دہشت گردی و قتلِ مسلم حرام
(Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi, Narowal)
عن عبد اللّٰہ ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ان
النبی ﷺ قال سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر۔(بخاری جلد اول ص12،مسلم جلد اول
ص58)ترجمہ:’’سیدنا عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی
کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور لڑنا جھگڑنا کفر ہے۔‘‘
حل لغا ت:سباب :گالی دینا،فسوق:طاقت سے نکلنا، قتال :لڑنا۔
تعارف راوی:حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ :ان کا باپ ایام جاہلیت میں
عبد بن حارث کا حلیف تھا ،یہ قدیم الاسلام ہیں اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے
پہلے اسلام لائے ہیں ۔رسول اﷲ ﷺ نے ان کو اپنی خدمت میں لے لیا ،حبشہ اور
مدینہ دونوں طرف ہجرت کی اور ہر دو قبلہ کی جانب نماز پڑھی ،بدر، احد،
خندق، بیعت رضوان اور جملہ دیگر مشاہد میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ حاضر رہے
۔حضور نبی کریم ﷺ کے بعد یرموک میں حاضر ی دی اور رسول اﷲ ﷺ سے روایت کی
اور ان سے حضرت ابن عباس، ابن عمر ،ابو موسیٰ، عمران بن حصین، ابن زبیر،
جابر ،انس ابو سعید، ابو ہریرہ ،ابو رافع وغیرہم صحابہ علیہم الرضوان نے
روایات کیں اور حضرت علقمہ ،ابو وائل ،اسود، مسروق، عبیدہ ،قیس بن ابی حازم
وغیرہم تابعین نے ان سے روایت کی ہے ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ان کو کوفہ
میں معلم بنا کر بھیجا اور لکھا کہ بدری صحابہ میں سے رسول اﷲ ﷺ کے برگزیدہ
صحابی ہیں ۔ کتاب اﷲ کے بہت بڑے عالم تھے ،شب بیدار تھے۔آپ کی وفات مدینہ
منورہ میں32ھ میں ہوئی ،بقیع میں دفن ہوئے ۔ساٹھ سال سے کچھ اوپر عمر پائی
۔(اسد الغابہ جلد3ص259)
تشریح :سباب کسرسین کے ساتھ ہے اور یہ اسم مصدر ہے اس کا معنیٰ ہے :انسان
کی عزت و آبرو کو داغ دار کرنے والی بات کرنا یا اس کا معنیٰ ہے گالی دینا،
اور فسوق کا لغوی معنی ہے نکالنا اور گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنا اور قتال
کا معنیٰ ہے قتل کرنا اور لڑنا جھگڑنا بھی ہے ۔
فرقہ مرُجۂ:یہ ایک ایسا فرقہ ہے جو اعمال میں تاخیر کرتے ہیں اور ہر وقت با
امید رہتے ہیں ،ان کا عقیدہ ہے کہ جس طرح کفر کے ساتھ طاقت فائدہ نہیں
دیتی،اسی طرح ایمان کے ہوتے ہوئے معصیت نقصان نہیں دیتی۔جب ابو وائل سے ان
کے بارے میں سوال کیا گیا، توآپ نے حدیث بیان فرمائی کہ مسلمان کو گالی
دینا فسق ہے اور لڑنا جھگڑنا کفر ہے ،تو اس میں ان کے عقیدہ کی تردید کر دی
گئی کہ ان کا عقیدہ تویہ ہے کہ ایمان کے ساتھ معصیت ضرر نہیں دیتی ،جبکہ
سرکار دو عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان کو گالی دینا ،اور لڑنا جھگڑنا
بھی نقصان دہ ہے ،اس پر دوسرے گناہوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں
گالی گلوچ کو جو فسق کہا گیا ہے ،وہ بلاتاویل اپنے ظاہر پر ہے ، لیکن جو
قتال اور مقاتلہ کو کفر کہا گیا ہے ،اس میں تاویل کرنا ضروری ہے ،کیونکہ اس
میں اہل سنت کا اتفاق و اجماع ہے کہ انسان گناہ کرنے سے کافر نہیں ہوجاتا
۔یہ خوارج کا عقیدہ ہے ،ابن بطال کے مطابق کفر سے مراد دین اسلام سے نکلنا
نہیں ،بلکہ حقوق مسلمین کی ناشکری ہے کفران نعمت ہے کہ رب کریم نے تو
مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی فرمایا ہے اور آپس میں صلح اور مصالحت
،ایک دوسرے کی اصلاح کا حکم فرمایا ہے ۔اب جو مسلمان بھائی کو قتل کرے یا
لڑے جھگڑے گا،وہ حقوق مسلمین کی ناشکری کا ارتکاب کرتا ہے ،اس کو آپ نے کفر
سے تعبیر فرمایا۔
کرمانی نے کہا ہے ارشاد کا مطلب یہ ہے لڑائی جھگڑے کی نحوست کی وجہ سے اس
کا انجام کفر پر ہونے کا خطرہ ہے اور خطابی نے کہا کفر سے مراد حقیقی کفر
ہی ہے ، لیکن یہ اس کے لئے جو بلا سبب اور بغیر تاویل کے مسلمان کے قتل اور
لڑنے کو جائز سمجھے گا۔ہاں تاویل سے لڑنے جھگڑنے والا اس حکم سے خارج ہے
جیسے باغیوں کا امام برحق کے خلاف کسی تاویل سے لڑنا ،جھگڑنا اور مقاتلہ
کرنا،اگر چہ گناہ تو ہے ،لیکن کفر نہیں ۔بہر حال اس کلمہ کی تاویل لازم ہے
،اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب سباب اور قتال دونوں فسق ہیں ،تو قتال میں کفر
