نا اہلیت

جمعرات کو افغانستان کے علاقے لوگر میں طالبان نے پنجاب حکومت کا ہیلی کاپٹر ہنگامی لینڈنگ کے بعد نذر آتش کر دیا جبکہ ہیلی کاپٹر پر سوار ساتھ افراد کو یرغمال بنا لیا جس میں ایک روسی اور چھ پاکستانی شامل ہیں۔عین ممکن ہے کہ ہیلی کاپٹر کوکریش لینڈنگ کے دوران اس میں آگ لگی ہو اور ہیلی کاپٹر کو نذر آتش کئے جانے کے حوالے سے میڈیا کی خبریں محض قیاس پر مبنی ہوں کیونکہ یہ خبر افغان میڈیا نے جاری کی لہذا خبر کی مکمل صداقت کے حوالے سے بہت سارے پہلو غور طلب ہو سکتے ہیں ۔قابل غور بات یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر کے عملے کو یرغمال بنانے کے واقعہ کا نہ تو پنجاب حکومت نے کوئی خاص نوٹس لیا اور نہ ہی وفاقی حکومت نے کوئی خاص دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے صرف اتنی بات میڈیا کو بتائی گئی کہ ہیلی کاپٹر اور یرغمالیوں کے حوالے سے افغان حکومت سے رابطہ کیا گیا ہے اور اب جواب کا انتطار ہے ۔ اس حوالے سے نہ تو وزیراعلی پنجاب نے کوئی اعلی سطحی رابطہ کیا، نہ ہی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے کوئی پیشرفت کی گئی اور نہ ہی صدر مملکت ممنون حسین نے اس معاملے کو قومی وقار کا مسئلہ سمجھا۔ سب اپنی اپنی دنیا میں مگن اور قومی وقار سے بھی زیادہ اہم ذاتی اور پارٹی کے امور نمٹانے میں مصروف نظر آئے۔ ملک اور صوبوں کے اہم ترین امور میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی عدم دلچسپی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ملک کی سیکیورٹی اور وقار سے لیکر تمام قومی امور نمٹانے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی ذمہ داری عسکری قیادت کے کاندھوں پر ڈال کر خود چپ سادھ لی ہے۔ مجبوراً آرمی چیف کو وہ کام بھی کرنے پڑ رہے ہیں کہ جو نہ تو ان کی ذمہ داری ہے اور ہی آئینی و قانونی طور پر ان کا دائرہ اختیار۔ ظاہر ہے کہ جب نہ تو صوبائی حکومت نے اور نہ ہی وفاقی حکومت نے ہیلی کاپٹر اور اس میں سوار عملے کو یرغمال بنائے جانے کے حوالے سے کوئی خاص دلچسپی دکھائی تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو افغانستا ن کے صدر اشرف غنی سے رابطہ کر کے صورت حال پر تبادلہ خیال کرنا پڑا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی سے رابطہ کیا اور ان سے یرغمالیوں کا باز یاب کرانے کے حوالے سے تعاون کی درخواست کی جس پر افغان صدر اشرف غنی نے بھر تعاون کا یقین دلایا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا افغان صدر اور افغان حکومت اس پوزیشن میں ہیں کہ پاکستان کی اس حوالے سے کوئی مدد بھی کر سکیں۔ افغانستان کا علاقہ لوگر طالبان کے کنٹرول میں ہے اور طالبان ہی نے ایک روسی اور چھ پاکستانیوں کو یرغمال بنایا ہے جبکہ طالبان افغان حکومت اورافغانستان میں موجود اتحادی ممالک کی فوجوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں ایسی صورت میں بے چارے اشرف غنی کیا کر سکتے ہیں یہ ایک اہم سوال ہے۔ دوسری طرف آرمی چیف راحیل شریف نے افغان فوج کے کمانڈر سے بھی رابطہ کیا ہے اور انھوں نے بھی اپنے تئیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھر پور تعاون کی یقین دھانی کرائی ہے لیکن اس معاملے میں افغانستان کے فوج کے کمانڈر بھی اتنے ہی بے بس ہیں کہ جتنے افغان صدر اشرف غنی۔ ظاہر ہے کہ پھر ان یقین دھانیوں کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن پھر بھی اگر امید لگائی جائے تو اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔ تمام اندازے یقین دھانیاں اور اندیشے اپنی جگہ لیکن یہاں اہم بات ہے کہ جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور صدر مملکت ممنون حسین کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا اور قومی وقار اور ہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئین و قانون اور رولز کو ایک طرف رکھتے ہوئے ’’آوٹ آف دی وے‘‘ جا کر افغانستان کے صدر اشرف غنی رابطہ کیا اور تعاون کی درخواست کی۔اکثر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب حکمران اپنی ذمہ داری نہیں نبھائیں گے تو پھر کسی کو تو یہ ذمہ داری نبھانی ہو گی۔ جب حکمران اپنے آپ کو انتہائی نا اہل ثابت کریں گے اور ملکی اہم امور سے لا تعلق سمجھیں گے تو کوئی تو آگے بڑھ کر پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دے گا۔ کوئی تو ہے کہ ملک و قوم کا درد رکھتا ہے اور اس کے لئے ہر حد پار کرنے اور تمام رکاوٹیں عبور کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس صورت حال میں حکمرانوں کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی ہی پڑے گی ورنہ کسی بھی بڑے حادثے کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہو گا۔
 
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 27 Articles with 19928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.