اسلام میں احتساب کی ضرورت و اہمیت
(Muhammad Nadir Waseem, Bhakkar)
احتساب کا مطلب حساب کتاب گنتی عیب وصواب
کی جانچ پڑتال باز پرس،دیکھ بھال،جائزہ اور روک ٹوک ہے۔اللہ تعالی کی صفات
میں سے ایک نام الحسیب بھی ہے۔قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ"وکفی باللہ
حسیبا"اور حساب لینے کے ليۓ اللہ تعالی کافی ہے۔اور "إن اللہ علی کل شیئ
قدیر"بے شک اللہ تعالی ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔آیات کریمہ اس بات
پردلالت کر رہی ہیں کہ ہس دنیا کا اصل محتسب اللہ تعالی ہی ہے۔
اپنا احتساب'اپنے بال بچوں کا احتساب'خاندان'معاشرہ اورگزشتہ وآمدہ نسلوں
کا احتساب اس عمل کے وہ دائرہ کارہیں جن سے کوئی فرد مبرا نہیں۔احتساب کی
تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود حضرت انسان کی۔ابلیس نے اللہ تعالی کے حکم
سے عدول کیا تو اسکا احتسا ب عمل میں لایا گیایہ واقعہ تمام آفاقی صحائف
میں موجود رہا تاکہ احتساب کاعمل زندہ رہے اور اسکا تصورماند نہ پڑنے
پائے۔مرورزمانہ سے جہاں ان صحائف میں تحریف وترمیم ہوتی رہی احتساب کا عمل
بھی ماند پڑتا رہااورکم وبیش تمام مذاھب میں ایسے طبقا ت وجود میں آئے جو ا
پنے آپکو احتساب سے بالا ترسمجھنے لگےاور تحریف وترمیم نے انکوخوب تحفظ
دیا۔
ہندومت قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے اس میں بھی احتساب کاتصورکسی حد تک
ضرور ملتا ہے۔ہندؤں کے عمل احتساب کا اندازہ منودھرم کی شاستر کے اس بیان
سے لگایا جاسکتا ہے"اگرشودر کسی غیرشادی شدہ سے زنا کرےتواسکاوہ عضوکاٹ
دیا جائےجس سے اس نے زنا کیاہے اور اسکی ساری جائیداد ضبط کرلی جائے
اوراگرعورت غیرشادی شدہ ہوتوشودرکوقتل کردیا جائےاوراگربرہمن کسی شادی شدہ
عورت سےزنا کرے تو500پن جرمانہ کر دیا جائے۔ایک کھشتری کوقتل کرنے کا
جرمانہ اس سے چوتھائی ہے جوبرہمن کوقتل کرنے کا ہے۔ویش کو قتل کرنے کا
جرمانہ آٹھواں حصہ ہے اور شودراگرنیک ہوتواسکو قتل کرنے کا جرمانہ سولہواں
حصہ ہے۔
بدھ مت دوسرا قدیم ترین مذھب ہے۔اسکی حیثیت اہنسائی ہے،جسکو دنیا سے کوئی
علاقہ نہیں۔احتساب کا تصور اس مذھب سے بیگانہ ہے۔بدھ مت ظالم فرمارواؤں کے
احتساب سےعاری نظر آتا ہے۔ابو الاعلی المودوی الجھادوالاسلام صـ371،372میں
لکھتے ہیں چین کے شاہ منگ ٹی اور تبت کے قبلائی خان جیسے بادشاہوں نے بدھ
مت کے مبلغین کو خوش آمدید کہا اسکی وجہ یہی ہے اس مذھب نے ظلم کے مقابلے
میں کھڑے ہونے کی کبھی جرات نہیں کی۔انسانوں کو سرکش حکمرانوں سے نجات
دلانا توکیامعنی کبھی اسکا خیال تک نہیں کیا"۔
الہامی مذاہب میں یھودیت قدیم ترین ہے جسکے بارے میں محسن انسانیت صلى الله
عليه وسلم نے فرمایا"جب انکے بڑے جرم کرتے تو انکو چھوڑدیا جاتا اور چھوٹے
جرم کرتےتوانکوسزادی جاتی"۔جب ایک یہودی زانی جوڑا خدمت اقدس صلى الله عليه
وسلم پیش کیا گیاتو انکو سزادلانے کے لیےتوریت کا نسخہ منگوایا گیا نبی امی
صلى الله عليه وسلم نے علمائےبنی اسرائیل سے کہا کہ اس میں سے سزائے زنا
والا حصہ تلاوت کدیں توعلمائے بنی اسرائیل نےدانستہ طور پرآیت رجم چھوڑ
