ٹارگٹ کلنگ،مجرمانہ خاموشی

شہر قائد خون سے رنگین ہے۔ بے گناہوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ خون کو پانی کی ندیوں کیطرح بہایا جارہا ہے۔ حکمرانوں کے لب خاموش ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ ہر کوئی اپنے مفاد اور بالخصوص ذاتی مفادات کے لئے انسانی جانوں کے ضیاع کو پرسکون ہوکر دیکھ رہا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ جان اگر کسی کی جانی ہے تو وہ غریب اور کمزور شخص کی اور عام کارکنوں کی۔ یہی ایک ذریعہ بھی تو ہے ہمارے سیاستدانوں کے لئے کہ اگر کارکنوں کی جانیں ضائع نہ ہوں تو ان کی سیاست کیسے چمکے گی۔

شہر قائد میں قتل و غارت گری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ شہر کی گلیاں اور کوچے ١٩٨٨ سے لے کر اب تک اپنی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں کہ ہے کوئی جو انہیں اس دہشت گردی، مصیبت سے نجات دلائے تاہم ہمیشہ کی طرح دیوار تو بولا نہیں کرتے۔ اور بلا کوئی دیوار سے کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ بول اٹھیں گے۔ لیکن اگر جانوں کا ضیاع اس طرح ہی جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ انہی گلی کوچوں کی صدائیں ضرور آئیں گی کہ اب بہت ہوچکا، بہت لوگوں کی جانیں گئیں۔ اب سیاسی و مذہبی جماعتیں کارکنوں کی لاشوں پر سیاست کرنا چھوڑ دیں۔

سب سے حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ ہو یا قتل و غارت گاری ،آج تک کوئی بھی سیاسی جماعت کا رہنما کراچی میں اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ میں نہیں مارا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سہروردی کو یقیناً گرومندر میں آج سے کئی برس قبل گولیوں سے بھون دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد اب تک ایسے کوئی واردات نہیں کی گئی جو کہ خوش کن امر ہے تاہم ساتھ ساتھ غور کرنے کی بھی بات ہے۔ مرتے ہیں تو بیچارے کارکن ہیں جو اپنے رہنماؤں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔

پولیس کے سربراہ وسیم احمد تسلیم کرتے ہیں کہ قتل و غارت میں سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے اور اگر یہ جماعتیں چاہیں تو یہ قتل و غارت رک سکتی ہے لیکن صد افسوس کہ صورت حال نہیں بدل سکی۔

ہر بات کو طالبان کے نام کرنے والے وزیر داخلہ رحمن ملک دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ اب دہشت گردوں کا قلع قمع کریں گے لیکن ان کی باتیں محض دعویٰ ہی رہی ہیں اور بلا ایسا ہو بھی کہاں سکتا ہے کہ دوسروں کے اشارے پر ناچنے والا ایک وزیر کیسے ملک کی بہتری کے لئے کچھ کرسکتا ہے۔ اس نے تو وہی کرنا ہے جو حکم اس کو اوپر سے کیا جائے۔

سیاسی جماعتوں، مذہبی جماعتوں سے کسی طور لوگوں کو توقع نہیں کہ وہ اس صورتحال کو ختم کرنے کے لئے کوشش کریں گی کیونکہ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کی نام نہاد سیاست کا بھی خاتمہ ہوجائے گا اور یہ بات وہ نہیں چاہتی ہیں۔ کراچی پر سب قبضہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ساری اہم جماعتیں چاہتی ہیں کہ کراچی پر اس کا قبضہ جما رہے، لوگ اس سے خوفزد رہیں، انہیں ووٹ دیں، دوبارہ منتخب کریں تاکہ وہ ایوانوں میں جاکر غریب عوام کو پھر سے لوٹ سکیں، دونوں ہاتھوں سے لوٹیں اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ جعلی ووٹ بھگتا کر خود کو منتخب کرا کے اسمبلیوں میں پہنچ کر لوگوں کو لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ نام نہاد عوامی نمائندے عوام کے قاتل بنے پھرتے ہیں، عوام سے ان کی جان، ان سے ان کے منہ کا نوالہ، ان سے ان کا سکون، ان سے ان کی زندگی کو چھیننا چاہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم عوامی نمائندے ہیں۔

صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا گو کہہ چکے ہیں کہ وہ قاتلوں کو جانتیں ہیں لیکن وہ صدر زرداری کی طرح ہی قاتلوں کو جانتے ہیں جو اب تک بےنظیر کے قاتلوں کے نام سامنے نہیں لانا چاہتے اور اب ایک نئی چال چل رہے ہیں کہ بےنظیر کو ایک سوچ نے قتل کیا۔ ذوالفقار مرزا نے کہا کہ وہ ڈاکوؤوں سے شہر قائد کو پاک کردیں گے لیکن اب تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ وہ سب سے بڑے ڈاکو ہیں جو ہر صورت شہر کو لوٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔

سب کی نظریں انصاف کے لئے عدلیہ پر مرکوز تھیں لیکن اپنی آزادی حاصل کرنے کے بعد چیف جسٹس پاکستان کو ان وکلا کی دہائیاں بھی سنائیں نہیں دیں جو اپنے ساتھیوں کو زندہ جلائے جانے پر اب بھی آنسو بہا رہیں ہیں۔ ان وکلا کے بچوں کی آہ و فریاد بھی چیف جسٹس کے کانوں تک نہیں پہنچ سکی۔ عدالت نے چپ سادھ لی ہوئی ہے جس سے کئی ایک سوالات نے جنم لیا ہے کہ آیا عدلیہ صرف مخصوص مقاصد کے لئے میدان عمل میں ہے۔آیا چیف جسٹس انصاف کے لئے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ خود اس دنیا میں نہیں رہیں گے۔ کہتے ہیں کہ انصاف اگر کرنا ہے تو فوری کیا جائے اور اس کے لئے دن، تاریخیں، مہینے، تاریکی، روشنی کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

عوام توقع رکھتے ہیں کہ کراچی شہر میں فوج کے آنے کی نوبت نہیں آئے گی جو اپنے مذموم مقاصد کے لئے ہمیشہ سے ہی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی کرتی رہی ہے۔ یہی فوج تھی جس نے کراچی میں نسلی منافرت کا بیچ بویا اور اس سے بھی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ عوام کی نظریں اب بھی چیف جسٹس پر لگی ہیں کہ وہ اقدام اٹھائیں اور کراچی کے شہریوں کو جیتنے اور آزادی اور سکون سے جینے کا حق دلائیں ورنہ روز قیامت ان کی گردن اور عوام کا ہاتھ ہوگا۔ رہے سیاستدان تو ان سے تو خیر کی توقع رکھنا فضول اور وقت کا ضیاع ہے تاہم عوام کو بھی اب اس وبا کو شہر سے نکال باہر کرنے کے لئے خود بھی اٹھنا ہوگا وہی آنے والے وقتوں میں یہ قاتل کسی کو سکون سے شہر میں رہنے نہیں دیں گے اور جو صورتحال اب نظر آرہی ہے یہ مزید گمبھیر ہوتی جائے گی۔
M A Azeem
About the Author: M A Azeem Read More Articles by M A Azeem: 12 Articles with 12478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.