہ پاکستان کو دل سے پسند ہی نہ کرتے ہوں اس لیے وہ جشن
آزادی منانے کی بجائے نفرت ٗ بغض اور انتشار کے بیج ہی بونے کا جنون کی حد
تک شوق رکھتے ہوں۔اس وقت پاکستان انتہائی خطرناک حالات سے گزر رہا ہے ۔
وادی کشمیر میں نوجوان نسل نے آزادی کی شمع اپنے خون سے ایک بار پھر روشن
کر رکھی ہے ۔ روزانہ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیری مسلمان عورتیں بچے اور
جوان جام شہادت نوش کر رہے ہیں ۔کتنے ہی کشمیر یوں کے چہرے اور جسم پیلٹ گن
کے چھروں سے زہر آلود ہوچکے ہیں جو ہسپتالوں کے بستر مرگ پر تڑپ رہے ہیں ٗ
کتنی ہی عورتیں اور بچے چھروں والی گن سے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں ۔ اس
لمحے جبکہ حکومت پاکستان عالمی سطح پر کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ تے ہوئے
امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے مردہ ضمیر کو جگانے کی ہر ممکن جستجو کررہی ہے
۔ بیرون ملک تعینات سفرا ء کو پاکستان بلا کر کشمیر کے حوالے سے بریف کیا
جارہا ہے تاکہ عالمی سطح پر کشمیر کی آزادی اور استصواب رائے کی قرار پر
عمل درآمد کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکے ۔ یہ سب کچھ ایک طرف تو
دوسری جانب شیخ رشید جیسے احمق اور غیر سنجیدہ انسان کے بہکاوے میں آکر
لاشوں کے سوداگر عمران خان اور ان کے روایتی حلیف ڈاکٹر طاہر القادری پوری
شدت سے احتجاج شروع کرچکے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یہ دونوں کشمیر ی
مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پورے ملک میں جلسے اور جلوس نکالتے اور
بھارتی حکمرانوں کو بتاتے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے ہم سب ایک ہیں اور
آزادی حاصل کرنے کے لیے ہم کسی بھی سطح پر جاسکتے ہیں ۔ افسوس کہ ان دونوں
رہنماؤں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ نہ تو کشمیری مسلمانوں کے لیے کہیں آواز
اٹھانی ہے اور نہ ہی پاکستان کا جشن آزادی قوم کو سکون سے منانے دینا ہے ۔
مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہاہے کہ کچھ لوگ فطری طور پر ہی احتجاجی ہوتے
ہیں ۔حالات کیسے بھی ہوں وہ اپنی خصلت اور عادت سے باز نہیں آسکتے ۔ یہ بات
سب کے علم میں ہے کہ عمران خان اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن
میں وزیر اعظم کے خلاف پانامہ لیکس کے معاملات پر اپنے اپنے ریفرنس دائر
کرچکے ہیں جس پر ابتدائی سماعت شروع بھی ہوچکی ہے ۔ نہ جانے کیوں عمران خان
کو نہ پاکستانی عدالتوں پر یقین ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن پر ۔ وہ الیکشن
کمیشن کے فیصلے سے پہلے ہی احتجاج کرکے قوم کو انتشار کے راستے پر گامزن
کرنا چاہتے ہیں ۔انہیں اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کہ ان کی احتجاجی
تحریک کی وجہ سے حکومت کی توجہ کشمیر میں استصواب رائے کے مسئلے سے ہٹ سکتی
ہے ۔وادی کشمیر جسے قائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیاہے
اس وقت پاکستان کے ساتھ الحاق کاایک موثر راستہ نکلتا دکھائی دے رہا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو بطور خاص کشمیر کے حوالے سے مکمل سپورٹ کیا
جائے تاکہ بھارت اور عالمی سطح پر ایک اچھا تاثر جائے ۔اگر کشمیر آزاد
ہوگیا تو عمران جب تک چاہیں احتجاج کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض
نہیں ہوگا ۔جہاں تک کرپشن اور رشوت خوری کے خلاف عمران کے موقف کا تعلق ہے
خود خیبر پختوانخواہ میں وزیر اعلی کے خلاف تحریک انصاف کے کتنے ہی ایم این
اے اور ایم پی اے الزام لگا چکے ہیں ۔ایک ہفتہ پہلے بنی گالا میں تحریک
انصاف کا عمران کی صدارت میں اجلاس ہورہاتھا تو بنی گالا کے باہر کتنے ہی
لوگ علیم خان کے خلاف یہ کہتے ہوئے احتجاج کررہے تھے کہ اس نے ان کی زمینوں
پر ناجائز قبضہ کررکھاہے اسے ختم کروا یا جائے ۔گزشتہ روز جب عمران بنی
گالا میں پریس کانفرنس کرنے لگے تو ہری پور کی ایجوکیشن افسر عذرا آفریدی
نے انصاف کے حصول کے لیے عمران سے بات کرنا چاہی تو عمران سمیت سٹیج پر
موجود تما م لوگوں نے اس قدر دھکے مارے کہ اس بے چار ی عورت کے سر سے دوپٹہ
بھی گر گیا اور وہ سٹیج سے گرتے گرتے بچی ٗعمران اس کی بات سنے بغیر ہی
حقارت سے بڑبڑاتے ہوئے کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے ۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار نے
ایم این اے مراد سعید کے والد چالان کیا کیاکہ اسے معطل کردیا گیا۔ اسے
دیکھتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ عمران کو اب اپنی جماعت کا نام تبدیل کرکے
تحریک بے انصاف رکھ لینا چاہیئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جس کرپشن کے
خاتمے کے لیے وہ بار بار احتجاج کررہے ہیں ۔ان کے اردگرد ہر طرف کرپٹ ترین
لوگ جمع رہتے ہیں جنہیں لوگ عمران کی اے ٹی ایم کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
خیبرپختوانخواہ کی حکومت گھٹنوں تک کرپشن اور اقربا پروری میں ڈوبی ہوئی ہے
جس کی وجہ سے عوامی مقبولیت میں حد درجہ کمی ہوچکی ہے ۔ عمران کی جگہ کوئی
اور سیاست دان ہوتا تو پے درپے شکستوں کے بعد وہ اپنی کارکردگی پر غورکرتا
اور اپنی خامیوں کو دور کرنے کی جستجو کرتا لیکن ہر جگہ ہارنے کے باوجود
عمران کے نصیب میں نہ تو خود سکون ہے اور نہ ہی وہ کسی اور کو سکون سے جشن
آزادی منانے دینا چاہتے ہیں ۔ انہیں اس سے کوئی غرض کہ انکے احتجاج سے
کشمیر کے مقدمے کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے وہ اپنی دھن کے پکے ہیں ۔دوسری
جانب ڈاکٹر طاہر القادری (جسے کچھ لوگ فتنہ پرور مولوی کے نام سے بھی یاد
کرتے ہیں ) وہ شاید پاکستان میں آتے ہی احتجاج اور دھرنوں کے لیے ہیں ۔وہ
عالم کی حیثیت سے تو سب کے لیے قابل احترام ہیں لیکن ان کا انداز سیاست
شاید کسی کو بھی پسند نہیں ہے وہ ایک حلقے سے ناظم کاالیکشن تو جیت نہیں
سکتے لیکن انقلاب وہ پورے پاکستان میں لانا چاہتے ہیں ۔ |