کراگلی آیت تلاوت کر دی جس پر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جوعالم تورات
تھےنے آپ صلى الله عليه وسلم کومتنبہ کیاگویا ان لوگوں نے احتساب سے چشم
پوشی کی۔عمل احتساب میں بنی اسرائیل کا یہ دہرا معیارمنصب امامت عالم سے
انکی معزولی کا سبب بنا۔
مذھب عیسائیت میں تو کفارے کا عقیدہ شروع دن سے ہی احتساب کے تصور کو معدوم
کر دیتا ہے جب سارے گناہوں کا کفارہ ابن اللہ(نعوذباللہ من ذلک)ادا کر چکا
تو جزاوسزاواحتساب چہ معنی دارد؟اسی عقیدےنےانکوظلم وبربریت پراکسایااوراسی
کے باعث تاریخ عالم میں سب سےزیادہ ظلم ڈھانےوالاادارہ"کلیسا"ہی قرارپایا۔
اسلام نے جونظام فکروعمل عالم انسانیت کو عطا کیا وہ ہر لحاظ سے اکمل و
احسن ہے۔اس نظام کا ایک حصہ عمل احتساب بھی ہے۔اسلامی تعلیمات سے عیاں ہے
کہ بے لاگ احتساب کے بغیر عدل اجتماعی کا قیام ناممکن ہے۔ابتدا میں ذات
نبوی ﷺ میں ہی نظام عدل کی دونوں جہتیں پہلو بہ پہلو موجود تھیں۔گویا آپ ﷺ
محتسب بھی تھے اور قاضی بھی۔ان ہر دو مناصب میں اگرچہ خفیف سا فرق ہے جسے
فقہا نے واضح کیا ہے لیکن نبوت جیسے ہمہ گیر اور کثیرالجہت منصب کے اندر ان
دونوں ذمہ داریوں کااجتماع محسن انسانیت ﷺ کی اکملیت و جامعیت کا ایک اور
حسین رخ ہے۔کتا ب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ سے اسلامی نظام احتساب کے یہ اصول
مترشح ہو تے ہیں۔
کتاب و سنت نے اس بات کو مسلمانوں کے ذہن میں اس یقین کوراسخ کردیا کہ اصل
سمیع و بصیر ( سننے والااور دیکھنے والا))اﷲ تعالی کی ذات ہی ہیحتی کہ وہ
علیم بذات الصدور(دلوں کا حال جاننے والا)بھی ہے۔انسانوں کی دی ہوئی سزا
قابل برداشت ہو سکتی ہے لیکن محتسب کائنات کی سزااپنی ہئیت و کمیت میں کسی
انسانی پیمانے کے ادراک سے باہر ہے۔اسی تیقن کا نتیجہ تھا کہ اسلامی معاشرہ
تقوی کا مرقع بن گیا،کسی کی نظر میں نہ آنے والا مجرم بھی خود کو قانون کے
حوالے کردیتا تاکہ پاک کر دیا جائے۔یہ اصل محتسب کاخوف تھا کہ انسان اندر
تک سے دھلتے چلے گئے اور انہیں یہ معرفت نصیب ہوئی کہ ہر وقت اور ہر حال
میں ایک محتسب ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
2۔دوسرا اصول: احتساب سب کے لیے:
اسلامی نظر احتساب میں امیر،غریب،عالم ،جاہل،گورے،کالے،حکمران،عوام سب
برابر ہیں۔حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ نے جب حجرت بلال کے بارے میں
ناپسندیدہ الفاظ کہے تو محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا تم میں جاہلیت کی رمق
باقی ہے۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھانے جب ام المومنین حضرت صفیہ
رضی اﷲ عنھا کے بارے میں کہا کہ وہ پستہ قد ہیں تو محسن انسانیت ﷺ نے انکا
احتساب کرتے ہوئے فرمایا اس بات کے اثر سے اگر تمہاری زبان سمندر میں ڈالی
جائے تو سمندر کا ذائقہ بدل جائے۔آپ ﷺ کی نظر احتساب سے کوئی نہ بچ پاتا
تھا بلکہ جو جتنا قریب ہوتا وہ احتساب کی صافی سے اتنا ہی زیادہ مانجھا
جاتا۔
3۔تیسرااصول: یکساں احتساب: اسیران بدر میں محسن انسانیت ﷺ کے چچا بھی
