سائبر کرائم بل۔ مجرموں میں اچھے برے کی تفریق
(Syed Abdul Wahab Sherazi, Islamabad)
جیسے کوئی شخص پستول،گن،خنجر وغیرہ استعمال
کرکے کوئی جرم کرتا ہے، ایسے ہی سائبر کرائم، وہ جرائم کہلاتے ہیں جو
کمپیوٹر یا الیکٹرانک ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کیے جائیں۔ دوسرے الفاظ
میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ”سائبرکرائم“ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹر
یا الیکٹرانک ذرائع کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا
جائے، یا کوئی بھی ایسی سرگرمی سرانجام دی جائے جس کی رو سے اسلام یا
پاکستان کی ساکھ یاکسی معزز شہری کو نقصان پہنچایا جائے۔ یا کوئی بھی
غیرقانونی اور غیرآئینی کام سرانجام دیاجائے۔
ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی سے سائبرکرائم بل منظور ہونے کے بعد باقاعدہ
قانونی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس بل کی رو سے لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف
ورزی، ہیکنگ، استحصال، سائبرحملے، سائبردہشتگردی،فحش پیغامات،فحش ویڈیوز،
دھمکی آمیز پیغامات،ای میلز، کسی کے ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ جرم
تصور ہوگا۔چنانچہ اس بل کی رو سے مندرجہ ذیل امورنہ صرف جرم تصور ہوں گے
بلکہ ان پر جسمانی اور مالی سزائیں بھی دی جاسکیں گیں۔ پاکستان میں آئے روز
نئے نئے قوانین بھی بنتے رہتے ہیں اور نئی نئی فورسز بھی بنائی جاتی رہی
ہیں، لیکن اس کے باوجود جرائم میں کمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ جس کی وجہ صاف
ظاہر ہے کہ کبھی تو قانون صرف قانون کی حد تک فائلوں میں ہی ہوتا ہے، اور
اگر فائلوں سے باہر نکل کر اس پر عملدرآمد شروع بھی ہوئے جائے تو اچھے اور
برے مجرم کی تفریق آڑے آجاتی ہے، ایک ہی قانون کی غریب اور امیر، سرمایہ
داراور مزدور،جاگیر دار اور مزارع، سیاستدان اور عوام کے لئے الگ الگ تشریح
ہوتی ہے۔ایک جرم اگر امیر کرے تو اسے اور انداز سے ڈیل کیا جاتا ہے جبکہ
وہی جرم اگر غریب کرے تو اسے حقیقی مجرم کے طورپر ڈیل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح
کوئی مزدور،مزارع یا عوام میں سے کوئی مجرم ہو تو اس کے ساتھ اور رویہ ہوتا
ہے جبکہ وہی جرم اگر سرمایہ دار،جاگیردار یا سیاستدان اور ان کی اولادیں
کرلیں تو نہ صرف قانون بلکہ پولیس،سیکورٹی اداروں اور متعلقہ حکام کا رویہ
ان کے ساتھ اور ہوتا ہے۔اگر کوئی چھوٹا کاروباری معمولی سا جرم کرلے تو وہ
قانون مجرم ٹھہرتے ہوئے پوری پوری سزا کا بروقت مستحق ہوجاتا ہے جبکہ وہی
جرم بڑے پیمانے پر کوئی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنی کرلے تو نہ صرف اس پر
پردہ ڈالا جاتا ہے بلکہ کمپنی کی ساکھ کو بچانے کے لئے مکمل صرفِ نظر بھی
کردیا جاتا ہے۔
چنانچہ مجرموں میں اس طرح کی تفریق کرنا ہی قانون کو غیر موثر بنادیتی ہے
