سارک وزرائے داخلہ کانفرنس میں
پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور مسئلہ
کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دینے کی صورتحال میں بھارتی وزیر داخلہ راج
ناتھ سنگھ کانفرنس میں اپنی شرکت ادھوری چھوڑ کر واپس دہلی روانہ ہوگئے۔
راج ناتھ سنگھ کے دورے کے موقع پر لاہور اور اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے
بھی کئے گئے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے سارک اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اقوام
متحدہ کی قراردادوں اور اہلِ کشمیر کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل،
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے، دنیا کو باور کرانا ہے کہ
مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے سارک
کانفرنس سے خطاب میں کشمیریوں کی جدوجہد کو تحریک آزادی اور نہتے کشمیریوں
کے خلاف قتل کی وحشیانہ کاروائیوں کو بھارتی دہشت گردی قرار دیا۔ اسلام
آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس میں بھی اس بنیادی حقیقت کا اعادہ ہوا ہے کہ
مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیرپاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات قائم
نہیں ہو سکتے اور اسی وجہ سے سارک کا علاقائی ملکوں کا پلیٹ فارم اپنے
مقاصد کے مطابق پیش رفت میں ناکام چلا آ رہا ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے
اسلام آباد میں پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس میں کہا کہ خطے میں
پائیدار امن اور خوشحالی کے لیے تمام دیرینہ تنازعات کا پرامن حل ناگزیر ہے،
اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق دیرینہ
تنازع کا حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ ہے۔وزیر اعظم نے سفیروں
کو ہدایت کی کہ وہ دنیا کو اس بات سے آگاہ کریں کہ کشمیر بھارت کا اندرونی
معاملہ نہیں ہے۔
دہلی میں مقیم معروف سینئر کشمیری صحافی افتخار گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں
پیلٹ گن سے بھیانک طور پر زخمی ہونے والے بچوں، نوجوانوں کی حالت کے بارے
میں درد ناک،انسانیت سوز صورتحال بیان کی ہے۔ افتخار گیلانی نے یہ انکشاف
بھی کیا ہے مقبوضہ کشمیر میں استعمال ہونے والی پیلٹ گن بھارت نے اسرائیل
سے حاصل کی ہیں جن کا فلسطینی مظاہرین کے خلاف استعمال اسرائیل نے ترک کر
دیا گیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر نے اسرائیل کے دورے
کے دوران بھارتی صحافیوں کے ایک گروپ(جس میں افتخار گیلانی بھی شامل تھے)
کو بریفنگ میں بتایا کہ فلسطینی مظاہرین سے نمٹنے کے لئے اسرائیل نے ربر سے
لپٹی ہوئی اسٹیل کی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی تجربہ کیا تھا
مگر بچوں پر ان کے مہلک اثرات کے سبب ان پر بھی پابندی لگا دی گئی جبکہ
بھارت میں اب یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ وادی کشمیر میں پیلٹ گنوں کے بعد اب
ان دونوں ہتھیاروں کا استعمال بھی شروع کیا جائے۔ افتخار گیلانی بتاتے ہیں
کہ ’’ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو ششدر اور رنجیدہ کردیا جب اس
نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے افسروں کے ''کارنامے سنانے شروع کئے۔ اس
نے کہا، بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیں کہ شورش زدہ علاقوں میں
مسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں
اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے ان کو بتایا کہ کشمیر میں
وہ پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میں گھس کر تلاشیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کے لئے
کشمیرکا ہر دروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے۔ رائزنر نے کہا، ہم نے بھارتی
جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل پوری دنیا میں بدنام سہی مگر اس طرح کے آپریشن
اور وہ بھی بغیرکسی انٹیلی جنس کے، ان کی کارروائیوں میں شامل نہیں
ہیں‘‘۔اس سے حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اپنے حقوق کی جدوجہد
کرنے والے نہتے مظاہرین کے خلاف مسلح ریاستی طاقت کے وحشیانہ استعمال میں
اسرائیل سب سے آگے نہیں رہا،بلکہ کشمیروں کو نت نئے طریقوں سے ہلاک،سزایاب