موجود تھے ،یکساں احتساب کے اصول کے مطابق ان سے بھی وہی سلوک روا رکھا گیا
جو باقی اسیران کے ساتھ کیا گیا۔حتی کہ جب رات گئے نیند آنکھوں سے کوسوں
دور تھی اور کبھی ادھر کروٹ اور کبھی ادھر کروٹ لیتے تو تو صحابہ کرام
رضوان اﷲ تعالی کے استفسار پر فرمایا کہ چچا عباس کی آہیں سونے نہیں
دیتیں،چنانچہ انکی مشکیں ڈھیلی کر دی گئیں،ابھی بھی رحمۃ اللعالمین پر نیند
کی آغوش گراں تھی چنانچہ استفسار مکرر پر یوں گویا ہوئے کہ جب جرم سب کا
برابر ہے تو صرف چچا عباس کی رسیاں ڈھیلی کیوں ہوں ،سب اسیران کو آسودہ کر
دو۔گویا احتساب سب کے لیے
4۔چوتھااصول:محتسب خود بھی قابل احتساب:
اسلامی نظام احتساب میں کوئی بھی احتساب کے عمل سے بالا تر نہیں ہے۔جو جس
مقام و منصب پر ہے اسکے احتساب کے لیے نظام کی گرفت موجود ہے۔آپ ﷺعمر مبارک
کے آخری حصہ میں ایک بار مسجد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام سے فرمایا اگر
میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو میری پیٹھ حاضر ہے وہ بدلہ لے
لے،کسی کی بے آبروئی کی ہو تو میری آبرو حاضر ہے وہ بدلہ لے لے.یہ تاریخ
عدل میں ایک اور روشن باب کا اضافہ تھا جس کی نظیر اس سے قبل آسمان نے کبھی
نہ دیکھی تھی۔ یہ نبی محترم کی ذات اقدس تھی جس کی احتسابی جہت نےخود نبی
علیہ رحمت کو قابل احتساب سمجھا۔
5۔پانچواں اصول: فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیز احتساب:
احتساب کا عمل محض سزا کے آموختہ کے لیے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود
قابل احتساب امور کی تکرار کو معاشرے میں کم سے کم درجہ تک لے جانا بھی
ہے،اس کے لیے لازمی ہے کہ احتساب فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیزہو
اوراس عمل کے دہرانے والے کو سوچتے ہی گزشتہ عامل کا انجام آنکھوں میں گھوم
جائے۔شاید اسی لیے قرآن نے حکم دیا کہ مجرمین کو لوگوں کے سامنے سزا دی
جائے۔ غزوہ احزاب سے واپسی پر جب امیرالمجاہدین ﷺ ام سلیم کے ہاں ہتھیار
اتار کر تو غسل فرما رہے تھے تو جبریل نے آکر عرض کی کہ آپ نے ہتھیار اتار
دیے کیا؟اور ابھی فرشتوں نے تواتارے ہی نہیں۔چنانچہ آپ ﷺ نے دوران غسل
صحابہ کرام کو پیغام بھیجا کہ اتنی سرعت کے ساتھ بنی قریظہ کی طرف بڑھو کہ
عصر وہیں پہنچ کر ادا کرو۔یہ احتساب اتنی فوری نوعیت کا تھا کہ دشموں کے
مکہ پہنچنے سے قبل غداروں کے گریبان تک مسلمانوں کا ہاتھ پہنچ گیا۔اس
فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیز احتساب کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ
پھر ایک طویل عرصہ تک درہ غداری بند ہو گیا۔اس احتسابی عمل میں بنی قریظہ
کے 400افراد کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ 6۔چھٹا اصول: سرعام احتساب: درس عبرت
کا ابلاغ مقاصد احتساب میں سے ایک ہے۔چھپ کر سزا دینے سے جرم تو ضرور اپنے
منطقی انجام کو پہنچ پائے گا لیکن معاشرہ اس نظام کے ثمرات سے محروم رہے
گا،چنانچہ بنی قریظہ کے غداروں کو مدینہ شہر کے عین وسطی بازار میں گڑھے
کھود کر ان کو دو دو تین تین کی ٹولیوں میں لایا جاتا اور قتل کر کے گڑھوں
