پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت کرتے
ہوئے پندرہ سال کا عرصہ گزارنے کے با وجود عوام کیلئے کچھ خاطر خواہ عملی
اقدامات نہیں کر پائی سوائے باتوں اور جوشِ خطابت سے عوام کا دل بہلا کر آف
شور کمپنیوں میں پیسہ جمع کیا ،بینک بیلنس بڑھایا، رشتہ داروں کو نوازااور
پولیس کو بطور ٹارگٹ کلر استعمال کیا ۔ اگر ان پندرہ سالوں میں کچھ عوام
کیلئے کیا تو وہ سوائے چند سڑکوں کے اور ان پر چلنے والی میٹرو کے ! نہ
پنجاب بھر میں صحت و تعلیم کا معیار بہتر کیا جاسکا اور نہ ہی لوڈ شیڈنگ کو
ختم کرنے کیلئے کوئی مؤثر حل نکالا گیا سوائے عوام کو قائداعظم سولر پارک
جیسے دیگر ناکام منصوبوں کے روشن خواب دکھانے کے حتیٰ کہ عوام کو کوئی بھی
بنیادی سہولت میسر نہیں ۔پہلے تو پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف پر الزام رہا
کہ وہ پنجاب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں لیکن اس بار تو وفاقی حکومت بھی مسلم
لیگ ن کے پاس ہے لیکن افسوس کہ تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عوام
کاکوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکا ہے ۔پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں عوام
کو اس قدر ذلیل و رسوا کیا گیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی !یہاں تک کہ غریبوں
کا جینا محال ہو چکا تھا آئے دن خود کشیوں کے حادثات پیش آنے لگے لیکن
پیپلز پارٹی سوائے ہٹ دھرمی کے کوئی عملی کام نہیں کر سکی اب بھی انکی
حکومت سندھ میں ہے جہاں عوام کو نصف ایمان ہی میسر نہیں کراچی میں ہر جگہ
گندگی کے ڈھیر ہیں سیوریج کے مسائل ہیں پینے کیلئے صاف پانی میسر نہیں قحط
سالی اور گرمی کی شدت سے نمٹنے کیلئے کوئی حل نہیں نکالا گیا بس اگر کچھ
کیا گیا ہے تو عوام کے جذبات اور ان کے مینڈیٹ کے ساتھ کھیلا گیا اور ہمیشہ
عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا ۔الیکشن 2013ء سے پہلے علامہ طاہرالقادری
پاکستان میں تشریف لائے اور انہوں نے الیکشن کمیشن ،پاکستان کے آئین اور
الیکشنوں کی مکمل طور پر مخالفت کرتے ہوئے بائیکاٹ بھی کیا انہوں نے جلسہ
کیا اور کہا کہ ملک میں شریعت نافذ کی جائے جو قرآن و سنت کی روشنی میں ہو
دیکھا جائے تو علامہ صاحب جب بھی پاکستان میں تشریف لاتے ہیں ملک میں
انتشار پھیلا تے ہیں ۔کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کروا دیتے ہیں تو کبھی دھرنا کر
و ا کر عوام کو دماغی طور پر مفلوج کر دیتے ہیں ۔الیکشن کے بعد 2014ء میں
منتخب حکومتوں اور نظام جمہوریت کے خلاف پہلے ریلیاں اور جلوس نکالے ،بھرپور
ولولے کے ساتھ تقاریر کیں اور پھر لاہور میں منہاج القرآن کے سیکرٹیریٹ کو
نو گو ایریا بنا دیا طاہرالقادری کے نظام مخالف اعلانات پر حکومتی مشینری
محرک ہوئی تو مزاحمت کی وجہ سے گولیاں چلیں اور چودہ معصوم لوگ شہید ہو گئے
۔جب علامہ طاہرالقادری نے منہاج القرآن ٹرسٹ کی بنیاد رکھی تھی تو یہ نعرہ
لگایا تھا کہ یہ صرف مذہبی ٹرسٹ ہے اور اس کا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
اور با لکل ویسے ہی کیا جیسے پہلے دھرنے میں بیانات دئیے کبھی کفن سلوایا
تو کبھی قبریں کھدوائیں پاکستان کے سب سے حساس مقام پر لوگوں کو یرغمال
بنائے رکھا اور اس کے ساتھ ایک اور پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹی تحریک انصاف
