والدہ کہتی ہیں بیٹا پڑھائی پر توجہ دو دلِ
بے قرار کہتا ہے کہ گلی کے کونے پر کھڑے ہو جاؤ اس امید کے ساتھ کے شاید
کسی کا دیدار ہو جائے،ویسے دیدار تو روز ہوتا ہے لیکن دل ہے کہ مانتا ہی
نہیں جہاں جاتا ہوں وہاں دیدار ہوتا ہے پر دل نامراد لے کر گھر آ جاتا ہوں
کہ جس کا دیدار کرو اچھی لگتی ہے سمجھ میں نہیں آتا یہ زیادہ اچھی ہے یا وہ
،اس فیصلے میں ہی انسان کا دل بے قرار رہتا ہے،اب اس دل ِبے قرار کو قرار
میں لانے کے لئے گلی کے کسی کونے میں کوئی سیگریٹ پیتا نظر آتا ہے تو کوئی
کولڈ ڈرنک،اور آج کل انرجی ڈرنک ہمارے نوجوانوں کے فیشن میں شامل ہے اس بات
سے بے خبر کے انرجی ڈرنک کا زیادہ استعمال آپ کے دل کو بیمار یعنی آپ کو دل
کا مریض بھی بنا سکتا ہے یہ میں نہیں کہہ رہا یہ تو امریکہ کی فلوریڈا
یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ انرجی ڈرنکس کا زیادہ استعمال آپ کو دل کا مریض
بنا سکتا ہے اور یہ بات طبی جریدے ایڈیکیشن میڈیسن میں شائع ہوئی ہے ،اُن
کا کہنا ہے اکثر ہمارے نوجوانوں کو قے(اُلٹی)وغیرہ کی شکایت ہوتی ہے شاید
اُس کی ایک وجہ انرجی ڈرنکس کا زیادہ استعمال بھی ہو،اور اس بات کا علم تو
اُس وقت ہوا جب فلوریڈا یونیورسٹی میں ایک ۲۸ سالہ نوجوان کو لایا گیا پھر
تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ نوجوان انر جی ڈرنک کا استعمال بہت کرتا ہے جس
کی وجہ سے اُس کی طبیعت خراب ہوئی کیوں کہ کولڈ ڈرنک سے ۵ گُنا زیادہ ’’کیفین‘‘انرجی
ڈرنک میں موجود ہوتی ہے جو دل کے خلیات میں کیلشیم کی مقدار کو بڑھا دیتی
ہے ،دل کی دھڑکن کو تیز کر دیتی ہے اور یہ دھڑکن کی تیزی دل کا دورہ پڑنے
کا بھی باعث ہوتا ہے،اور ویسے بھی اﷲ نے قرآن پاک میں اسراف کرنے کو منع
کیا ہے کسی بھی چیز کا حد سے زیادہ استعمال کرنا اسراف کہلاتا ہے قرآن اس
بارے میں کہتا ہے:
’’کھاؤ پیؤ مگر اسراف نہ کرو کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘
(سورہ اعراف آیت ۳۱)
تو پھر خدا کن افراد کو دوست رکھتا ہے قرآن اس بارے میں کہتا ہے:
’’اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی سے کام
لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا راستہ اختیار کرتے ہیں (سورہ
فرقان ۶۷)
ہمارا کام تھا بتانا ،ماننا یا نہ ماننا اس بات کا اختیار آپ کو ہے ،ہم نے
سائنس اور قرآن دونوں کی دلیلیں آپ کو پیش کر دی ہیں لیکن یہاں میں یہ بات
بتانا لازمی سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کوئی بھی کام اپنی حد سے زیادہ کیا
جائے بے شک اُس کام کا نقصان ہوتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کے سارے کام اپنی اپنی حد میں رہ کر کریں۔ |