میں دھکیل دیا جاتا۔ 7۔ساتواں اصول: قانونی تقاضوں کی تکمیل: کتاب و سنت
میں عمل احتساب کے لیے قانونی تقاضوں کی تکمیل کو بہت ضروری خیال کیا جاتا
ہے۔جلد بازی،ناپختہ شہادت،ظن و گمان یا شک کی بنیاد پر کبھی احتساب کی
اجازت نہیں دی جاتی۔یہودیوں کے زانی جوڑے کے احتساب کے لیے خود انہی کی
مقدس کتاب سے فیصلہ کیا گیا،بنی قریظہ نے جس سے فیصلہ کرانے کے لیے کہا اسی
سے فیصلہ کرایا گیا،ماعز اسلی پر حد زنا جاری کرنے سے پہلے کئی مرتبہ اسے
خود اور اسکے قبیلے والوں کو انتباہ کیا۔حتی کہ آپ ﷺ کا طریقہ مبارکہ تھا
کہ اگر کوئی مجرم اقرار جرم کرتا تو تو اس سے کئی سوالات کرتے تاکہ اطمنان
ہو جائے کہ اسکا اقرار کسی دباؤ،خوف یا بیماری کا نتیجہ نہ ہو اور بعض
اوقات تو ایک سے زائد نشستوں میں اقرار کرواتے تھے اور مہلت دیتے تھے لیکن
قانونی تقاضوں کی تکمیل کے بعد حتساب ہی نہیں انصاف سے بھی گریز نہ کرنا
اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے۔
حضور رحمت عالمﷺ کی رحلت کے بعد جب خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا تو اس
میں بھی عدل و انصاف‘ قانون کی حاکمیت اور جواب دہی خلافت کے لازمی اجزاء
تھے۔ خلفاء نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر
صدیق رضی اﷲ عنہ نے جب خلافت کا بار اٹھایا تو صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا
کہ اگر ان سے کوئی خطا ہوجائے تو انہیں بتادیاجائے‘ روک دیا جائے۔
خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عدل وانصاف اورخوف خدامشہور ہے۔آپ درضی
اللہ عنہ ہمیشہ بغیر رعایت کےبے لاگ انصاف فرماتےرہے۔فاتح مصرعمروبن العاص
کےبیٹےعبداللہ کو(جس نے کسی شخص کوبلاوجہ مارا تھا)آپ نے اسکےباپ کے سامنے
کوڑے لگوائے مگرکسی کوحوصلہ نہ پڑا کہ کچھ مخالفت کرسکے۔فاتح شام خالد بن
ولیدرضی اللہ عنہ کو معزول کیا۔فاتح ایران سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے
جواب طلبی کی۔خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کی معزولی کے بعدآپ نے شام کے ایک
سفر میں اپنی بریت بیان کی توآپ کے سامنے ایک شخص نے یہ کہہ دیا۔"اے عمر
خدا کی قسم تو نے انصاف نہیں کیا،رسول اللہ کے عامل کومعزول کیا اوررسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کونیام میں ڈال دیا۔تونےقطع رحم کیا امر
اپنے برادرعم زاد پرحسدکھایا"۔آپ نےجواب میں صرف اتنا کہا"تجھے اپنے بھائی
کی حمایت میں غصہ آگیا"
اسی طرح حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کسی کوکسی صوبے یا شہر کا والی
مقررکرتے تو پہلے اسکی جائیداد اوراندوختہ کا حساب لے لیتےتھے اورجب وہ
اپنے منصب سےالگ ہوتے یا انکے متعلق دوران تقرراگر انکویہ معلوم ہوجاتا کہ
انکے پاس غیر معمولی دولت جمع ہو گئی ہے تو وہ اسکا محاسبہ کرتے اور پوچھتے
کہ یہ دولت تمہارے پاس کہاں سے آئی؟اس احتساب سے بڑےبڑے صحابی محفوظ نہ
تھےاور اگران میں سے کسی کی غلطی پکڑی جاتی توانکی باقاعدہ تادیب ہوتی تھی
اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ انکے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتتے تھے۔خلیفہ
