با اختیار سینیٹ، مضبوط وفاق کی ضمانت
(Muhammad Murtaza Noor, )
سینیٹ یعنی ایوانِ بالا بین الصوبائی ہم
آہنگی اور با لخصوص چھوٹے صوبوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اس آئینی
ادارے کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے پاکستان میں سینیٹ کے قیام کے بڑے
مقاصد میں وفاقی اکائیوں کو مساوی نمائندگی دیا جانا تھا کیونکہ ایوانِ
زیریں یعنی قومی اسمبلی میں ممبران کا انتخاب آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا
ہے جس کے نتیجے میں زیادہ آبادی والے صوبے کو زیادہ نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔
ہندوستان کے بر عکس جہاں 1947میں ہی دو ایوانی مقننہ کا قیام عمل میں لے
آیا گیا تھا اور راجیہ سبھا کو ایوانِ بالا قرار دے دیا گیا تھا پاکستان
میں یک ایوانی مقننہ پر مشتمل پارلیمانی نظام متعارف کروایا گیا تھا۔1970کی
منتخب اسمبلی نے 1973میں پاکستان کے تیسرے آئین کی منظوری دی جس کا نفاذ
14اگست 1973کو کیا گیا۔ اس آئین کے تحت پاکستان میں پہلی مرتبہ 1956اور
1962کے آئین کے بر عکس دو ایوانی مقننہ تشکیل پائی ، کیونکہ ایک ایسا ایوان
ضروری تھاجو چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو دُور کرتے ہوئے تمام صوبوں کو
یکساں نمائندگی فراہم کرے، سینیٹ کے ممبران کی ابتدائی تعداد 45تھی جسے
1977میں بڑھا کر(ایوانِ بالا) 63،1985میں 87اور 2002میں اضافہ کرتے ہوئے
تعداد 100کر دی گئی ،سینیٹ آف پاکستان نے قومی اداروں کے مابین روابط ،قومی
سالمیت،نسلی و ثقافتی ہم آہنگی اورآئین کی با لادستی کے حوالے سے اہم کردار
ادا کیا ہے، اسی لیے سینیٹ کو وفاق کی علامت بھی کہا جاتا ہے۔ سینیٹ کی اب
تک کی سب سے بڑی کاوش 2010میں متفقہ طورپر 1973کے آئین کی بحالیاور
اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری ہے مگر افسوس کہ اب تک 6سال گزرنے کے
باوجود اس پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد نہ کروایا جا سکا جس کے نتیجے میں
اس کے ثمرات سے براہ ِراست پاکستانی شہری مستفید نہ ہو سکے۔ اٹھارہویں
آئینی ترمیم میں عمل درآمد کے لیے نچلی سطح پر منتقل ہونے والے اور مشترکہ
امور کے رائج قانونی،ریگولیٹری اور پالیسی فریم ورکس میں خاطر خواہ
تبدیلیاں ضروری تھیں ،تقریبا 48ایسے وفاقی قوانین کی نشاندہی کی گئی تھی
جنہیں آئین سے ہم آہنگ بنانے کے لیے ان میں ترامیم کی ضرورت تھی ،بعض مسائل
ابھی تک تاخیر کا شکار ہیں جن میں قدرتی وسائل کی مشترکہ ملکیت ، کمیشن
برائے سٹینڈرڈز ان ہائر ایجو کیشن و تحقیق کا قیام ،مشترکہ مفادات کونسل کی
جانب سے پالیسی ریگولیشن اور نگرانی پر کنٹرول ،صوبوں کی جانب سے قرضوں کا
حصول اورورکرز ویلفیئر فنڈز شامل ہیں ، لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ
اٹھارہویں آئینی ترمیم پر مکمل طور پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ
اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا آئینی تقاضہ پورا ہو سکے۔ اس سلسلے میں
سب سے پہلے آرٹیکل 38(g) پر جو کہ تمام وفاقی اداروں میں صوبوں کی نمائندگی
کو یقینی بناتا ہے پر عمل در آمد کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ
صوبوں کو حقیقی معنوں میں ان کا حق مل سکے۔ دوسری جانب مشترکہ مفادات کی
کونسل کو مستقل سیکرٹریٹ قائم نہ کیا جا سکا اور ریلوے ،اعلیٰ تعلیم کے
معیارات، وفاقی ریگولیٹری ادارے ،مردم شماری ،بجلی جیسے اہم امور کی نگرانی
کی ذمہ داری آئینی طور پر مشترکہ مفادات کی کونسل کے پاس ہے لیکن ان اہم
امور کے بجٹ کی تیاری اور منظوری میں مشترکہ مفادات کی کونسل کو مسلسل نظر
انداز کیا جارہا ہے ،حال ہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سینیٹ کی نمائندگی
اور 6سینیٹرز کی شمولیت انتہائی خوش آئند ہے۔ اس سے وفاقی اکائیاں مالی
معاملات کی نگرانی میں اپنا فعال کرادار ادا کر سکیں گی ساتھ ہی ساتھ وقت
کا تقاضا ہے کہ سینیٹ کو وفاق کے نگران کی حیثیت سے ان حل طلب امور کی طرف
فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کا
قیام خوش آئند ہے لیکن کمیٹی کو چاہیے کہ وہ ان امور کو نمٹانے کے لیے جلد
از جلد ایک ٹھوس حکمتِ عملی تشکیل دے اور کمیٹی اٹھارہویں آئینی ترمیم اور
اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے رکاوٹوں کا جائزہ لے کر اُن اداروں اور
افراد کی نشاندہی کرے جو کہ 6سال گزرنے کے باوجود آئین پر عمل درآمد سے
گریزاں ہیں تاکہ ان کا مؤثر احتساب کیا جا سکے ۔علاوہ ازیں سینیٹ آف
پاکستان پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے حوالے سے صوبوں کی شکایات کے ازالہ
میں بھی انتہائی کار آمد ثابت ہو سکتا ہے،سینیٹ کو جامعات اور ماہرینِ
تعلیم کے ساتھ اپنے روابط کو بڑھانا چاہیے تاکہ قومی اور علاقائی سطح کے
معاملات پر سیر حاصل گفتگو کے بعد ٹھوس اور جامع سفارشات مرتب کی جا سکیں۔
مضبوط سینیٹ ایک مضبوط وفاق ، متحرک جمہوریت اور ہم آہنگی ، کی علامت ہے اس
لیے سینیٹ وفاق کو درپیش مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی
ہے۔ |
|