کیوں فرمایا گیا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ قتال سباب سے اغلظ اور اشد ہے یا
قتال کفار کے احوال سے زیادہ مشابہ ہے ۔
گالی:گالی دینا اور فحش کلامی کرنا اور ایک دوسرے پر لعنت کرنا نہایت بری
اور قبیح عادت ہے ،اور اپنے منہ اور زبان کو گندہ کرنا ہے ، سرکار دو عالم
ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ فحش کلامی کرنے والے پر بہشت حرام ہے اور مزیدارشاد
فرمایا کہ دوزخ میں کچھ لوگ ایسے جائیں گے کہ جن کے منہ سے پلیدی نکلے گی
اور اس کی گندگی سے تمام اہل دوزخ فریاد کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کون لوگ
ہیں کہ جن کی بد بو سے ہم سخت پریشان ہیں؟ تو کہا جائے گا’’ یہ وہ لوگ ہیں
کہ جو فحش کلامی کیا کرتے تھے اور فحش کلامی کو دوست رکھتے تھے۔‘‘حضرت
ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دنیا میں فحش کلامی
کرے گا ۔ قیامت کے روز وہ کتے کی شکل میں ہو گا ۔ (کیمیائے سعادت ص375)
مشکوٰۃ شریف میں ہے:لا یکون المؤمن لعانا:’’’’مومن کسی پر لعنت کرنے والا
نہیں ہوتا‘‘۔ جو شخص کسی پر لعنت کرتا ہے ، اگر وہ لعنت کے قابل ہے ،تو اس
پر لعنت واقع ہو گی اور اگر وہ لعنت کے قابل نہیں ، تو وہ لعنت اس لعنت
کرنے والے پر لوٹ آتی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا:۔انہ من لعن شیأ لیس لہ باھل رجعت اللعنۃ علیہ :’’بے شک جو شخص لعنت
کرتا ہے کسی چیز پر ،اگر وہ اس چیز کی اہل نہ ہوگی ،تو لعنت اس پر لوٹ آتی
ہے۔(مشکوٰۃ ص412)
ہمارے معاشرہ میں بات بات پر گالی ،فحش کلامی اور لعنت کی جاتی ہے
۔سرکارمدینہ ﷺ کے ارشادات مبارک کی طرف غور کرنا چاہیے اور اس بری خصلت کو
ہمیشہ کے لئے چھوڑدینا چاہیئے۔
فسوق: جیسا کہ لکھا گیا ہے کہ فسو ق کا معنی ہے اﷲ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ
کی طاقت سے نکلنا ،اس کے تین درجے ہیں۔
(1)تغابی:گناہ کبیرہ کو برا جانتے ہوئے کبھی کبھی شامت نفس سے گناہ کر
لینا،اس درجہ میں انسان ادنیٰ توجہ سے توبہ کر لیتا ہے۔
(2)انھماک:گناہ میں لذت محسوس کرے اور اس کا عادی ہو جائے۔ اس درجہ میں
گناہ چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے ،تاہم اگر کوشش کرے اور اس کو بار بار گناہ
کی خرابی کی طرف توجہ دلائی جائے تو امید ہے کہ گناہ ترک کر دے اور تائب ہو
جائے ۔
(3)جحود:گناہ کو صحیح اور بہتر سمجھنے لگے، اور اس کو صحیح سمجھ کر کرے۔جب
انسان فسق کے اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے ،تو گمراہی میں مبتلا ہو جاتا ہے
۔اگر وہ گناہ حرام قطعی ہو تو اسلام سے خارج ہو کر مرتد ہو جائے گا۔ ورنہ
گمراہی میں تو کوئی شبہ نہیں ۔العیاذ با اﷲ تعالیٰ ! (شرح مسلم ،جلد اول
للسعیدی ص169,170)
قتل:کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ،بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے اور عظیم گھناؤنا
جرم ہے اور اس کی دنیا وی سزا قصاص ہے اور اخروی سزا جہنم میں مسکن طویل ہے
۔اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاۂ جہنم خالدا فیھا۔
یعنی’’جس نے جا ن بوجھ کر کسی مومن کو قتل کیا ،تو اس کی جزا جہنم ہو گی
،وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘اس سے مراد مسکن طویل ہے،ہاں جو حلال سمجھ کر
کسی مسلمان کو قتل کرے گا،وہ دائمی جہنمی ہو گیااور کافر ہو جائے گا۔
آجکل بندے معمولی معمولی بات پر جھگڑتے ہیں ،آخر کار ایک دوسرے کو قتل کرتے
ہیں ،تخریب کاری ،دہشت گردی، بہت عام ہو گئی ہے اور انسانوں کا قتل عام کیا
جا رہا ہے اور معاشرہ تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہے اور ملک کا امن تہس نہس
ہو گیا ہے کہ نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی کسی کی عزت و آبرو محفوظ ہے
۔کئی بظاہر مسلمانوں والا حلیہ بنا کر اسلام کو بد نام کرنے کی مذموم کوشش
کر کے مساجد و مدارس میں بم دھماکے کر رہے ہیں ۔اپنے ہی ملک میں اپنی ہی
فوج سے جہاد کا اعلان کر رہے ہیں ۔اُن کی سوچ قرآن و سنت سے متصادم ہے ۔جب
کہاس حدیث کو اگر مشعل راہ بنا لیا جائے ،تو معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ
ہو جائے گا۔راحت و چین ،سکون و اطمینان کا دور دورہ ہو گا۔اﷲ تعالیٰ سرکار
مدینہ سرور سینہ ﷺ کے ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین! |
|