کرنے کے نت نئے وحشیانہ طریقے استعمال کرتے ہوئے بھارت اسرائیل کو بھی
حیران کر رہا ہے۔اسرائیل کی طرف سے ہمیشہ پاکستان کے خلاف بھارت کی ہر سطح
پر مدد اور حمایت کوئی خفیہ بات نہیں ہے۔کرگل کی لڑائی میں بھارتی جنگی
طیاروں نے اسرائیل کی طرف سے ہنگامی طور پر مہیا کردہ لیزر گائیڈڈ میزائلوں
کے ذریعے ’’ پن پوائنٹ‘‘ تباہ کن حملے کئے۔ کشمیریوں کی رواں جدوجہد آزادی
اور بھارت کے خلاف تحریک مزاحمت میں بھی اسرائیل نے ہر سطح پر بھارت کی مدد
کی ہے۔
پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال پر سفارتی سرگرمیاں تیز
تو کی گئی ہیں اور اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ نے بھی کشمیر کی صورتحال کو
خطرناک قرار دیا لیکن اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی ہلاکتوں
کا سلسلہ جاری ہے۔مقبوضہ کشمیر میں مسلسل ایک ماہ سے جاری سخت ترین کرفیو
اورچپے چپے پہ بھارتی فورسز کی موجودگی کی وجہ سے ر وادی کشمیر میں عوام کو
اشیائے خورد و نوش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔بھارتی مظالم پر مبنی مقبوضہ
کشمیر سے ملنے والی اطلاعات دل دہلا دینے والی ہیں،لیکن دنیا کے چپے چپے پر
ہمہ گیر اور گہری نظر رکھنے والی عالمی طاقتیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی
مظالم کی اس صورتحال کو نظر انداز کرتے نظر آرہی ہیں۔چین اور ترکی کی طرف
سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت بھارت کی بڑہتی پریشانیوں میں اضافہ
کر رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں دو روز قبل تک ،27ویں دن بھی کرفیو اور ہڑتال
کے دوران صورتحال مسلسل کشیدہ ہے اور بھارتی فورسز کی درندگی پر مبنی
وحشیانہ کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے کشمیری مظاہرین کی تعداد 130تک جا
پہنچی ہے اور پیلٹ گن سے کشمیریوں کو سزایاب کرنے کا سلسلہ بھی بدستور جاری
ہے اور ہزاروں کشمیری بچے،لڑکیاں،نوجوان اس کا شکار ہوتے ہوئے عالمی
انسانیت کو جھنجوڑ رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان میں سرکاری سطح
پر19اور20جولائی کو مسلسل دو دن’’ کشمیر ڈے‘‘ منایا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں
گزشتہ ایک ماہ سے جاری کشمیری عوام کی قربانیوں سے لبریز، دلیرانہ جدوجہد
کے تناظر میں پاکستان میں احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہے ہیں جن میں جماعت
اسلامی،جماعت الدعوۃ و دیگر مذہبی تنظیمیں نمایاں ہیں۔مظفر آباد سے چکوٹھی
کی طرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے علامتی طور پر امدادی سامان کے چند ٹرک
بھی روانہ کئے گئے۔اس بار مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جماعت الدعوۃ پاکستان
میں زیادہ سرگرم نظر آ رہی ہے۔حریت کانفرنس کے آزاد کشمیر و پاکستان میں
موجود نمائندوں کی طرف سے بھی مختلف احتجاجی مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ چند
حلقوں کی طرف سے اس بات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی
مظالم کی سنگین صورتحال پر پاکستان کی طرف سے بھارت کے خلاف سخت ردعمل کا
اظہار نہیں کیا گیا ۔کشمیر پر پاکستان کے حکومتی بیانات،سرکاری موقف اور
سفارتی سرگرمیاں تیز کرنے سے قطع نظر مقبوضہ کشمیر کے عوام کی قربیانیوں
اور جدوجہد کے پیش نظر اخلاص کی کمی نمایاں طور پر نظر آ تی ہے۔خود یہاں
موجود کشمیری نمائندے بھی حق نمائندگی کی راہ اختیار کرنے سے محروم نظر آتے
ہیں۔میری رائے میں حریت نمائندوں کو جو کردار یہاں (پاکستان میں ) ادا کرنا
چاہئے،وہ نہیں کر رہے۔حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر و پاکستان شاخ میں حریت
کانفرنس مقبوضہ کشمیر کے سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق گروپوں
کی طرز پر سیٹ اپ موجود ہیں لیکن ان دھڑوں میں نظم و ضبط ،اعتماد اوراشتراک
عمل کا فقدان مضر نتائج کے ساتھ نمایاں ہے۔یہاں کشمیریوں کی بات ہو رہی ہے
لیکن نمائشی انداز نمایاں اور حاوی دیکھائی دیتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم
مقبوضہ کشمیر کے اپنے بہن بھائیوں کی نامساعد ترین صورتحال میں دلیرانہ طور
پر جاری رکھی جانے والی تحریک آزادی کے لئے اپنا اخلاص بھی ظاہر کرنے سے
قاصر ہیں اور نمائشی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ |