عبد الستار ایدھی …… حیات و خدمات
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
یہ مئی ۱۹۹۰ ء کی بات ہے ،کراچی کی ایک
سڑک پر دونوں طرف سے گولیاں چل رہی ہیں ۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ زخمی ہورہے
ہیں ۔ لاشیں زمین پر پڑی نظر آرہی ہیں۔ کلاشنکوف (Kalashnikov) کے ذریعے
مہاجروں اور سندھیوں میں اس قدر خوفناک فائرنگ کے تبادلے ہورہے ہیں کہ
پولیس بھی خوفزدہ ہوکر پیچھے کی طرف ہٹنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
اتنے میں سائرن کی آواز آتی ہے ۔اور جلد ہی ایک ایمبولینس گاڑی سڑک پر
دوڑتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے ۔ جیسے ہی ایمبولینس سامنے آتی ہے ، دونوں طرف
لوگ اپنی فائرنگ روک دیتے ہیں ۔ ایمبولینس کھڑی ہوتی ہے ، اس کے آدمی مردہ
لاشوں کو اور زخمیوں کو اٹھا کر اپنی گاڑی میں رکھتے ہیں ۔ اس پوری کار
روائی کے دوران لڑائی بند ہوجاتی ہے ۔ جب ایمبولینس چلی جاتی ہے تو دوبارہ
وہی لوگ اس طرح لڑنا شروع کردیتے ہیں جیسے کہ وہ ایک دوسرے کے جانی دشمن
ہیں۔
یہ کراچی کے (۶۱) سالہ عبد الستار ایدھی ہیں ۔ انہوں نے اپنی تیس سال کی بے
غرضانہ خدمت سے لوگوں کے اندر اتنا احترام پیدا کیا ہے کہ وہ جہاں پہنچ
جائیں وہاں لوگوں کے سر ان کے آگے جھکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، خواہ وہ
فسادی اور دہشت گرد ہی کیوں نہ ہوں ۔
عبد الستار ایدھی نے اپنی تعلیم صرف چھٹی کلاس تک حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء میں وہ
جوناگڑھ سے نقل وطن کرکے پاکستان آگئے تھے ۔ یہاں وہ حصول معاش کے لئے
معمولی کام کرتے رہے ۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ پاکستان میں ایمبولینس سروس
بہت کمزور ہے ۔ ان کے اندر خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوا ۔ انہوں قرض اور چندہ
کی مدد سے ایک پرانا سا ٹرک خریدا اور اس کے اوپر پردہ لگاکر اس کو
ایمبولینس گاڑی کے طور پر استعمال کرنے لگے ۔
زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال لے جانا ، لاوارث لاشوں کو قبرستان پہنچانا
وغیرہ رفاہی کاموں میں وہ سرگرم ہوگئے تھے ۔ ان کے خلوص اور محنت کو دیکھ
کر لوگوں نے ان کے ساتھ تعاون کرنا شروع کردیاتھا ، جس کی بدولت انہوں نے
مزید ایمبولینس گاڑیاں خریدی تھیں ، یہاں تک کہ ایک وقت ان پر ایسا بھی آیا
کہ ان کے پاس تین سو پچاس (۳۵۰) گاڑیوں کا دستہ وجود میں آگیا ، جو سب کے
سب سائرن ، وائرلیس ، گیس سلنڈر وغیرہ سے لیس تھیں ۔ علاوہ ازیں انہوں نے
مزید دو ہیلی کاپٹر بھی خرید لئے تھے تاکہ دور کے ضرورت مندوں کی بھی ضرورت
پوری کی جاسکے ۔
اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہسپتال ، مردہ گھر ، یتیم خانے اور دیگر مختلف
قسم کے رفاہی مراکز بھی قائم کر رکھے تھے ۔ اور تقریباً گیارہ ایکڑ زمین
بھی حاصل کر رکھی تھی ، تاکہ اس میں وہ اپنے تمام شعبے قائم کر رکھ سکیں
اور اس کے اندر ہیلی کاپٹر کو ٹھہرانے اور اتارنے کا بھی انتظام کیا جاسکے۔
اس سے پہلے عبد الستار ایدھی پر ایک ایسا بھی وقت آیا کہ ایک مرتبہ ان کی
والدہ بیمار ہوئیں تو ان کے پاس اپنی والدہ کا علاج معالجہ کرانے اور دواد
لانے کے بھی پیسے نہیں تھے ، یہاں تک کہ ان کی والدہ نہایت تکلیف کی حالت
میں یوں ہی انتقال کرگئیں ، مگر والدہ کے انتقال نے انہیں ایک نئی زندگی دے
دی ۔ انہوں نے سوچاکہ اسی طرح کتنے اور غریب بھی ہوں گے جو تکلیف اور مصیبت
میں تڑپ رہے ہوں گے ، مگر کوئی بھی ان کی دیکھ بھال اور مدد کرنے والا نہیں
ہوگا ۔
اب انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھاکہ وہ ضرورت مندوں کی دیکھ بھال اور ان کی
