محتاجوں کی معاونت ، ہماری مشترکہ زمہ داری
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
پاکستان سمیت دنیا بھر میں محتاجوں کا
عالمی ہر سال 9 اگست کے روز منایا جاتاہے ، محتاجوں کا عالمی دن منانے کا
مقصد دنیابھر میں محتاجوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی دیکھ بھال کیلئے خصوصی
اقدامات پر زور دینا ہے۔ اس دن کے منانے کا آغاز9 اگست 1994 ء میں اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک متفقہ قرار داد کی منظوری کے
بعد ہوا۔9 اگست کے دن محتاجوں کی فلاح وبہبود کیلئے خدمات انجام دینے والے
اداروں ،سماجی تنظیموں کے زیراہتمام مختلف تقاریب ،سیمینارز کااہتمام کیا
جاتا ہے۔ محتاجوں،غریبوں ، یتیموں اور ضرورت مندوں کی معاونت ، حاجت روائی
اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے
ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دین
اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے ۔
خالق کائنات اﷲ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا
حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ
لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے
جو اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور
پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں،
مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں
جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا
کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور
یہی پرہیزگار ہیں۔(سورۃ البقرۃ 2آیت177)، قرآن حکیم کی سورۃ البقرہ ہی میں
ارشاد ہے’’ (لوگ) آپ صلی اﷲ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں)
کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے
حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج
ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اﷲ اسے خوب جاننے
والا ہے۔‘‘ ( سورۃ البقرہ2 آیت 215)
سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں،
بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود
ہے۔یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور
معذوروی کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت وضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا
جائے۔جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس اور ضرورت واحتیاج دور کرنے کے لئے اپنا
مال ودولت خرچ کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے زمے قرض حسنہ قرار
دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اﷲ کی راہ میں خرچ کئے
گئے مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو
پورا کرنا اﷲ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔دین اسلام سراسرخیر
خواہی کا مذہب ہے، اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اﷲ کی اہمیت سے
بڑھ کر بیان کیاگیا ہے۔ دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی اور
راحت حاصل ہوتی ہے جو اطمنان قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے
۔
محسن انسانیت نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ و سلم نے نہ صرف حاجت مندوں کی
حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم خود بھی
ہمیشہ غریبوں ،یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے۔ایک مرتبہ آپ
صلی اﷲ علیہ و سلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک
عورت اپنی کسی ضرورت کے لئے آپ کے پاس آئی۔آپ صلی اﷲ علیہ و سلم صحابہ کرام
کے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی باتیں سنتے رہے اور اس
کی حاجت روائی کا یقین دلا کر ،مطمئن کر کے اسے بھیج دیا۔آپ کا فرمان ہے کہ
حاجت مندوں کی مدد کیلئے میں مدینہ کے دوسرے سرے تک جا نے کیلئے تیا ر ہوں۔
حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ
نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے
کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے ،اﷲ تعالیٰ اس کی حاجت روائی
فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ قیا مت کے
دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔ ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم ہے کہ اﷲ تعالیٰ
اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا )رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان
بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
تمہارے خادم (محتاج )تمہارے بھائی ہیں، اﷲ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ماتحت
کردیا ہے۔پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو جو کھانا خودکھائے اس میں سے اسے
کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے وہی اسے پہنائے اور اس سے ایسی مشقت نہ لے جو
اس کی طاقت سے باہر ہو اوراگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی کام اس کے سپر د
کر ے تو خود بھی اس کی مدد کر ے۔ (بخاری ومسلم)، نبی کریم صلی اﷲ علیہ و
سلم کا ارشاد ہے یقینا صدقہ اﷲ ربّ العزت کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اوربری
موت کو دور کرتا ہے۔ ‘‘(ترمذی)
لیکن آج ہم دیکھیں اسلامی کی روشن تعلیمات سے دور ہوکر ہمارا طرز زندگی،
ہمارا طرز معاشرت بہت عجیب سا ہوگیا ہے، بے حسی تو آج کے معاشرے کا معمول
بنتی جارہی ہے، ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں ، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا
احساس ہی نہیں ہے ۔ ہم خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے
والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بچے روٹی کو ترستے
ہیں اور ہم اپنے بچے پر ضرورت سے زائد خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں اس بے حسی اور بے
جا اصرا ف پر شرمندگی بھی نہیں ہوتی ۔ ہمیں فلاح انسانیت کے لئے اپنا طرز
زندگی بدلنا ہوگا ۔ جیسا کہ صحابہ اکرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم نبی کریم
صلی اﷲ علیہ و سلم کے کہنے پر اپنی جان ومال اپنے مسلمان بھائیوں پر نچھاور
کرنے کیلئے ہمہ وقت تیا ر رہتے تھے، اسی طرح آج ہمیں بھی اسلامی تعلیمات
پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ، ہمیں غور کرنا چاہئے کہ رشتہ داروں ، غرباء
و مساکین ، ہمسایوں اور ملازمین کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہے ۔ کہیں ہم
اسلامی تعلیمات کی حلاف ورزی کرکے جہنم کا ایدھن بننے کی تیار ی تو نہیں
کررہے ۔ آج ہمیں خود کو نکھارنے ، اور اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے کی
کوشش کرنی چاہئے ۔ اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں ، کیوں نہ دوسروں کے لئے جیا
جائے ، دوسروں کی مشکلات ومسائل کو محسوس کرتے ہوئے ان کا ہاتھ بٹایا جائے
۔ ہماری مدد و معاونت سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے، کسی کی مشکل آسان
ہوسکتی ہے ، کسی مجبور کا علاج ہوسکتا ہے ، کسی کے حصول رزق میں معاونت
ہوسکتی ہے ، کسی مجبور کی بیٹی کی شادی ہوسکتی ہے ، کسی کے بچوں کا طرز
زندگی بہتر ہوسکتا ہے ، کسی کو حصول علم میں مدد دی جاسکتی ہے تو یہ ہمارے
لئے باعث اعزاز اور باعث راحت ہے ۔لہٰذا ہمیں اپنی زندگی کو اس انداز سے
گزارنے کی کوشش کی جائے کہ دین و دنیاکی خوشنودی کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان
بھی حاصل ہو ، یہی حقیقی زندگی ہے ۔ بقول شاعر
جیت کر سینہ فگاروں کے تڑپتے ہوئے دل
اپنی آغوش میں کونین کی خوشیاں بھرلے |
|