دوم ایک کتے کے بھوکا پیاسا ہونے پر بھی خود کو قابل مؤاخذہ سمجھتے تھے۔
یہی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ تھے کہ ایک موقع پرلوگوں نے ان سے پوچا کہ
ہمیں تو مال غنیمت میں ایک ایک چادرملی تو آپ نے کس طرح شلوارقمیص بنا
لی۔خلیفہ دوم کواس مسئلہ پربھی جواب دہ ہونا پڑافرمایا کہ مجھے میرے
بیٹے(ابن عمر)نے اپنے حصے کی چادر دے دی،یوں اپنی اور اسکی جادر ملا کر
جوڑا بنا لیا۔
خلیفہ چہارم حضرت علی کرّم اللہ وجھہ الکریم کوایک معاملے میں قاضی شریح کے
سامنے پیش ہونا پڑا توقاضی نے خلیفہ کے لیے نرم لب و لہجہ اپنایا جسکا حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے برا منایا۔یہ اور اس قسم کے بے شمار اور واقعات ہیں جس
میں مسلم حکمرانوں نےخود کو قانون سے بالا تر نہیں سمجھااورالزامات لگنے کی
صورت میں قاضی کے سامنے غیر مشروط طور پر پیش ہوئے۔
جہاں تک حکمرانوں و صاحب اقتدار افراد کی جوابدہی اور ان کے احتساب کا تعلق
ہے تو عربوں میں ایک مقولہ خاصا مشہور ہے کہ عوام حکمرانوںکو دیکھتے ہیں
اور ان کی پیروی کرتے ہیں لہذا اگر حکمران اچھے ہوں گے‘ سلاطین بہتر ہوں گے
تو اس کا اثر رعایا پر بھی ہوگا۔ وہ بھی اپنے آپ کو بہتر کریں گے اور اگر
حکمرانوں کی اخلاقی حالت خراب ہوگی تو رعایا بھی اخلاقی حوالے سے گری ہوئی
ہوگی۔ لہذا یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں اچھائی اور برائی کے اثرات اوپر
سے نیچے منتقل ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں
کہ حکمرانوں نے اپنے اخلاق کی وجہ سے اپنی قوم کی تقدیربدل دی۔ لیکن جب ہم
قبل از اسلام کے انسانی معاشروں پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں پر بادشاہت اور
موروثیت کا ایک ایسا نظام قائم تھا جس میں حکمرانوں کو جوابدہ نہیں ہونا
پڑتا تھا۔ بادشاہ عقل کل ہوتا۔ اس سے کوئی برائی سرزد نہیں ہوتی تھی۔ وہ
مقدس گائے تھا جہاں پر ایک کے بعد دوسرا بھی انہی ’’خاصیتوں‘‘ کے ساتھ جلوہ
گر ہوتا لہذا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ معاشرے زوال کاشکار ہونے لگے اور
جب مضبوط عقائد اور معاشروں کو موقع ملا تو اس نے وہاں کے باسیوں کے دلوں
میں گھر کرلیااور انصاف کا بول بالا ہونے لگا۔
اسلامی حکومت کا حکمران اپنے تمام معاملات میں ارباب حل وعقد اور مجلس شوری
سے مشورہ کا پابند ہے اور حکم راں کے کسی غلط اقدام یا اس کے کسی غلط طرز
عمل پر شوری کے ارکان اس کااحتساب کر سکتے ہیں اور وہ مجلس شوریٰ کے سامنے
جواب دہ ہوتا ہے، اس کی حضرت ابو بکر وعمر کے ان خطبات سے بھی تائید ہوتی
ہے جو انہوں نے خلیفہ بننے کے بعد عامة المسلمن کی موجودگی میں ارشاد
فرمائے تھے،حضرت ابوبکر نے خلافت کی بیعت کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں لوگوں
کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”اے لوگو! میں تمہارا ذمہ دار بنایا گیا
ہوں،حالاں کہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں،اگرمیں صحیح کام کروں گا تو
