پاک افغان ٹریڈ ایگریمنٹ خدشات
اور مضمرات
چانکیائی سیاست کے اصول ”کہو کچھ کرو کچھ“ کا عملی اطلاق اگر دیکھنا ہو تو
ہماری موجودہ حکومت کا طرز عمل اِس کی بہترین مثال ہے، جمہوریت، آئینی
اقدار، قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی دعویدار حکومت نے
برسراقتدار آنے کے بعد سے لے کر اب تک یہی کچھ کیا ہے، یعنی کہا کچھ ہے اور
کرا کچھ ہے،اور جہاں پھنس گئے، فوراً اپنے سابقہ بیان سے مکر گئے، چند دن
پہلے تک حکومتی ذمہ داران بڑی شدت کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ پاکستان
کے راستے بھارت کو تجارتی راہداری نہیں دی جائے گی، کیونکہ یہ پاکستان کے
مفاد میں نہیں ہے، لیکن سب نے دیکھا کہ وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم
عوامی دباؤ پر اپنے سابقہ بیان”بھارتی سامان واہگہ باڈر سے افغان ٹرکوں میں
افغانستان جائے گا“ سے مکرتے اور یہ کہتے پائے گئے کہ ”بھارتی سامان
افغانستان لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ افغانستان سے سامان واہگہ کے
راستے بھارت جائے گا۔“
ابھی مخدوم امین فہیم کے دونوں بیانات کی سیاہی بھی خشک نہیں ہونے پائی تھی
کہ وزارت تجارت کی جانب سے ایک اور بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ”
پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر میڈیا میں خبریں بے بنیاد ہیں، ابھی پاک
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر دستخظ نہیں ہوئے، پہلے تمام قانونی تقاضے پورے
کئے جانے کے بعد دستخط کئے جائیں گے اور افغان ٹرکوں کے لیے روٹ کا تعین
بھی بعد میں کیا جائے، بیان میں یہ وضاحت بھی کی گئی کہ واہگہ بارڈر کے
ذریعے افغانستان کو بھارتی برآمدات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔“ لیکن بیانات
کے گورکھ دھندے میں الجھا ذہن ابھی بھی وزیر اعظم ہاؤس کے اُس منظر نامے کو
سمجھنے سے قاصر ہے جس میں مخدوم امین فہیم اور افغان وزیر تجارت انوارالحق
واحدی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی موجودگی اور امریکی وزیرخارجہ کی
سرپرستی میں اِس معاہدے پر دستخط کرتے نظر آتے ہیں۔
بہرحال حقیقت کیا ہے بہت جلد سامنے آجائے گی مگر ایک بات تو طے ہے کہ
امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان شروع ہوتے ہی بھارت کا وہ دیرینہ خواب
پورا ہوگیا جس کیلئے وہ گزشتہ 45سال سے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا،بھارت کی
عرصہ دراز سے خواہش تھی کہ اُسے واہگہ اور تورخم کے راستے اپنی برآمدات
افغانستان اور اُس سے آگے وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچانے کی اجازت دی جائے،
مگر چونکہ اِس اجازت کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کے تجارتی مفادات متاثر
ہوتے بلکہ پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، اِس لئے ماضی
کی ہر حکومت نے اِس اجازت سے اجتناب برتا، لیکن 18جولائی 2010ء کو امریکی
دباؤ کے تحت بھارت نے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جس کا خواب وہ طویل عرصہ سے
دیکھ رہا تھا، یوں پاکستان اور افغانستان کے مابین اتوار کو ایک وسیع
البنیاد مفاہمتی دستاویز پر دستخط ہوئے، جسکی رو سے بھارت کو واہگہ کے
راستے افغانستان کیلئے برآمدات کی بالواسطہ اجازت مل گئی ہے اور اُسے
افغانستان تک اپنے سامان کی نقل وحمل کیلئے پاکستان کے فضائی اور سمندری
راستے استعمال کرنے کا حق بھی دے دیا گیا ہے، جس کا اصل فائدہ امریکہ کے
گٹھ جوڑ سے بھارت اور افغانستان اٹھائے گا۔
باخبر حلقوں کے مطابق مفاہمتی دستاویز جسے بہت جلد قانونی تقاضے پورے کرنے
کے بعد باقاعدہ معاہدے کی شکل دے دی جائے گی کے تحت افغانستان کا برآمدی
سامان لے جانے والے ٹرکوں کو واہگہ اور پاکستانی بندرگاہوں تک طے شدہ روٹس
کے ذریعے جانے کی اجازت ہوگی، معاہدہ کی رو سے پاکستان نے افغانستان کو