مدد کے لئے خدمت خلق کا ایک ادارہ قائم کریں گے ۔ چنانچہ کچھ عرصہ پہلے
انہوں نے اپناایک ادارہ نہایت معمولی حالت میں شروع کردیا تھا اور ابھی کچھ
ہی عرصہ گزرا ہوگا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا پروان چڑھا کہ اس کا سالانہ
بجٹ بارہ کروڑ روپے تک جاپہنچاتھا ۔ آپ اندازہ لگایئے کہ کچھ عرصہ پہلے جس
شخص کا یہ حال ہوکہ وہ اپنی والدہ کے مرض الوفات میں ان کا علاج معالجہ اور
ان کا دوا دارو محض اس لئے نہ کرسکا ہوکہ اس کے پاس اس ضرورت کے لئے پیسے
نہیں تھے ، آج وہی شخص اپنے رفاہی ادارہ میں ساڑھے سات ہزار آدمیوں کے لئے
دو وقت کا کھانا اور کپڑا فراہم کر رہا ہے ۔
عبد الستار ایدھی کی زندگی میں انہیں ایک عالمی انعام سے بھی نوازا گیا ہے
۔ امریکہ کے ایک کثیر الشاعت ماہنامہ ’’ریڈرس ڈائجسٹ ‘‘ جون ۱۹۸۹ء نے ان
کے بارے میں ایک تعریفی مضمون شائع کیا تھا ، جس کا خلاصہ ’’الرسالہ‘‘ جون
۱۹۹۰ ء میں آچکا تھا ۔ اس کے علاوہ ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ ۲۰ جون ۱۹۹۰ ء نے سات
صفحات کی ایک باتصویر رپورٹ شائع کی تھی جس کا عنوان تھا : ’’Pakistan
Father Teresa‘‘ ۔بہرحال عبد الستار ایدھی کا شماراب پاکستان کے معروف ترین
سماجی کارکنوں میں ہوتا ہے۔
بلاشبہ تعمیری کام اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے ۔ اگر آپ صحیح معنوں میں
کسی تعمیری کام کا نمونہ پیش کردیں تو تمام لوگ آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف
کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ، یہاں تک کہ آپ کے سخت سے سخت مخالفین بھی ۔
عبد الستار ایدھی کے لئے ایک نمونہ وہ تھا جو سطحی لیڈروں نے ’’ہندوستان ‘‘
اور ’’پاکستان‘‘ دونوں جگہ
پیش کیا تھا، یعنی ’’نظام ‘‘ کے خلاف نعرہ اور جھنڈا کی سیاست لے کر کھڑا
ہوجانا ۔ وہ تیسرے درجہ کا ایک اخبار نکالتے اور موٹی موٹی سرخیوں کے ساتھ
عوام کی مصیبتوں کی داستانیں چھاپنا شروع کردیتے ، وہ حکومتی اداروں سے
مطالبات کی مہم چلاتے ۔ وہ غصہ میں بھرے ہوئے نوجوانوں کی ایک بھیڑ جمع
کرتے جو احتجاج کے نام پر بسیں جلاتے اورہسپتالوں میں آگ لگاتے تھے۔
اسی طرح عبد الستار ایدھی کے لئے ایک نمونہ وہ تھا جو نام نہاد اسلام
پسندوں نے پیش کیا ہے ، وہ ’’اسلامی نظام قائم کرو!‘‘ کے نعرے کے ساتھ
سڑکوں پر نکل پڑتے ۔ وہ عوام اور حکومت کے درمیان وہی نفرت اور کشمکش کا
ماحول بناتے جو موجودہ اسلام پسندوں نے مجرمانہ طور پر ہر جگہ بنا رکھا ہے۔
عبد الستار ایدھی اگر اس قسم کے طریقے اختیار کرتے تو وہ اپنے ملک کے مسائل
کو حل کرنے کے نام پر صرف اس کے مسائل میں ہی اضافہ کرسکتے ۔ اس کے برعکس
انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود اس مسئلہ کو حل کرنے کی ذمہ داری سنبھالیں
گے ۔ ان کا کام خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو ، مگر وہ خود اپنے آپ سے عمل کا آغاز
کریں گے۔
چنانچہ عبد الستار ایدھی کے اس فیصلہ کا نتیجہ یہ ہواکہ اب انہوں نے
پاکستان میں ایک ایسی تعمیری تاریخ بناڈالی کہ جس کا ہندوستان سے لے کر
امریکہ تک اعتراف کیا جارہا ہے ۔ جب کہ اسی مدت میں اسی ملک کے دوسرے رہنما
بربادی اور تخریب کاری کے سوا کوئی اور تاریخ نہ بنا سکے۔
آج عبد الستار ایدھی اس دنیا میں رہے ،بلکہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے
ہیں، لیکن خدمت خلق کے حوالے ان کی یہ تابناک خدمات اور ان کا یہ سنہری دور
ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ایدھی صاحب کو کروٹ کروٹ سکھ عطا
فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین۔
|
|