تم لوگ میری مددکرنا،اگر میں غلط کام کروں گا تو تم لوگ میری اصلاح
کردینا،جب تک میں اللہ اور رسول کی اطاعت کروں گا تم لوگ میری اطاعت
کرنااوراگر میں کسی معاملہ میں اللہ اوررسول کی نافرمانی کروں توا س صورت
میں تمہارے اوپر میری اطاعت لازم نہیں ہے“۔ خلیفہ اول کے اس خطبہ کے ایک
ایک لفظ سے اس کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلامی مملکت کا سربراہ ارباب حل و عقد
اورمنتخب مجلس شوری کے سامنے جواب دہ ہے اور خدا ورسول کی اطاعت سے ہٹنے کی
صورت میں مسلمانوں کواس کے مواخذہ کا مکمل حق حاصل ہے،ڈاکٹر محمود بابلی
حضرت سیدنا ابو بکر رصی اللہ عنہ کے اس خطبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”پوری امت مسلمہ کو کھلی دعوت تھی کہ وہ اللہ کی اطاعت کے معاملہ میں ان پر
نظر رکھے اورجب وہ اطاعت کے دائرہ سے نکل جائیں توان کا محاسبہ
کریں۔“(الشوری فی الاسلام:ص20)
اگر خلیفہ یا مسلم حکمراں ایسی حرکت کرے جس سے امور دین کا ضیاع لازم آتا
ہوتو مجلس شوری کو اس کے محاسبہ کا حق حاصل ہوگا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک طرف امیرو حکم راں کی حتی المقدور اطاعت کی تاکید فرمائی،
دوسری جانب ان لوگوں کی حوصلہ افزائی فرمائی جوظالم حکم رانوں کے سامنے
اظہارحق کافریضہ انجام دیتے ہیں،حضرت طارق بن شہاب رضی الله عنہ سے روایت
ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا، جب کہ
میں نے اپنا ایک پیر گھوڑے کی زین پر رکھا تھا،جہاد میں افضل جہاد کونساہے؟
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا:ظالم وجابر بادشاہ
(حکمراں) کے سامنے حق بات کہنا۔ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:کوئی اس
بات کو معمولی نہ سمجھے کہ کسی دینی معاملہ میں کوئی خامی پائے اوراس کی
نشان دہی نہ کرے، اللہ تعالی اس سے پوچھیں گے کہ اس معاملہ میں تنبیہ کرنے
سے کونسی چیز مانع بنی ؟ تووہ شخص جواب دے گا کہ اے میرے پروردگار!میں
لوگوں کی ملامت سے ڈرگیا۔ اس پراللہ تعالی فرمائیں گے میں زیادہ حق
دارتھاکہ تو مجھ سے ڈرتا اورغلطی پر نکیر کرتا۔نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
کے انہی ارشادات کا اثر تھا کہ صحابہ، تابعین،تبع تابعین اورسلف صالحین میں
ایک بڑی تعدادان افرادکی تھی جوخلاف شرع باتوں پر حکم رانوں کامحاسبہ کرنے
میں کسی طرح کا خوف محسوس نہیں کرتے تھے ،عباسی خلیفہ ابوجعفرمنصور نے اس
دورکے ایک مشہورمحدث حضرت عبداللہ بن طاؤس بن کیسان کو اپنے پاس مدعوکیا
،ان کے ساتھ حضرت امام مالک بن انس بھی موجودتھے، جب دونوں خلیفہ منصور کے
پاس پہنچے تو کچھ دیر بعد خلیفہ ابن طاؤس کی جانب متوجہ ہوا اورکہنے لگا آپ
اپنے والد طاؤس کی کچھ باتیں سنائیے ،اس پر حضرت عبداللہ بن طاوٴس نے
فرمایا،میرے والد نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی تھی
کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن سب سے کٹھن عذاب اس
شخص کو ہوگا جس کو اللہ نے حکم رانی میں اپنا شریک بنایا تھا ،اس نے انصاف
میں ظلم کی آمیزش کی ،یہ حدیث سنانا تھا کہ خلیفہ منصور پر تھوڑی دیر کے
