سازشی کون ہے؟
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
ہماری ملک کی جس طرح ہر چیز نرالی اور دنیا
سے مختلف ہے وہاں ہمارا جمہور ی نظام اور جمہوری حکومت بھی دنیا سے مختلف
ہے۔یہاں پر مذہبی انتہا پسندی ہو یا سیکولر انتہاپسندی وہ بھی دنیا کے دیگر
اقوام سے مختلف ہے۔یہاں جمہوریت اور اآمریت میں بھی کوئی خاص فرق نہیں بلکہ
عام لوگوں کو تومعلوم بھی نہیں ہوتا کہ جمہوری حکومت اور آمریت میں کیا
مختلف ہے، عام لوگ صرف یہ جانتے ہیں کہ پہلے پرویزمشرف کی حکومت تھی اوراس
کے بعد آصف علی زرداری کی حکومت بنی اور آج میاں نواز شریف کی حکومت ہے۔ ان
سب میں عوام کو کوئی فرق نظرنہیں آرہا ہے ،عوام صرف یہ فرق محسوس کرتے ہیں
کہ پرویز مشرف کے دور میں مہنگائی اتنی تھی ، زرداری نے اس میں اتنا اضافہ
کیا جبکہ میاں نواز شریف نے اس میں ڈبل سے زیادہ اضافہ کیا ، بجلی بل مشرف
دور میں پندرہ سو آتا تھا ، لوڈ شیڈنگ بھی کم تھی جبکہ زرداری دور میں وہ
بل 25 سو روپے ہوگیا ، لوڈ شیڈنگ بھی پہلے سے زیادہ ہوئی اور میاں نواز
شریف کے دور حکمرانی میں بجلی کا وہی بل 6 ہزار کا ہوگیا اور لوڈ شیڈنگ بھی
ویسے ہی ہورہی ہے جیسے کہ پہلے تھی۔فرق ان سب میں صرف یہ ہے کہ سب نے مختلف
نعروں سے حکومت کی ،باقی کوئی خاص فرق نہیں کہ ان میں جمہوری سوچ والا کون
تھا اور آمریت کی سوچ والا کون ہے ۔ہماری ملک کی جمہوری اور آمریت والی
حکومتوں میں بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات ہی مہیا نہیں ہوئے
اسلئے عوام بہتر فیصلے یا سوچ نہیں سکتے کہ ان کو دھوکہ دینے والوں کے خلاف
اٹھ کھڑے ہو،جنہوں نے اس ملک کو لوٹا یا اب بھی لوٹ رہے ہیں ، عام آدمی
اپنے بچوں کیلئے دن رات محنت ومشقت میں لگا ہے ۔ اس لئے وہ اس ظلم و بربریت
پر خاموش ہے لیکن حالات و واقعات سے محسو س ہورہاہے کہ عام آدمی زیادہ دیر
خاموش نہیں رہے گااور اپنے حقوق کیلئے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا لیکن
جب بھی عام آدمی حکمرانوں اور اس سسٹم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو ساتھ میں
سازشی سوچ رکھنے والے شروع ہوجاتے ہیں اور میڈیا پر پروپیگنڈا کا آغاز بھی
کہ یہ تحریک ، مارچ ، دھرنا یا احتجاج حکومت کے خلاف سازش ہے اور عسکری
قیادت جمہوری نظام کے خلاف سازش کے پیچھے ہیں ۔ اب بھی یہی تھیوری عام کی
جارہی ہے کہ عمران خان کا مارچ یا طاہر القادری کا احتجاج دراصل عسکری
قیادت کی پشت پناہی پر کیا جارہاہے تاکہ ملک میں مارشل لاء کیلئے گراونڈ
بنایا جائے اور جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا جائے ۔
یہ سب باتیں وہ لوگ کررہے ہیں جن کا مفاد اس حکومت یا سسٹم کی وجہ سے ہیں
حالانکہ ماضی کے برعکس اب حالات بالکل مختلف ہے ، عسکری قیادت کی سوچ بھی
یہی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام ہی بہتر ہے ۔مارشل لاء یافوج کا آنا مسئلے
کا حل نہیں ہے ، ماضی میں بھی کئی دفعہ فوج نے اقتدار سنبھالا لیکن اس سے
حالات مزید خراب ہوجاتے ہیں ، فوج کے خلاف عوام کی رائے بھی تبدیل ہوجاتی
ہے ، اس لئے ملک کے مفاد میں جمہوری نظام ہی بہتر ہے جس پر سب لوگ متفق ہے
لیکن یہ جمہوریت حقیقی جمہوریت ہونی چاہیے جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں
جمہوری نظام موجود ہے ، حکمران عوام کو جوابدے ہوتے ہیں ، تمام فیصلے
پارلیمنٹ میں کیے جاتے ہیں ، کرپشن اور لوٹ مار پرایسا نہیں ہوتا جس کا
جواب نہ دیا جاسکیں۔اب نون لیگ حکومت کو تین سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے
لیکن ان تین سال کے عرصے میں نون لیگ حکومت کی کوئی ایسی کارکردگی نظر نہیں
آرہی ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو بلکہ حکمران تو عوام کے سامنے اپنے آپ کو