نے بھی اسی جگہ ضمنی انتخابات میں الیکشنوں میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف
دھرنا دیا اور دن رات میوزک اور ناچ گانوں ،پرجوش تقریروں سے عوام کو
بیوقوف بنائے رکھا اور ایمپائر کی بات کرتے رہے حالانکہ کہ سب جانتے ہیں کہ
نہ تو کوئی تھرڈ ایمپائر تھا اور نہ ہی کوئی انگلی اٹھنے والی تھی بلکہ
عوام ساری مضطرب رہی اور کوئی بھی نتیجہ خیز حل نہ نکلا ۔انسان اپنے اعمال
سے بہت کچھ پالیتا ہے اگر تحریک انصاف واقعی ملک کیلئے اور اس کی عوام
کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو انہیں اﷲ تعالیٰ کی نوازش سے خیبر پختونخواہ
میں حکومت کی صورت میں موقع ملا ہے وہاں کچھ کرتے تو دشمن بھی انکی تعریف
کرتے اور عوام بھی چاہتی کہ ہمارے صوبے کا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے
وزیر اعلیٰ جیسا ہونا چاہئے لیکن پرویز خٹک خود مانتے ہیں کہ جو کام ہم نے
چھ ماہ میں پورے کرنے کے وعدے کئے تھے وہ ہم پانچ سالوں میں بھی نہیں کر
سکتے ان لوگوں کا عملی کام کوئی نہیں صرف احتجاجوں اور باتوں سے حکومت حاصل
کرنا چاہتے ہیں ۔یہی دونوں پارٹیاں پھر سے پاکستان میں دھرنے دینے جا رہی
ہیں ایک تحریک قصاص کے نام پر تو دوسری پاناما پیپرز کے بارے میں
طاہرالقادری پھر سے پاکستان آئے اور ملک میں انتشار پھیلانے کی تیاریاں
مکمل کر لیں ہیں ادھر سے تحریک انصاف چاہتی تھی کہ پاناما کا مسئلہ عدالت
یا پارلیمنٹ میں حل نہ ہو وہ بھی کامیاب ہو چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس
کا فیصلہ عوام خود کرے لیکن ایک بات تو واضع ہے کہ عوام کو پاناما سے کوئی
لینا دینا نہیں ہے کتنا اچھا ہوتا کہ اگر یہی دھرنے اور جلوس پاناما کی
بجائے عوامی مسائل پر کئے جاتے ان لوگوں سے پوچھا جاتا کہ روٹی ،کپڑا اور
مکان کا نعرہ لگانے والے وہ عوام کی پارٹیاں کہاں گئیں اور وہ غریب کہاں
ہیں جنہیں اِنہوں نے روٹی ،کپڑا اور مکان سے نوازا ؟ملک میں بڑھتی ہوئی بے
روزگاری اور اسکی وجہ سے بڑھتے ہوئے جرائم کے خلاف دھرنا دیا جاتا تو کیسا
رہتا؟عوام کو بنیادی سہولیات جو ریاست کی اولین ذمہ داری ہے دلانے کیلئے
دھرنا دیا جاتا تو ان دھرنوں کا کوئی نتیجہ بھی اخذ ہوتا! لیکن یہ بھی ایک
مسلمہ کی حقیقت ہے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں
کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ،اقرباء پروری اور کرپشن ہر سطح پر ہے اور
گہری جڑیں رکھتی ہیں ۔اس نظام کے خاتمے کیلئے احتجاج کے راستے کی بجائے
عملی اقدام ضروری ہیں جسکا آغاز عمران خان خیبر پختونخوا سے ہی کرتے لیکن
ایسا کچھ نہ ہوا ۔یہاں تک کہ وہ اپنے صوبے سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہی
نہ کر سکے ۔ان دھرنوں کا اثر سی پیک منصوبے پر بھی پڑے گا کئی دوست نما
دشمن ممالک دوسرے اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خانہ جنگی کا ماحول
بنا کر سی پیک منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے یہ دھرنے انہیں
کے اشاروں پر ہو رہے ہوں اگر ایسا نہیں ہے تو دشمن عناصر خدا نخواستہ انہیں
دھرنوں کو پر تشدد بنا کر ملکی امن و امان کو نقصان پہنچانے کی سازش کریں
ایسی صورتحال جب پوری دنیا کی نظریں سی پیک منصوبے یعنی پاکستان کی معیشت
پر ٹکی ہوئی ہیں ایسے میں دشمن کو کوئی بھی موقع دینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔
|