یہ ایک حقیقت ہے کہ نظریہ پاکستان کے تحفظ
اورآزادی تحریک پاکستان میں علماء کا کردارآب ذر سے لکھنے کے قابل ہے آج
نئی نسل کو علماء حق کے کردار سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج تک جتنی بھی تاریخی کتابیں ہمارے بچوں کو سکولوں
اور کالج میں پڑھائی جاتی ہے ان میں اکثر و بیشتر کتب ایسی ہے جن میں ان
عظیم شخصیات کا ذکر تک نہیں جس کی وجہ سے ہماری نئی نسل یہ سمجھتی ہے کہ
علماء کرام نے قیام پاکستان کی تحریک میں کوئی اہم کردار ادا نہیں
کیاحالانکہ برصغیر پاک و ہند بلکہ عالم اسلام کی دینی و مذہبی شخصیت اور
دارالعلوم دیوبند کے سرپرست مجدد مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ ،علامہ
شبیر احمد عثمانیؒ ،مفتی اعظم محمد شفیعؒ،مولانا خیر محمد جالندھریؒ ،مولانا
ادریس کاندھلویؒ سمیت ہزاروں علماء کرام نے جہاں اس وطن کی آزادی کے لئے
عملی جدوجہد کی وہیں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا ۔ اُوپر درج ذیل شہرۂ
آفاق علماء حق کے اسماء گرامی ایسے ہیں جن کے ذکر کے بغیر قیام پاکستان کی
تاریخ کا تذکرہ نامکمل ہے۔خود قائد اعظم محمد علی جناح بھی اس بات سے بخوبی
واقف تھے کہ انہی علماء کرام کی مساعی جمیلہ کی وجہ سے انہیں مسلمانوں کے
لئے علیحدہ مملکت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی اور اسی وجہ سے بانی پاکستان
محمد علی جناح نے پاکستان کی پرچم کشائی مغربی پاکستان میں شیخ الاسلام
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اﷲ علیہ کے ہاتھوں اور مشرقی پاکستان میں
مولانا ظفر احمد عثمانی رحمتہ اﷲ علیہ کے ہاتھوں سے کرائی تھی اور یہ چیز
تحریک آزادی پاکستان کی تاریخ کا جز بن چکی ہے -
مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبر کی پھیلائی ہوئی لادینیت کی وجہ سے جب مسلمانان
برصغیر کا مستقبل تنگ و تاریک نظر آرہا تھا اور مسلم قومیت کو ہندو اکثریت
میں جذب کرنے کے کئے متحدہ قومیت کا سرکاری سطح پر پرچار کیا جا رہا تھا تو
اس وقت بھی علماء حق نے سرخیل حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ نے مذہب اور مسلم
قومیت کے لئے اکبر کی گمراہ سیاست کو چیلنج کیا اگرچہ حکومت کی لادینی
طاقتوں نے وقتی طور پر حضرت مجدد الف ثانی و دیگر علماء پر دباؤ ڈالا لیکن
آخر کا رحق کے سامنے باطل کا سر جھکا اورجہانگیری سیاست کا رخ صحیح سمت میں
جہاں تبدیل ہو ا وہیں مذہب اور مسلم قومیت کا تشخص از سر نو قائم ہوا حضرت
مجدد علیہ الرحمتہ کا مذہب و مسلم قومیت کے لئے یہ ایک عظیم کارنامہ تھا ۔اگر
آپ اس وقت حکومت وقت کے باطل نظریات کے سامنے کلمہ حق بلند نہ فرماتے تو
برصغیر میں اکبری متحدہ قومیت کے شر سے تمام مسلمانان ہند متاثر ہوتے اور
مسلم قومیت کا علیحدہ وطن کا تصور بھی شاید باقی نہ رہتا اور اکبر کے بعد
ہی ہندوستان میں رام راج کا قیام عمل میں آ جاتا ۔خدانخواستہ اگر اکبری
قومیت کا یہ جادو سر چڑھ جاتا تو مسلم و غیر مسلم کی تفریق مٹا دی جاتی ،پھر
وہ دو قومی نظریہ جس پر آگے چل کر مسلمانان ہند نے پاکستان کے مطالبے کی
بنیا د قائم کی،در حقیقت دو قومی نظریہ کا تحفظ اور بقاء میں حضرت مجدد الف
ثانی رحمتہ اﷲ علیہ کا کردار تمام مسلمانان ہند پر تاریخ عالم کے صفحات میں
ایک احسان عظیم کے طور پر ثبت ہے -
پھر جب انگریز کی سیاست ،سکھوں کی جبر و ظلم سے نبرد آزما سلطنت مغلیہ کا
چراغ گل ہو رہا تھا اور دہلی کی شاہجہانی مسجد کے بلند میناروں کے مقابل
اغیار کا جھنڈا لہرا رہا تھا ،مسلمانوں کی اسلامی غیرت مجروح ہو رہیں تھی
اور ہر طرف سے مسلمان قوم بے بسی اور بے کسی کے عالم میں مظلومانہ زندگئی
گزارنے پر مجبور ہو گئی تھی اس وقت خاندان ولی اﷲ کے چشم و چراغ سید