اور پھر چند سال کے بعد ایک نیا قانون یا فورس بنانے کی ضرورت محسوس ہوتی
ہے۔سائبرکرائم بل کی بھی سب سے اہم بات یہ ہے کہ سائبرکرائم بل کا اطلاق ٹی
وی چینلز پر نہیں ہوگا۔ یعنی ایک عام شہری فیس بک پر اپنے چند سو فرینڈ تک
کوئی غیرقانونی سرگرمی،فحاشی،توہین،بے عزتی کرے گا تو وہ مجرم ٹھہرے گا
جبکہ ٹی وی چینل کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کرے، لوگوں کی پرائیویسی پر
کیمرے لے کر ڈور پڑے،من گھڑت،جھوٹے پروپیگنڈے کرے تو یہ جرم تصور نہیں
ہوگا(شاید اس لئے کہ یہ سرمایہ داروں کا ادارہ ہے اور اس سرمائے کا ایک بڑا
حصہ خزانے میں بھی جمع کراتا ہے)۔ سائبرکرائم بل کی چند شقیں:
۱۔ اگر کوئی شخص فرقہ واریت اور مذہبی منافرت پھیلائے تو اسے سات سال قید
ہوگی۔(جبکہ یہی جرم بہت بڑے پیمانے پر ٹی وی چینل کرے، یا تین چار مختلف
فرقوں کے مولوی ٹاک شومیں بٹھا کر انہیں لڑائے اور پوری قوم کودین اسلام سے
کنفیوز کرے تو جرم نہیں)۔
۲۔اگر کوئی شخص غیر اخلاقی تصاویر شائع کرے تو سات سال قید اور پانچ لاکھ
جرمانہ ہوگا(جبکہ ٹی وی چینل تصویر تو کیا غیراخلاقی ویڈیو بھی چلادے تو یہ
جرم نہیں ہوگا)۔
۳۔اگر کوئی شخص سپمینگ کرے، یعنی بغیر اجازت کسی کو موبائل یا انٹر نیٹ پر
کاروباری یا تجارتی تشہیر کا میسج کرے،اگرچہ وہ میسج حقائق کے مطابق ہو تو
اسے تین ماہ قید ہوسکتی ہے(جبکہ ٹی وی چینل ایسے اشتہار بھی چلائے جن میں
مٹی کو سونا بناکرپیش کیا گیا ہو، پانی کی بوتل پٹرول سے مہنگی کرکے فروخت
کرنے کے لئے من گھڑت باتیں بنائی گئی ہوں، یا کوئی بھی تجارتی چیز حقائق کے
برخلاف مشتہر کرے تو یہ جرم نہیں)۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ خود
موبائل کمپنیاں صارفین کو دن میں پانچ سے دس کاروباری تشہیر کے میسج روزانہ
کرتی ہیں، بلکہ اب توکمپیوٹر کے ذریعے آٹو کال بھی کرتی ہیں ان کے لئے کوئی
روک ٹوک نہیں، آدمی کسی اہم کام، پڑھائی وغیرہ میں مصروف ہوتا ہے، یا نیند
میں ابھی گیا ہی ہوتا ہے کہ فون پر گھنٹی بجتی ہے اور موبائل کمپنی کے کسی
پیکج کی تشہیر کی کال آرہی ہوتی ہے۔
۴۔اگر کوئی شخص کسی کا کوئی کارٹون، کامک(Comic) شیئر کرے گاتو اسے ایک سال
قید کی سزا ہوگی۔(لیکن ٹی وی چینلز کے ڈمی میوزم اور بیہودہ جملوں کے
تبادلے اسی طرح چلتے رہیں گے، ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا)۔
۵۔اگر کوئی شخص کسی کی تصویراس کی اجازت کے بغیر شیئر کرے گا تو ایک سال
قید کی سزا ہوگی۔(جبکہ ٹی وی کے کیمرہ مین جب چاہیں، جہاں چاہیں، جیسے
چاہیں، جس کو چاہیں، زبردستی اپنی کیمرے کی آنکھ سے فلمبندکرکے دکھاسکتے
ہیں)۔
سائبرکرائم کی روک تھام کے لئے پچھلے آٹھ دس سے ایک ادارہ( نیشنل ریسپانس
سینٹر فار سائبر کرائم) پہلے سے ہی کام کررہا ہے، جہاں آپ اس ادارے کی ویب
سائٹ (www.nr3c.gov.pk) آن لائن شکایت درج کروا سکتے ہیں۔ |
|