خدا سے تعلق کا لازمی نتیجہ انسان دوستی ہے

انسانیت کی خدمت ہی وہ معیار ہے جس کی بنیاد پہ ہم کسی فرد یا گروہ کو پرکھ سکتے ہیں کہ وہ کس قدر تعلق باللہ کا حامل ہے۔اگر وہ ظاہری طور پہ عبادتوں میں مشغول نظر آتا ہے لیکن اس کا معاشرے میں کردار استحصالی ہے، نظام ظلم کا ساتھ دیتا ہے، دوسروں کے حقوق سے غافل ہے،جھوٹ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں حصہ دار ہے۔تو اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ ایسا فرد یا گروہ خدا کی نظروں میں محبوب نہیں ٹھہر سکتا۔۔۔۔۔۔۔
انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت سمجھ میں آتی ہے کہ ازل سے انسانوں کے درمیان فکری وحدت اور ہم آہنگی رہی ہے اور ان میں ایک نقطہ اشتراک رہا ہے دراصل وہ نقطہ اشتراک انسانیت ہےَ عصری تبدیلیوں سے سماجی زندگی کے طور واطوار تو تیزی سے بدلتے رہتے ہیں لیکن ان ساری سماجی ،معاشی،قانونی،تبدیلیوں کے باوجود اصل انسانیت قائم رہتی ہے اور اس کی افادیت اب بھی اتنی ہی ہے جتنی ہزاروں سال پہلے تھی ۔انسانیت کا احترام ،انسانیت کے لئے امن سکون،انسانیت کے بنیادی حقوق،انسانیت کے لئے خوشحالی وعدل وانصاف،یہ سب آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کئی صدیاں پہلے تھا۔

تاریخ انسانی یہ بھی بتاتی ہے کہ انسانی معاشرے میں جتنے بھی حکماء، صلحاء اور انبیاء آئے انہوں نے اپنے دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی ترقی کے لئے کام کیا، انہوں نے ایسے مفاسد ومنکرات جو معاشرے کو زوال سے ہمکنار کررہے تھے ان کا انسداد کیا۔معاشرے کو آپس میں جوڑ کر رکھا،انہیں انسانیت کی تعلیم دی۔اور ایسے عناصر جو معاشرے کو کسی بھی سطح پہ تقسیم کرنے کی کوشش کرتے تھے ان کا سد باب کیا۔اور خدا سے تعلق کا جو تصور دیا اس میں ایک وحدت کا تصور دیا، یعنی ایک خدا سے اپنا تعلق جوڑو اور تعاون باہمی کے اصول پہ ایک دوسرے کے کام آؤ۔

اسلامی تعلیمات نے سب سے بہتر انسانی وحدت اور انسانیت کے احترام کا فکر پیش کیا، اسلام نے تمام بنی آدم کو ایک لڑی میں پرو کر انہیں ایک خدا کی وحدانیت کے تصور کے ساتھ آپس میں بھائی بھائی بنا دیا، انسانوں سے محبت، انسانیت کا حترام جس قدر دین اسلام میں ملتا ہے کسی اور مذہب میں نہیں ملتا۔ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ بلا تفریق جنس سارے انسان اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اللہ کی مخلوق سے جو پیار کرے گا اللہ کی رضا اسی کو ملے گی۔اگر غور کیا جائے تو اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں اجتماعیت کی طرف دھکیلتی ہیں، نماز، روزہ ، حج زکوٰۃ، صدقات وغیرہ،ہر عبادت کی روح تعلق باللہ اور انسان دوستی ہے، اسلام کو ماننے والا انسانیت پہ ظلم نہیں کر سکتا، کسی کے حقوق غصب نہیں کر سکتا۔عبادت اور معاملات کا بہت گہرا تعلق ہے، عبادت بغیر ادائیگی حقوق کے قابل قبول نہیں۔

اگر ایک انسان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے قرب رکھتا ہے اس کی عبادت کرتا ہے، لیکن اس کا عمل اللہ کی مخلوق کے لئے وبال جان ہے،وہ معاشرے کے اندر فتنہ و فساد پھیلاتا ہے دہشت گردی سے معصوم انسانی جانوں سے کھیلتا ہے، تو وہ اپنے اس دعویٰ میں بالکل سچا نہیں ہے کیونکہ مخلوق عیال اللہ ہے اگر اس کی عیال کو کوئی ستائے گا، تو وہ خالق کبھی اس سے خوش نہیں ہو سکتا۔گویا خدا کی قربت کا عملی اظہار انسان دوستی، انسانوں سے محبت، انسانوں کی خدمت کی صورت میں ہوتا ہے۔جوں جوں ایک فرد اللہ کی عبادت میں دل لگاتا ہے توں توں اس کے اندر مخلوق کی خدمت کا جذبہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔اگر یہ کیفیت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی، تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ کی محبت میں سچا نہیں ہے۔
ایک سچا نمازی اپنے پڑوسی کو بھوکا سوتے نہیں دیکھ سکتا، فٹ پاتھ پہ پڑے بے گھر انسان کو دیکھ کر وہ خود بے چین ہو جاتا ہے، معاشرے میں انسانوں کے ساتھ ہونے والی بے انصافیوں پہ خاموش نہیں رہ سکتا، کسی کی عزت لٹ رہی ہو تو وہ خاموش تماشائی نہیں بن کے رہ سکتا، قوم غیروں کے استحصال کا شکار ہو کر غربت و افلاس کی چکی میں پس رہی ہو تو وہ خاموش نہیں رہ سکتا، معاشرے کے اندرکسی طرح کی بھی نا انصافی اور ظلم پہ وہ خاموش نہیں رہ سکتا،عبادت کا ہر پہلو اور عمل اسے انسانوں کی مدد پہ آمادہ کرتا ہے۔وہ مسجد سے نکل کر اللہ کی مخلوق کی خدمت میں جت جاتا ہے۔کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ’’ خدا اپنے بندوں سے ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے‘‘ اگر وہ اللہ کے بندوں کو ستائے گا تو اللہ اس سے ناراض ہو گا۔لہذا وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی موقع نہیں گنواتا۔