جوابدہ بھی نہیں سمجھتے جو اہمیت پارلیمنٹ کی زرداری دور حکومت میں بنی تھی
اب وہ ختم ہوچکی ہے ، وزیراعظم پارلیمنٹ میں کم اور برطانیہ کے چکر زیادہ
لگاتے ہیں جہاں ان کابزنس اور بچے رہ رہے ہیں ۔ اس طرح تمام فیصلے پارلیمنٹ
کے بجائے کیچن کبینٹ میں کیے جاتے ہیں۔ تمام اہم فیصلوں پر پارلیمنٹ کو
بائی پاس کیا جاتا ہے۔
آج حقیقت یہ ہے کہ عوام کے مشکلات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا
ہے۔پانامالیکس مسئلہ ہویا حکمرانوں کے مال ودولت کا حساب کتاب یا اس پر
ٹیکس کی ادائیگی ان سب کا جواب دینے کیلئے حکمران تیار نہیں ہے۔ قوم سے
خطاب اور پارلیمنٹ ہاؤس میں تقریرکے باوجود جس میں وزیراعظم میاں نواز شریف
نے خود اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا کہ میں پاناما لیکس پر احتساب کرنے
کیلئے تیار ہوں لیکن چار مہینے گزرنے کے باوجود اب تک وزیراعظم لیت ولال سے
کام لے رہے ہیں۔مجھ سمیت بہت سے تجزیہ کار اور سیاسی ماہرین پہلے سے یہ بتا
رہے تھے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کبھی بھی پاناما لیکس پر احتساب کیلئے
تیار نہیں ہوں گے، یہ صرف ٹائم پاس کیلئے بیانات اور کمیٹیاں بنا رہے ہیں ۔
پاناما لیکس پر تحقیقات کا مطالبہ یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت ان کا پورا
خاندان جیل میں جانے کوتیار ہے۔ وزیراعظم کبھی بھی ان سوالوں کے جواب نہیں
دے سکتے ہیں کہ ان کا کھربوں روپے بیرونی ممالک میں پاکستان سے کیسے گیا
اوراس پر کتنا ٹیکس ادا کیااور کمائی کے ذریعے کیا تھے جس کی وجہ سے میاں
نواز شریف کا خاندان 30سال میں تین کارخانوں سے 30 کارخانوں کے مالک بن گئے
۔وزیراعظم کوآج نہیں تو کل ،ان سوالوں سمیت ماڈل ٹاؤن میں معصوم لوگوں کے
قتل عام پر بھی جواب دینا ہوگا ۔ اقتدار کے مزے لینے والوں کو یہ بات یاد
رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں احتساب اور عوام کے سامنے یعنی پارلیمنٹ
کوجوابدہ ہونا ہی جمہوریت کہلاتی ہے ۔ اگر کوئی سیاست دان یا جماعت آپ سے
احتساب اور جواب مانگتی ہے تواس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت خطرے میں
ہے یا حکومت کے خلاف فوج یا کوئی سازش کررہا ہے ،پاکستان کی تاریخ میں شاید
اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ہوگا کہ جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومت
اپنی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے پورے سسٹم کو داؤ پر لگا د ے اور فوجی
قیادت مداخلت نہ کرے بلکہ فوج ملک کو درپیش داخلی سمیت علاقائی اور عالمی
چیلجنز پر فوکس رہیں۔احتساب سے بچنے کا یہ بہتر ین طریقہ ہے کہ میڈیا میں
اپنے کارندوں کے ذریعے یہ افواہیں پھیل دی جائے کہ ہمارے خلاف سازش ہورہی
ہے ۔
جب تک حکمران اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدے نہیں بنتے اور پاناما لیکس
پر تحقیقات شروع نہیں ہوتی اور ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والوں کی دادرسی
اور عدالتی کمیشن کے مطابق مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا اس وقت
تک حکمرانوں کے خلاف اس طرح کے احتجاج ، دھرنے اور جلوس ہوتے رہیں گے ۔ جو
کسی سازش کے تحت نہیں بلکہ حکمرانوں کو قانون کے سامنے جوابدے بنانے کیلئے
ہوگا ۔ جمہوریت کے نام پر حکومت کرنے والوں کو تو چاہیے کہ وہ خود تمام
ایشوز پر استعفا دیتے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے تو پھر ان کے خلاف
کسی کو احتجاج کرنے کی ضرورت نہ پہلے تھی اورنہ اب ہے۔ فوج کے خلاف
پروپیگنڈا کرنے سے بہتر ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا اور تمام
ایشوز کو بات چیت سے حل کیا جائے جسے جمہوریت اور پارلیمنٹ مضبوط ہوگی لیکن
حکومت خود ہی اپنے خلاف سازش کررہی ہے کہ جیسے بھی ہو ہم غازی یا شہید بن
جائے۔ |
|