اسماعیل شہید رحمتہ اﷲ اور اسی خاندان کے فیض یا فتہ سید احمد شہید رحمتہ
اﷲ نے علم جہاد بلند کیا اور ہندوستان کے مسلمانوں میں جہاد کی روح پھونکی
حضرت سید احمد شہید ؒ سندھ کے راستے کابل پہنچے اور اور ان کی جماعت نے
سرحد کی طرف سے سکھوں سے جہاد کیا اور سرحد کا کافی بڑا علاقہ سکھوں سے
آزاد کرا کر اس پر قبضہ کر لیا اور اس میں اسلامی قانون جاری کر دیا گویا
برصغیر میں انگریزوں کے تسلط کے بعد پہلی دفعی صوبہ سرحد کے اس علاقہ میں
اسلامی سلطنت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور احکام خداوندی کا اجراء اور حدود
کا نفاذ ہوا اور برصغیر میں پاکستان کی بنیاد ڈال دی گئی اور پھر 1857 میں
حکومت برطانیہ کے خلاف جو جنگ لڑی گئی اس میں شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد
اﷲ تھانوی ؒ کی سرپر ستی میں حضرت محمد ضامن تھانوی ؒ مولانا قاسم نانوتوی
ؒ ودیگرکثیر تعداد میں علماء دیوبند نے مجاہدانہ حصہ لیا اور تھانہ بھون سے
شاملہ تک کے علاقہ میں اسلامی حکومت قائم کرلی لیکن حکومت دہلی کی ناکامی
کی وجہ سے یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا اور فتح زشکست میں بدل گئی ۔1912 میں
شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ ،شیخ الحدیث دارالعوم دیوبند نے
افغانستان،شام اور ترکی کے سربراہان مملکت اور ان کے گورنروں سے اپنے
نمائندوں مولانا عبید اﷲ سندھی وغیرہ کے ذریعہ اور خود بھی حجاز مقدس کے
سفر کر کے ان سے ملاقاتیں کی اور ہندوستان پر حملہ آور ہونے اور اسلامی
حکومت کے قیام کا منصوبہ بنایا لیکن بعض لوگوں کی جاسوسی کی وجہ سے یہ
منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا -
حضرت شیخ الہند کی اس دار فانی سے رخصتی کے بعد ان کے جانشینوں مولانا
انوار شاہ کشمیریؒ، علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ، مولانا سید حسین احمد مدنی
ؒ،مولانا عبید اﷲ سندھی ؒ ودیگر علماء نے ملکی سیاست میں بھرپور حصہ لے کر
مسلمانان ہند کی نمائندگی کی ،علماء دیوبند کے سیاسی کارناموں اور مجاہدانہ
کاوشوں سے چشم پوشی ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانا ہے -
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اس برصغیر میں مسلمانوں کے لئے
ایک علیحدہ وطن کے قیام کے خواہش مند رہے ایک ایسا وطن جہاں اﷲ اور اس کے
رسول ﷺ کا قانون ہو ․․․ اس زمانے میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ مرکز اور
مستقل نظام حکومت کا کہیں ذکرو اذکار نہ تھا اس وقت بھی حضرت تھانوی ؒ اس
خواہش کا اظہار فرماتے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے لیئے علیحدہ وطن کا قیام ان
کے تمدن و مذہب کے تحفظ کے کے لئے ضروری ہے مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ
لکھتے ہیں : پاکستان کا تخیل خالص اسلامی ریاست کا خیال سب آوازیں بہت بعد
کی ہے پہلے اس قسم کی آوازیں یہیں تھانہ بھون میں کانوں میں پڑیں (حکیم
الامت: ص ۳۳) حضرت تھانوی ؒ کی دلی تمنائاور دعا تھی کہ اﷲ تعالی حکمت
عادلہ مسلمہ قائم فرما دیں اور میں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں (اسعد
الابرار،ص: ۱۳۷)
یہ1928کی بات تھی جس میں حضرتب تھانوی ؒ نے پاکستان کی سکیم اور اس کے لئے
نظام اسلامی شرعی عدالتوں کا قیام وغیرہ کا نقشہ تیار فرما دیا تھاب بعد
میں مرحوم علامہ اقبال ؒ نے اپنے خطبہ صدارت آل انڈیا مسلم لیگ الہ آبادی
منعقدہ 29 دسمبر 1930 میں اس تخیل کا اظہار کیا پھر مارث 1940 کو لاہور میں
اس کا بطور ملی نصب العین کے مسلم لیگ کی طرف سے قرارداد پاکستان کی صورت
میں مطالبہ کیا گیا جب تک مسلم لیگ نے کانگریس سے علیحدہ ہو کر مسلم قوم کے
تشخص اور مسلمانوں کے قومی استقلال کا مطالبہ نہیں کیا اس وقت حضرت تھانویؒ
