آزادی

جونہی یہ لفظ ذہن میں آتا ہے۔انسان خوشی محسوس کرتا ہے۔ آزادی کا مفہوم کئی حوالوں سے بیان کیاگیا ہے۔انفرادی غلامی سے آزادی بھی ایک صورت ہے۔طاقتور قوم کا غلبہ ختم ہونا بھی آزاد ہونے والی قوم کو مسرت عطا کرتا ہے۔انفرادی غلامی اب آہستہ آہستہ دنیا سے ختم ہورہی ہے۔طاقتور اور ظالم جاگیر داروں کے علاقوں سے ہی کبھی کبھی خبر آتی ہے کہ وہ اب بھی لوگوں کو باندھ کررکھتے ہیں اور زبردستی کام لیتے ہیں۔بدلہ میں زندہ رہنے کے لئے چند خوراک کے لقمے۔تعلیم اور شعور کی بلندی نے انفرادی غلامی کو آہستہ آہستہ کافی کم کردیا ہے۔گزشتہ صدیوں میں طاقتور اور ماثر قوموں نے کمزور اقوام کو ماتحت بنا رکھاتھا۔اگر ہم دور جدید سے دیکھیں تو1776ء میں امریکہ کی13۔ریاستوں نے برطانوی بادشاہت کا قلاوہ اتار پھینکا اورU.S.Aکی بنیاد رکھی۔ریاستوں کی یہ تعداد اب بڑھ کر 52ہوگئی ہے۔مغربی دانشوروں کے نزدیک بڑی عثمانی سلطنت سے بہت سے علاقوں کے لوگوں کا علیحدہ ہونا بھی متعلقہ لوگوں کے نزدیک آزادی شمار ہوتا ہے۔مسلم دانشور ان تمام واقعات کو جو پہلی جنگ عظیم کے بعد پیش آئے مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔موجودہ جمہوری ترک ریاست عثمانی بادشاہت کے بطن سے ہی پیدا ہوئی تھی۔اور پھر دوسری جنگ عظیم(1945)سے لیکر1979ء تک تقریباً70۔ممالک مغربی استعماری طاقتوں سے آزاد ہوئے۔یوں20۔ویں صدی کو اقوام کی آزادی کی صدی کہا جاتا ہے۔کہیں کہیں اب بھی کچھ اقوام آزادی کے لئے جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔کشمیری اور فلسطینی ان میں پیش پیش ہیں۔بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی آزادی کے لئے کوششیں جاری ہیں۔غلام قوموں کے لئے آزادی ایک سہانا خواب رہی ہے۔اور اقوام نے اس کے لئے بڑی بے بہا قربانیاں دی ہیں۔آزادی کے بعد ہی قوم کے افراد اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو بھر پور انداز سے استعمال کرتے ہیں۔اور قوموں کی برادری میں عزت و شرف پاتے ہیں۔اگرU.S.A کے لوگ آزاد ہوکر متحدنہ ہوتے ۔آگے بڑھنے کی جرات نہ کرتے۔آج ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔یہ صورت حال برصغیر کی آزادی کی بھی ہے۔برصغیر کے تینوں ممالک بھارت،پاکستان اور بنگلا دیش کی اب اپنی اپنی پہچان ہے۔ان کی اپنی اپنی نمائندہ پارلیمنٹس ہیں۔افواج ہیں اور اپنا اپنا آئین۔تینوں اپنے آئین کے تحت ثمرات سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔آگے بڑھ رہے ہیں۔ترقی کی رفتار حالات کے لہاظ سے کسی کی زیادہ اور کسی کی کم۔انگریزی سامراج کے بعد اب عالمی سطح پر انکی حیثیتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ان میں سے2۔تو اب ایٹمی قوتیں شمار ہوتی ہیں۔بھارت نے جب انگریزوں سے آزادی حاصل کی تو اس وقت کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے عوام کو یہ آزادی دی گئی تھی کہ عوام کی مرضی سے کسی بھی ملک پاکستان یا بھارت کے ساتھ شامل ہوجائیں۔اس اصول کے تحت جموں وکشمیر کے عوام کو ابھی تک آزادی کا حق نہیں ملا۔جب تک بھارت کشمیریوں کی آزادی کا حق تسلیم نہیں کرتا۔اس پر عالمی سطح پر دباؤ جاری رہے گا۔بھارت جیسے ملک کے لئے یہ بات باعث بدنامی ہے کہ اسکی مسلح افواج آزادی کے حق میں نعرے لگانے والوں پر گولیاں برسائیں اور بہت سے لوگ مرتے رہیں۔کشمیر میں جاری بھارت کی پالیسی اس اصول آزادی کے انتہائی خلاف ہے جس اصول کے تحت69۔سال پہلے اس نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔جب کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے گا تو کشمیریوں کی اکثریت بھارت یا پاکستان میں سے کس کے حق میں ووٹ دے گی اس کا پتہ تو ریفرنڈم کے بعد ہی پتہ چلے گا۔بھارت کو استصواب رائے کاحق آخر کار دینا ہی پڑے گا۔یہ حق دیکر بھارت کی اپنی Goodwillمیں بہت اضافہ ہوگا۔آزادی کا سفر آگے کی طرف چلتا ہے۔20۔ویں صدی میں بھارت نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور اسی وقت سے کشمیری بھی اپنا حق آزادی مانگ رہے ہیں۔اور اب تو21۔صدی کے 16سال گزر چکے ہیں۔اگر یہ کام بھارت اسلوبی سے جلد از جلد سرانجام دے تو اس کے لئے مستقبل میں بے شمار فوائد ہیں۔