اپنی سمندری حدود کے علاوہ فضائی حدود حتیٰ کہ زمینی راستے سے بھی بھارتی
برآمدات منگوانے کی اجازت دے دی ہے، خود وفاقی وزیر تجارت امین فہیم نے
دستاویز پر دستخط کے بعد بتایا کہ افغان تجارتی سامان کو کراچی سے لے کر
افغانستان کی سرحد تک ترسیل کیلئے راہداری دی جائے گی جبکہ لاہور کے قریب
واہگہ بارڈر سے تجارتی سامان کو افغان ٹرکوں پر لاد کر افغانستان بھیجا
جاسکے گا، افغانستان کا برآمدی سامان جس میں زیادہ تر خشک اور تازہ پھل
شامل ہیں پہلے ہی پاکستانی شاہراہوں سے گزر کر واہگہ کے راستے بھارت جا رہا
ہے۔
اِس تناظر میں وہاں سے کوئی نئی اشیاء کی تجارت کے امکانات نہ ہونے کے
برابر ہیں، البتہ اِس سے سمگلنگ میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے، جس سے
پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچے گا، افغان ٹرانسپورٹ گاڑیاں واپسی میں
پاکستانی مصنوعات اور اشیاء افغانستان لے جائینگی، جس سے پاکستانی
ٹرانسپورٹروں اور کنٹینر مالکان کو بھی نقصان پہنچے گا، اسی وجہ سے عوامی
اور تجارتی حلقوں نے نئے پاک افغان ٹریڈ ایگریمنٹ پر شدید ردعمل کا اظہار
کیا ہے اور اِسے پاکستان کے قومی مفادات کے منافی قرار دیا ہے، اِن حلقوں
کا خیال ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کا بنیادی مقصد ہی اِس
معاہدے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالنا تھا اور یہ معاہدہ امریکی دباؤ کا
نتیجہ ہے جس سے افغانستان کو بہت کچھ ملے گا جبکہ پاکستان کو اِس سے سراسر
نقصان ہوگا۔
کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان نے بھارت کو تجارتی راہ داری دے کر
اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے، حکومت نے یہ معاہدہ کر کے پاکستان کے مفادات
کا سودا کر دیا اور پاکستان کو بیچ دیا ہے، مسلم لیگ (ق) کی رکن قومی
اسمبلی ماروی میمن کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر وعدہ خلافی کی ہے
کیونکہ حکومت نے اِس معاہدے سے متعلق پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا وعدہ
کیا تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا، انہوں نے کہا کہ امریکی دباؤ کے تحت بھارت
کو افغانستان تک رسائی دی جا رہی ہے اِس مسئلہ پر پارلیمنٹ کی بالا دستی
مجروح ہوئی ہے، اِن حلقوں کی رائے کے مطابق اب اِس بات میں کوئی شک وشبہ
باقی نہیں رہ گیا کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف تخریب
کاری کیلئے استعمال کر رہا ہے تاکہ اِسے غیر مستحکم کیا جائے اور پاکستان
اور افغانستان کے مابین ہونے والے تجارتی معاہدے سے بھارت کو اپنے عزائم کی
تکمیل میں مدد ملے گی۔
بہرحال اِس معاہدے کے کیا نتائج نکلیں گے اور اِس سے اصل فائدہ کس کو ہوگا،
بہت جلد سامنے آجائے گا تاہم اِس موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن
اور اوباما کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی اسلام آباد میں موجودگی بے حد
معنی خیز ہے جس سے عوامی و تجارتی حلقوں کا یہ سمجھنا غلط نہیں کہ مذکورہ
معاہدہ امریکا کے دباؤ پر ہوا ہے، اِس معاہدے کے دو نہیں تین فریق ہیں یعنی
بھارت بھی اِس کا حصہ دار ہے اور یہ کوئی راز نہیں کہ افغانستان پوری طرح
امریکی قبضہ میں ہے اور بھارت امریکہ دوستی عروج پر ہے، چنانچہ دیکھا جائے
تو اصل فریق امریکہ ہی ہے، جس طرح سے بات اچانک آگے بڑھی ہے، اُس سے یہ
سمجھنا غلط نہ ہوگا کہ اگلے مرحلہ میں زمینی حدود بھی بھارت کے لیے کھول دی
جائیں گی، امریکہ کی یہی خواہش ہے اور پاکستانی حکمران امریکی خواہشات کو
حرز جان بنانے میں تامل نہیں کرتے، امکان یہی ہے کہ ناٹو کے کنٹینروں کی
طرح افغانستان کے ٹرکوں کی بھی تلاشی نہیں لی جائے گی، افغانستان پر قابض
ناٹو کی صلیبی افواج کو افغان مجاہدین سے لڑنے کی قوت فراہم آنے کے لیے
پاکستان نے اپنے تمام دروازے کھول رکھے ہیں اور ناٹو کے کنٹینروں کی تلاشی
