نام سے چونکیں نہیں کہ یہ کس
موضوع پر اظہار خیال کا انداز فکر ہے۔ ویسے ہی سنجیدہ موضوعات سے ہٹ کر کچھ
نیا لکھنے کا دل چاہ رہا تھا۔ سوچتے ہوں گے کہ چاہنے کو تو اور بھی بہت کچھ
ہے۔ مگر یہ کیسی چاہ ہے۔ جو گزرے وقتوں کی اکلوتی تفریح کے شوق کی تشہیری
تحریر کا مقام پانے کی آرزو رکھتی ہے۔
اکثر دیہات کے قریب ایک ایسا مقام ضرور پایا جاتا ہے۔ جسے ٹبہ یعنی اونچی
جگہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جہاں خاص طور پر گندم کی کٹائی کے موسم میں
میلوں کے انعقاد ہوتے۔ میلے میں شرکت کرنے والے شوقین افراد کی تعداد کا
تعلق بزرگ کے عقیدت مندوں کی مالی حیثیت سے ہوتا۔ جہاں لنگر خانوں سے لیکر
جھولوں اور سٹالوں پر ایک خطیر رقم خرچ کی جاتی۔
مرد و خواتین کے پاس وقت کی قلت ہمیشہ رہتی۔ بیلوں کی جوڑی سے زمین پر ہل
اور سہاگہ چلایا جاتا۔ ایک ایکڑ کا مالک کاشتکار بھی سارا سال فیکٹری کی
طرح زمین پر کھیتی باڑی میں مصروف رہتا۔
خواتین بھینسوں کو چارہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ دودھ سے دہی مکھن کو محنت سے
بناتیں۔ روزانہ چنگیر پر روٹی سجانے کے لئے ضرورت کے مطابق گیہوں کو چکی
میں پیسا جاتا۔ اور بجھتی آگ کو پھونکنی کی ہوا سے بڑھکایا جاتا۔ دودھ ہلکی
آنچ پر اگلی صبح تک طاقت و توانائی کے لوازمات برقرار رکھتا۔ نیند سے جاگنے
کے لئے سورج کی پہلی کرن کا انتظار نہیں ہوتا تھا۔
زندگی اتنی سادہ تھی کہ شادی بیاہ کی رسومات ہی خوشی کا محور تھے۔ آٹھ دن
پہلے ہی شادی والے گھر ڈیرے ڈال دئے جاتے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لئے یہی
مستی کرنے کے دن ہوتے۔ ہر گھرانہ کے لئے دس بارہ بچے ہونے کے باوجود خوشی
کے یہ لمحات پوری زندگی کے لئے کافی نہ تھے۔ مختلف تواریخ میں میلوں کے
انعقاد سے اس کمی کو پورا کیا جاتا تھا۔ جس میں ہر عمر کے افراد شرکت کرتے۔
تفریح طبع کے ہاتھ آئے موقع سے خوب لطف اُٹھاتے تھے۔ اور خواتین اپنی ضرورت
کے تحت میک اپ کے سامان میں پاؤڈر کریم کے سٹالوں پر زیادہ پائی جاتیں۔
ایک اتنی سستی تفریح اتنی مہنگی بھی پڑ سکتی ہے کہ آج بھی کسی مردو زن میں
تمیز کئے بغیر پھبتی کسنے کے لئے یہی فقرہ چست کیا جاتا ہے ۔"شوکن میلے
دی"(میلہ کی شوقین) یا "پھر پلے نیں دھیلا کردی میلہ میلہ" ( جیب میں پھوٹی
کوڑی نہیں میلہ میں جانے کی ضد)۔
میلوں میں اکثر بچوں کے کھو جانے کی کہانیاں فلموں کا موضوع بنی۔ جو اختتام
پر بازو پر کندہ نام سے بچھڑے ہوئے ملائے جاتے۔ شائد اسی خوف سے اس زمانے
کے اکثر لوگوں کے نام ان کے بازو پر کندہ ہوتے۔ اور نام کندہ کرنے والے
زیادہ تر میلوں ہی میں پائے جاتے۔ لیکن آج کل جو ٹیٹو بنائے جاتے ہیں۔ وہ
اس کی جدید شکل تو ہیں مگر مقصد بچھڑے ہوئے ملانا نہیں۔ بلکہ فیشن ہے۔
مضمون کے عنوان کے حوالے سے ڈھونڈنے والے شوکن (شوقین) کی تلاش پڑھتے ہوئے
یہاں آ پہنچے ہوں گے۔ کب ذکر خیر ہو۔ مگر یہاں ذکر صنف کے حوالے سے نہیں
ہے۔ بلکہ اصناف کا ہے۔
کہ انسانی معاشرہ بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے تفریح طبع کے لئے جدید
علوم سے آراستہ ہو چکا ہے۔ میلوں میں سٹال لگا کر صدائیں دینے والا دور گزر
چکا۔ جب کوڈو سٹیج پر کھڑا ایک روپہ ایک روپہ کی صدا لگاتا تھا۔ نقلیوں اور
بھانڈوں کا دور جا چکا۔ اب مسخرہ پن کا دور عروج ہے۔ جہاں ڈی وی ڈی، ویڈیو
سے خوشی کے لمحات قید کر لئے جاتے ہیں۔ پندرہ پندرہ دن کی شادی کی رسومات
ڈھول کی تھاپ، تو کبھی گانوں کی جھنکار کے ساتھ کورس کی شکل میں سجائی جاتی
ہیں۔ پھر پورا سال ویڈیو دیکھنے میں گزارا جاتا ہے۔
شہروں قصبوں میں فوڈ بازار میلوں سے بڑھ کر سارا سال ہی انواع و اقسام کے
کھانوں کی خوشبوؤں سے ماحول کو مہکائے رکھتے ہیں۔ بڑی سڑکیں کسی فوڈ مارکیٹ
کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ہر چوک پر بیوٹی پارلر کھلنے سے دلہن اور اس کی
سہیلیوں کے ساتھ ساتھ دلہا اور اس کے دوست بھی میک اپ سے مستفید ہونے میں
کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ گھروں کو گرا گرا کر برگر پوائنٹ اور ولائتی
کھانوں کا مرکز بنایا جا رہا ہے۔ جہاں عوام کا جم غفیر مال مفت دل بے رحم
جیسا منظر پیش کرتا ہے۔ دولت کا نشہ منرل واٹر سے گلاسوں میں انڈیلا جاتا
ہے۔ موبائل فون کی بجتی گھنٹیاں اور پھر ان پر کھلے قہقہے یہ سوچنے پر
مجبور کرتے ہیں۔ اگر وہ دور" شوکن(شوقین) میلے دی" کا تھا۔ تو کیا اب یہ
دور" سوکن ویلے(وقت) دی" کا کہلائے گا۔ |