نے مسلم لیگ کی تائید نہیں کی ۔جب مسلم لیگ نے 1938میں جھانسی الیکشن میں
کانگریس کا مقابلہ کیا اس وقت حضرت تھانویؒ نے کانگریس کو ووٹ نہ دینے کا
تار جھانسی بھجوا کر مسلم لیگ کی حمایت کی جس پر مسلم لیگ کو کامیابی ہوئی
۔4جون1938 کوممبئی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عامہ کے اجلاس میں شرکت
کے لئے علامہ شبیراحمد عثمانیؒ ،مولانا شبیر علی تھانویؒ اور مفتی
عبدالکریم گمتھولی ؒ کو اجلاس میں شرکت کے لئے بھیجنا حضرت تھانوی ؒ نے
تجویز فرمایا مگر یہ وفد بوجہ عذر پیش آ جانے اجلاس میں شرکت نہ کر سکا
البتہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس پٹنہ میں 16,17دسمبر 1938 کو
مرتضی حسن چاند پوری کی قیادت میں پانچ ارکان پر مشتمل وفد نے شرکت کی جس
میں مولانا شبیر علی تھانویؒ،مولانا ظفر احمد عثمانیؒ،مولانا شاہ عبدالغنیؒ
اور مولانا عبدالجبارؒ شریک تھے اس وفد نے مسٹر محمد علی جناح سے خصوصی
گفتگو کی اور دوسر ے روز اجلاس میں شرکت کرکے حضرت مولانا ظفٖر احمد عثمانی
ؒ نے حضرت تھانویؒ کا تاریخی پیغام پڑھ کر سنایا اس کے ساتھ ہی حضرت
تھانویؒ اپنے مفید اصلاحی مشوروں سے بھی بذریعہ خط محمد علی جناح کو اطلاع
دیتے رہے اور یہ سلسلہ حضرت کے آخری وقت تک جاری رہا ۔دیوبندی حلقے کے
سرخیل اس وقت حضرت تھانویؒ تھے انہوں نے واضح طور پر مسلم لیگ کی تائید و
حمایت فرمائی تھی اس لئے حضرت تھانوی ؒ کے ہزاروں عقیدت مندوں جن میں
سینکڑوں کی تعداد میں علماء کرام ہی تھے سب تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر
حصہ لیا اورمطالبہ پاکستان کی ہر طرح سے تائید و حمایت کی۔
بہر حال لاکھوں قربانیوں کے بعد ۲۷ء رمضان المبارک 14 اگست 1947کو پاکستان
منصہ ظہورپر جلوہ گر ہوا ۔ بروز جمعتہ المبارک جب جشن پاکستان منایا جانے
لگا تو بانی پاکستان قائد اعظم مرحوم نے علماء کی تاریخی خدمات کے اعتراف
میں پاکستان کی پہلی پرچم کشائی کا اعزاز علامہ شبیر احمد عثمانی رحمتہ اﷲ
علیہ کو بخشا ۔کراچی میں علامی عثمانیؒ نے تلاوت قرآن مجید اور مختصر تقریر
کے بعد اپنے متبرک ہاتھوں سے آزادی پاکستان کا پرچم آزاد فضاء میں لہرا کر
دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی برادری میں شامل کرنے کی رسم کا افتتاح
کیا ۔اسی دن اور اسی تاریخ کومشرقی پاکستان ڈھاکہ میں پرچم کشائی کی رسم کے
لئے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت کے مطابق خواجہ ناظم الدین مرحوم ؒ
نے شیخ الا سلام مولانا ظفر احمد عثمانی کی تحریک پاکستان کے لئے خدمات کو
مد نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلی پرچم کشائی کے لئے آپ کو دعوت دی مولانا نے
سورۃ انا فتحنا کی ابتدائی آیات تلاوت کی تمام وزراء و عمائدین مسلم لیگ
خاموش و باادب سنتے رہے پھر بسمہ اﷲ پڑھ کر آپ نے پاکستان کا پرچم لہرایا
خوشی کے اس موقع پر توپ خانہ سے سلامی کی توپیں چلی پھر وزراء نے اسمبلی
ہال میں حلف اٹھایا اس تقریب میں مولانا عثمانی ؒمع دیگر علماء کرام شریک
رہے اور چیف جسٹس آف مشرقی پاکستان سے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے حلف لیا
اس کے بعد دیگر وزراء سے بھی حلف لیا گیا ۔تحریک آزادی پاکستان میں کامیابی
انہی حضرات کی کاوشوں کا نتیجہ تھی ۔اگر ان حضرات کی حمایت مسلم لیگ کوحاصل
نہ ہوتی تو بظاہر حالات مسلم لیگ کو کامیابی کا حاصل کرنا سخت دشوار تھا ان
حضرات نے مسلم لیگ میں ایک نئی روح پھونک دی تھی جس کا قائد اعظم محمد علی
جناح سمیت تمام زعماء کو کھلا اعتراف تھا اور یہ اعتراف حقیقت ان لوگوں کے
لئے تازیانہ عبرت اور سرمہ بصیرت ہے جو پاکستان کی تحریک میں علماء دیوبند
کے کرد کی نفی کرتے اور ان کی جدوجہد کو جھٹلاتے ہیں - |