ممنوع ہے، چنانچہ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ان کنٹینروں کے ذریعہ
کیا کچھ افغانستان جاتا رہا ہے اور جا رہا ہے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت امریکی تعاون سے مسلسل اپنی
موجودگی بڑھا رہا ہے اور اُس کے فوجی بھی وہاں موجود ہیں، پاکستان کی
سرحدوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنے سفارتی مشن قائم کر رکھے ہیں، پاکستانی
حکام بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے
خلاف استعمال کر رہا ہے، بلوچستان کی شورش کو ہوا دینے میں بھارت ملوث ہے،
پاکستان کے اِس دعوے کے جواب میں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اسلام
آباد میں یہ کہہ گئے ہیں کہ پاکستان اِس کا ثبوت پیش کرے، یہ بات بھی درست
ہے کہ بلوچستان سے غائب ہوجانے والے بہت سے شرپسند بھارت کی پناہ میں ہیں
یا افغانستان میں بیٹھے بھارت کی شہ پر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں،
اِن میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں یہ شور مچایا گیا ہے کہ اُن
کو ایجنسیوں نے اٹھا لیا ہے، بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا ایک بلوچ
علیحدگی پسند لیڈر براہمداغ بگٹی کے بارے میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ
پاکستانی ہے تو اُس کا بھارتی پاسپورٹ منسوخ کردیا جائے گا، قربان جائیے
بھارتی وزیر خارجہ کی اِس سادگی پر، اُن کو یہی نہیں معلوم کہ وہ پاکستانی
ہے یا بھارتی؟ جبکہ بھارتی پاسپورٹ جاری کرنے کا مطلب تو یہی ہے کہ بھارت
نے اسے اپنا شہری بنا رکھا ہے، ایسے نجانے اور کتنے ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھارت کے ”بِل“ سے کئی بار ڈسا جا چکا ہے لیکن
ہمارے حکمران ہر بار اُس ”بِل“ میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں، یہ حقیقت اظہر من
الشمس ہے کہ بھارت پاکستان کو کوئی سہولت فراہم کرنے پر تیار نہیں، اُس نے
کشمیر پر نہ صرف یہ کہ ناجائز اور ظالمانہ قبضہ کر رکھا ہے بلکہ گزشتہ 62
سال سے کشمیریوں کا قتل عام بھی کر رہا ہے، اِن حالات میں امن کی آشا کا
پرچار کرنے والوں کے سوا کسی کو بھی بھارت سے خیر کی توقع نہیں لیکن اِس کے
باوجود پاکستان اُس کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہے اور آغوش وا کر رہا ہے،
اِس تجارتی معاہدے کے تحت ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ بھارت، افغانستان
کو کیا برآمد کرے گا؟ جبکہ افغانستان کے لیے پاکستان سے گزر کر جو سامان
جاتا ہے اُس کا بیشتر حصہ پاکستان ہی کو اسمگل کردیا جاتا ہے، تجارت کے نام
پر ایسا سامان افغانستان بھیجا جاتا ہے جس کی وہاں کوئی ضرورت نہیں، چنانچہ
یا تو وہ سامان واپس آجاتا ہے یا پھر افغانستان جاتا ہی نہیں اور پاکستانی
مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔
اِس معاہدے کی ایک شق یہ بھی ہے کہ پاکستان بھی افغانستان کے راستے اپنا
مال وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچاسکے گا، اِس میں یقیناً پاکستان کا فائدہ
ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پاکستان اپنا سامان محفوظ طریقے سے
افغانستان سے گزار سکے، سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان کے موجودہ حالات میں
پاکستان اپنا سامان افغانستان سے گزار کر وسط ایشیا تک پہنچا سکے گا؟ اور
کیا اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین پاکستان کو صلیبی افواج کا
نمائندہ سمجھتے ہوئے تجارتی کارواں پر حملے نہیں کریں گی۔؟
جبکہ حال یہ ہے کہ خود پاکستان کے اندر ناٹو کنٹینرز پر حملے ہو رہے ہیں
اور افغانستان میں امریکی و صلیبی کارواں محفوظ نہیں ہیں، اِس صورتحال میں
اندازہ یہی ہے کہ پاکستان کو فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے، بھارت کو پورا پورا