بھارت کے لئے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی رکنیت کا امکان پیدا ہوجائے گا۔اس کے لئے ہر طرح کے ایٹمی اداروں کی رکنیت بھی آسان ہوجائے گی۔قائد اعظم نے آزادی کے حصول کے بعد فرمایا تھا"آپ آزاد ہیں۔آپ کو آزادی ہے کہ اس ریاست پاکستان میں اپنے مندروں میں جائیں،اپنی مسجدوں میں جائیں یا کسی دوسری عبادت گاہ میں جائیں۔یہ بات ریاست کے دائرہ کار میں شامل نہیں کہ آپ کس ذات،فرقے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ہم سب ایک بنیادی اصول سے شروع کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں۔"قائد اعظم کے اس بیان میں آزادی کا ایک خوبصورت تصور دیاگیا ہے۔ہر مذہب کے لوگوں کو اپنی مرضی سے عبادت کرنے کا حق۔ریاست اس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔یہی آزادی ہمارا اسلام بھی دیتا ہے۔تمام انسان جو کسی مسلم مملکت میں رہتے ہیں۔بس اس مملکت کے برابر کے شہری ہیں۔وہ تعلیم حاصل کریں ۔اپنی صلاحیتوں کو جلا دیکر اپنے آپ کو نکھاریں اور خوشحالی کی منزل حاصل کریں۔اگر آزادی کے وقت سے لیکر اب تک قومی اور صوبائی حکومتیں پاکستانیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے یکساں مواقع دیتیں تو پاکستان میںHaveاور Have notکا فرق کافی حد تک کم ہوچکا ہوتا۔عوام کی تعلیم اور صحت پر منصفانہ انداز سے توجہ نہیں دی گئی۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کے مفہوم کو صحیح انداز سے لاگو نہیں کیاگیا۔انگریزوں کے دور کی جاگیر داریاں مکمل طور پر ختم نہیں کی گئیں۔ابھی بھی سندھ کے اندرون میں وڈیروں کا راج ہے۔عام آدمی کی زندگی مشکل میں ہے۔پیپلز پارٹی کے شہداء کی تعداد بڑھنے سے غریب ہاریوں کی زندگیوں میں کوئی خوشگوار تبدیلی نہیں آئی۔سندھ اور جنوبی پنجاب میں گدی نشینوں اور پیروں نے بھی لوگوں کے ذہنوں کو بند کررکھا ہے۔شعور تو تعلیم سے بڑھنا تھا۔اور اب تک ہم پوری پاکستانی قومی آمدنی کا تعلیم پر صرف اور صرف2۔فیصد ہی خرچ کرتے چلے آرہے ہیں۔ابتدائی تعلیم کا نہ معیار بلند ہوا اور نہ ہی وہ عام ہوئی۔ایسی ہی صورت صحت کے شعبہ کی ہے۔آزادی تبھی محسوس ہوگی جب لوگ اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کریں گے۔انکے علاج معالجہ کی بہتر سہولیات ہونگی۔آزادی کے ثمرات عوام تک پہنچانا ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ابھی ہماری 30۔فیصد آبادی غربت کے سمندر میں خوطے کھارہی ہے۔حکومت پاکستان اپنی ترجیحات درست کرے۔جب برصغیر میں آزادی کا اعلان ہوا۔تب میں4 سال کا تھا۔بھارت کی ریاست پٹیالہ کے ایک تاریخی شہر سرہند میں خاندان کا بسیرا تھا۔وہاں سے بذریعہ ٹرین ہمارے دوچار خاندان پاکستان آگئے تھے۔اس سفر کے موھوم سے تصورات ابھی بھی ذہن میں موجود ہیں۔خواتین نے راستے میں آنے والے دریا میں سکے پھینکے تھے۔زیورات موٹی روٹیوں میں گوندھ کر لائے گئے تھے۔کچھ دنوں تک انہیں کو فروخت کرکے گزارہ چلا۔جھنگ میں زمینوں کے الاٹمنٹ کے بعد زراعت جلد ہی کھڑی کرلی گئی۔اگر آزادی نہ ملتی تو شاید ہم بھی تعلیم حاصل نہ کرسکتے۔اب اگر اچھی زندگی گزار رہے ہیں تو اس میں آزادی کا اثر بہت نمایاں نظر آتا ہے۔آزادی نعمت ہے۔تمام پاکستانیوں کو اسکی قدر کرنی چاہیئے۔اونچا اڑنے کے لئے اب کسی سامراج سے اجازت کی ضرورت نہ ہے۔ہمیں نہ صرف انگریزوں سے آزادی ملی۔بلکہ اکثریتی ہندوقوم سے بھی آزادی ملی۔یہ تمام کچھ محمد علی جناح کی جدوجہد سے ہوا۔وہ کئی سال انگریزوں کے سامنے یہ ثابت کرنے میں لگے رہے کہ برصغیر میں ایک نہیں بلکہ2۔قومیں رہتی ہیں۔ہندو اور مسلمان کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں۔مذہب،تہذیب وتمدن ہر شے مختلف ہے۔محمد علی جناح کی آئینی بحثوں نے ہی پاکستان بننے کے راستے میں رکاوٹیں دور کیں۔ان ماثر بحثوں کے بعد جب پاکستان اور بھارت کی تقسیم کا فیصلہ ہوگیا تو سردار پٹیل کہاکرتے تھے کہ کانگریس کے پاس محمد علی جناح جیسا اگر ایک بھی لیڈر ہوتاتو ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔نوجوانوں کو چاہیئے کہ اپنے قائد اعظم کو یادکرتے رہیں۔جونہی یہ کالم تمام ہوا پتہ چلا کہ کوئٹہ میں قیامت صغریٰ برپا ہوگئی ہے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.