قر آن حکیم سورہ الماعون میں اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جو لوگ معاشرے کے مفلوک الحال لوگوں مساکین اور فقراء کی مدد نہیں کرتے، ایسے افراد معاشرہ جویتیم اور لاوارث ہیں ان کی کفالت کا انتظام نہیں کرتے، عام طورپہ انسانی معاشرے میں ان کا رویہ دوسروں کی مدد کرنے کا نہیں ہوتا، وہ انسانی معاشرے کی مدد سے بالکل غافل رہتے ہیں۔تو ان کی ظاہری عبادتیں ان کے کسی کام نہیں آئیں گی۔گویا قر آن حکیم کا یہ سبق ہے کہ اللہ سے تعلق اگر بنانا ہے تو اس کی مخلوق کی خدمت کو بھی شعار بنانا پڑے گا۔

سیرت رسول ﷺ، سیرت صحابہؓ اورسیرت صوفیائے کرام سے ہمیں یہی سبق ملتاہے کہ انہوں نے تعلق باللہ اور انسان دوستی کو معاشرے میں رواج دیا۔انہوں نے ہمیشہ اپنی تعلیمات اور عمل میں اس بات پہ زور دیا کہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرو، اسی سے رضا الہیٰ کا حصول ہو گا۔اسلام کی تعلیمات ایک مسلمان کو انسانیت کا ہمدرد بناتی ہیں۔اور مسلمان انسان دوست بن کر ساری انسانیت کے ارتقاء کے لئے کام کرتا ہے معاشرے کے اجتماعی تحفظ اور انسانوں کی بھلائی کے لئے مصروف عمل ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارے انسانوں کے لئے ایک ترقی پسند پروگرام کی اشاعت ہوتی ہے ۔لیکن اگر ایک مسلمان کے ذہن سے انسانی تصور نکل جائے تو زوال اس کا مقدر بننا شروع ہو جاتا ہے ۔

بد قسمتی سے آج دنیا بھر میں حقوق انسانی کے حوالے سے مسلمان معاشروں میں انتہائی درجے کی غفلت موجود ہے، عبادت صرف رسمی حد تک مسجد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، حالانکہ عبادت کا وسیع تر مفہوم ہے، معاشرے کی خدمت کرنا، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا، انسانیت کی فلاح و بہبود کا کوئی بھی کام ہے وہ یقیناً عبادت ہے۔ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ معاشرے میں کتنا دکھ ہے، غربت و افلاس کے ڈیرے ہیں، لوگ بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہے ہیں، ہسپتالوں میں بغیر دوا کے اور علاج کے لوگ مرنے پہ مجبور ہیں، عدل و انصاف کے لئے دھکے کھا رہے ہیں، اگر ہم اپنے پڑوسی، اپنے محلے دار، اپنے ملک کے شہریوں اور پھر دنیا بھر کے مظلوم اور پریشان حال افراد سے غافل ہو کر فقط اپنی ظاہری عبادتوں میں محو ہو جائیں گے،تو خدا کی رضا کبھی حاصل نہیں ہو پائے گی کیونکہ پیغمبر اسلام ﷺ کا ارشاد ہے کہ’’جس کا پڑوسی بھوکا سو گیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ اب تو پوری دنیا گلوبل وویلج ہے، بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری بڑھ چکی ہے۔اور بہترین انسان کی یہ نشانی بھی ہمیں پیغمبر اسلام ﷺ نے بتائی کہ’’تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کی بھلائی کے لئے کام کرتا ہے‘‘آج اس پہلو پہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کس سطح کے مسلمان ہیں اور ہماری ذمہ داریوں کا دائرہ کہاں تک ہے؟
انسانیت کی خدمت ہی وہ معیار ہے جس کی بنیاد پہ ہم کسی فرد یا گروہ کو پرکھ سکتے ہیں کہ وہ کس قدر تعلق باللہ کا حامل ہے۔اگر وہ ظاہری طور پہ عبادتوں میں مشغول نظر آتا ہے لیکن اس کا معاشرے میں کردار استحصالی ہے، نظام ظلم کا ساتھ دیتا ہے، دوسروں کے حقوق سے غافل ہے،جھوٹ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں حصہ دار ہے۔تو اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ ایسا فرد یا گروہ خدا کی نظروں میں محبوب نہیں ٹھہر سکتا، اور نہ ہی معاشرے میں کسی اعتماد کا مستحق ہے۔بلکہ اس کی یہ ظاہری عبادتیں اس کے کسی کام نہیں آئیں گی۔

ہم خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ اسکی مخلوق کی خدمت کو بھی شعار بنائیں، دونوں لازم و ملزوم ہیں، کسی ایک کوبھی ترک کرنے سے کام نہیں چلے گا، جتنا زور ہم ظاہری ،روحانی عبادت پہ دیتے ہیں اتنی ہی اہمیت ہمیں انسانی حقوق کی پاسداری کو بھی دینی چاہئے،کیونکہ ہماری عبادت کا براہ راست تعلق ہمارے معاملات سے ہے۔یقیناًایک سچا مسلمان وہی ہے جو انسان دوستی کا پیکر بھی ہو۔
 
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 151454 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More