فائدہ پہنچایا گیا ہے اور نئے اے ٹی ٹی کے تحت تاریخ میں پہلی بار بھارت کو
پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ تجارت کے لئے سمندری اور فضائی راستے
سے دو طرفہ تجارت کی اجازت دے کر امریکہ کی طرف سے یہ پیغام ہمارے حکام اور
عوامی حکومت کو دیا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں بھارتی مفادات کی نگرانی
کرتا ہے اور ایسا اُس نے اِس معاہدہ کی دستاویز کی تیاری اور اِس پر
دستخطوں کے مرحلوں سے ثابت بھی کر دیا ہے۔
اِس وقت ملک پہلے ہی دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، ساری دنیا جانتی ہے کہ
اِس میں زیادہ تر بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کا
عمل دخل ہے، جنہیں بھارت پہلے افغانستان بھجواتا تھا، جہاں انہیں بھارت کے
مختلف قونصل خانوں میں تربیت، اسلحہ، بارود اور نقدی فراہم کی جاتی اور پھر
انہیں افغانستان کی سرحد سے ہماری سرزمین میں داخل کردیا جاتا، حکومت اور
خفیہ ایجنسیوں کے پاس ”را“ کے تربیت یافتہ اِن دہشت گردوں کی بلوچستان،
سرحد اور پنجاب میں مذموم کاروائیوں کے ثبوت بھی موجود ہیں، اِس صورتحال
میں ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت بھارتی اشیاء کو پاکستان کے راستے افغانستان
بھجوانے کی سہولت ملے گی تو اسکی آڑ میں بھارتی اسلحہ، گولہ بارود اور اسکے
تربیت یافتہ دہشت گردوں کو بھی اِن اشیاء کے ساتھ براہ راست پاکستان میں
داخل ہونے کی موقع مل جائے گا، اِس طرح یہ معاہدہ جہاں ہماری معیشت و تجارت
کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا وہیں اِس معاہدے کی آڑ میں بھارت کو ہماری سالمیت
پر کاری ضرب لگانے کا بھی کھلم کھلا موقع ملے گا۔
جبکہ پہلے ہی ماضی کے حکمرانوں کی ہوس اقتدار میں اپنائے گئے اقدامات سے
ایک طرف افغانستان میں ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ہماری محفوظ سرحدیں غیر
محفوظ ہوچکی ہیں، اِن حالات میں باوقار اور محب وطن قوموں کا شیوہ یہ نہیں
ہوتا کہ جو دشمن اُن کی شہ رگ پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہو اور جس کی سازشوں سے
قومی وجود زخموں سے چور چور ہو اُس دشمن کو ایسی سہولیات فراہم کی جائیں کہ
جن سے اُس کی معیشت مضبوط ہو اور وہ اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک
باآسانی پہنچا سکے، یہاں یہ اَمر بھی قابل توجہ ہے کہ بظاہر اِس معاہدے میں
بھارت کی نمائندگی نہیں مگر یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکی وزیر
خارجہ بھارت کے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے کھڑی تھیں، اِس معاہدے کی
اندرونی کہانی کیلئے صرف وہی منظر نامہ ہی کافی ہے جس کا زکر پہلے کیا
جاچکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکی دباﺅ میں ہمارے حکمرانوں کو اور کون کون سی حدیں پار
کرنا رہ گئی ہیں، ایک ایسا معاملہ جس میں قوم کے ہر فرد کے جذبات شامل ہیں
اور جس سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے کو اِس طرح صرف نظر کرنا کسی طور
بھی قومی غیرت و مفاد میں نہیں ہے، پوری قوم کیلئے یہ صورتحال انتہائی
تشویشناک ہے کہ منتخب پارلیمنٹ کی موجودگی میں ملک و قوم کی سالمیت سے
متعلق اتنے اہم اور نازک معاملات پر بالا ہی بالا فیصلے کرلیے جائیں اور
افغانستان کے ساتھ راہداری معاہدے کی آڑ میں بھارت کو کھل کر کھیلنے کا
موقع فراہم کر دیا جائے، لہٰذا اِس نازک صورتحال میں ضرورت اِس اَمر کی ہے
کہ اِس معاہدے کو پارلیمنٹ میں بحث کیلئے لایا جائے، مشترکہ اجلاس میں اُس
پر تمام جماعتوں کے منتخب ارکان پارلیمنٹ سے سیر حاصل بحث کرائی جائے اور
تمام غیر ملکی دباﺅ کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کی شمولیت کے ہر پہلو کا
جائزہ لے کر ملکی اور قومی مفادات کی روشنی میں ایسا فیصلہ کیا جائے جس سے
پاکستان کی عزت، وقار، سالمیت اور استحکام میں اضافہ ہو۔ |