لیے خاموشی طاری ہوگئی ،امام مالک کہتے ہیں کہ میں اپنے کپڑے سمیٹنے لگا اس
ڈرسے کہ آدمی کے خون سے رنگے نہ جائیں ،پھر خلیفہ حضرت ابن طاؤ س کی جانب
متوجہ ہوا اورکہنے لگا،ابن طاؤس! مجھے کچھ نصیحت کیجیے اس پر انہوں نے
فرمایا کہ اے امیرالمومنین! اللہ رب العزت کا فرمان ہے :﴿الم تر کیف فعل
ربک بعادارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد وثمود الذین جابوا
الصخر بالواد وفرعون ذی الاوتاد الذین طغوافی البلاد فاکثروافیھا الفساد
فصب علیھم ربک سوط عذاب ان ربک لبالمرصاد﴾ امام مالک کہتے ہیں کہ میں اپنے
کپڑے سمیٹنے لگا کہ خون سے رنگے نہ جائیں،خلیفہ کچھ دیر کے لیے خاموش
ہوگیا،پھر کہا مجھے روشنائی لادیں۔امام مالک کے دینے سے رکے رہنے پر خلیفہ
منصور نے پوچھا آپ نے مجھے روشنائی کیوں نہیں دی ؟ امام مالک نے فرمایا کہ
مجھے اس کا ڈر ہے کہ کہیں تم اس سے ایسا فرمان نہ لکھو جس سے اللہ کی نا
فرمانی ہو۔ بالآخرخلیفہ نے دونوں کو جانے کی اجازت دی ،ابن طاؤس نے کہا کہ
ہماری بھی یہی خواہش تھی، امام مالک کہتے ہیں کہ میں اس دن سے ابن طاؤس کی
حق گوئی کاقائل ہوا۔ اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا المیہ شورائی نظام سے
محرومی اورحکم رانوں کا فکر احتساب سے بے خوف ہونا ہے، ورنہ جہاں تک اسباب
اورقدرتی وسائل کی بات ہے،تو سب سے زیادہ ان کی فراوانی مسلم ممالک میں
ہے،پٹرول جیسا سیال سونا عرب ممالک کے دست رس میں ہے اس وقت دنیا کے نقشہ
پرسے زائد مسلم ممالک ہیں،لیکن سب کے سب دشمن کے دست نگر اور اہل مغرب کے
ہا تھو ں کاسہ ٴ گدائی لیے پھرنے والے ہیں ، اقوام عالم اور بین الاقوامی
اداروں میں ان کا کوئی وزن نہیں، اگر ان ممالک میں صحیح شورائی نظام اور
خلافت علی منہاج النبوة والا طرز حکم رانی رائج ہو جائے تو پھر حالات کا رخ
یکسر بدل سکتا ہے،ذلت کی جگہ عزت،زوال کی جگہ عروج اورضعف وکم زوری کی جگہ
طاقت وقوت آسکتی ہے،بیشتر مسلم ملکوں میں جس قسم کا طرز حکم رانی ہے وہ کسی
بھی طرح سیاست شرعیہ سے میل نہیں کھاتا،عالم اسلام کو مغربی طرزکے جمہوری
نظام کی نہیں،بلکہ اسلامی شورائی نظام خلافت کی ضرورت ہے،خلیفہ اقتدار کو
امانت الہی سمجھتا ہے،خلافت کی عظیم ذمہ داری کا احساس اس کی راتوں کی
نیندیں حرام کر دیتا ہے ،وہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹ سے کوسوں دور اور سادگی
کاپیکر ہوتاہے،وہ حکومت کے کسی اہم معاملہ کومجلس شوری سے مشاورت کے بغیر
طے نہیں کرتا، مملکت کے ایک معمولی انسان کے لیے بھی اس کا دروازہ ہروقت
کھلارہتا ہے ،ایک معمولی کسان بھی اس کے کسی قابل گرفت عمل پر گرفت
کرسکتاہے،خلافت وشوری کے اس نظام سے محرومی آج عالم اسلام پر آفتیں لارہی
ہے، اس وقت مغرب نواز، دنیا پرست اقتدارکے پجاری، حکم راں عالم اسلام پر
مسلط ہیں، جن کی نگاہو ں میں شراب وشباب اور عشرت کدوں کے علاوہ کسی چیزکی
وقعت نہیں،عرب ممالک کا حالیہ طوفان اسی کا رد عمل ہے ،لیکن اسلام دشمن
طاقتیں اپنے مغرب نواز پٹھوں کے ذریعہ انقلاب کے ثمرات کا اغوا کرنا چاہتی
ہیں۔ |
|