تعفن زدہ ماحول اور ہما را معاشرہ
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
یقیناًانسانی معاشرے میں ماحول اور گھر کی صفائی صحت مند رہنے کے لئے انتہائی ضروری ہے،قوموں کی تہذیب اور شائستگی کو پرکھنے کا یہ معیار ہے کہ وہ قوم کس قدر صفائی پسند ہے، کیونکہ صحت مند ماحول صحت مند جسم پیدا کرتا ہے اور صحت مند جسم، صحت مند دماغ پیدا کرتا ہے۔گندگی اور تعفن زدہ ماحول میں پرورش پانے والی نسلیں کبھی بھی صحت مند نہیں رہ سکتیں۔ لہذا یہ معاشرے کے ہر فرد اور ادارے کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس پہلو کی نزاکت کو سمجھیں اور ماحول کو صاف رکھنے کے لئے انفرادی سطح پہ اور ادارہ جاتی سطح پہ ہنگامی بنیادوں پہ بہترین، منصوبہ بندی کی جائے اور اس پہ عمل در آمد کر کے اپنا شمار تہذیب یافتہ اقوام میں کرایا جائے۔۔۔۔
|
|
|
عام کہاوت ہے کہ صحت مند جسم ، صحت مند
دماغ پیدا کرتا ہے اور صحت مند دماغ صحت مند قوم پیدا کرتے ہیں، اور صحت
مند قوم ہی سماجی و سیاسی انقلابات پیدا کرتی ہے، تاریخ میں کبھی ایسا نہیں
ہوا کہ جسمانی اور فکری طور پہ بیمار قوم نے عظمت و عروج حاصل کیا ہو۔ لہذا
صحت مند جسم بنانے اور صحت مند قوم بننے کے لئے صاٖ ف ستھرا ماحول اور صاف
ستھری فضا درکار ہوتی ہے۔دنیا بھر میں تہذیب یافتہ معاشروں میں اور غیر
تہذیب یافتہ معاشروں میں ایک بنیادی فرق جو پہلی نظر میں سمجھ میں آتا ہے
وہ ’’صفائی‘‘ اور ’’گندگی‘‘ کا ہے۔جو قوم اپنے گلی کوچوں، سڑکوں، پارکوں،
اداروں اور پورے ماحول کو ہمہ وقت صاف ستھرا رکھتی ہے اس سے اس کے تہذیب
یافتہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں تعفن زدہ ماحول اور
گندگی پھیلانے اور اس میں زندگی بسر کرنے والی قوم کو کبھی بھی تہذیب یافتہ
نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن بد قسمتی سے اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ اس وقت ہمارا شمار
مؤخر الذکر قوم میں ہوتا ہے، ہمارے شہر، سڑکیں، گلیاں، محلے، پارک چیخ چیخ
کے ہمارے غیر تہذیب یافتہ ہونے کا مژدہ سنا رہے ہیں، بے حسی کی انتہا یہ ہے
کہ لوگ تعفن زدہ ماحول میں رہنے کے اس قدرعادی ہو چکے ہیں کہ انہیں اس بات
سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کے بچے گندگی میں رہتے ہیں اور گندے ماحول میں
کھیلتے ہیں، خود صبح و شام وہ اس گندی فضا میں سانس لیتے ہیں اور بیماریوں
کا شکار ہوتے ہیں۔
شہر ہوں یا دیہاتی علاقے کہیں بھی مناسب سیوریج اور سینی ٹیشن کا نظام نظر
نہیں آتا، ویسٹ مینجمنٹ کو کوئی مناسب نظام موجود نہیں، ہر محلے، اور گلی
کے کناروں پہ گندی کھلی نالیاں، کچرے کے ڈھیر جگہ جگہ نظر آتے، سب سے زیادہ
خطرناک کھلی نالیاں ہیں ،کھلی نالیوں سے ہی مکھی اور مچھر پیدا ہوتے ہیں
اور مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ اس میں ڈینگی مچھر بھی شامل ہے۔لوگوں
کی یہ عادت بن چکی ہے کہ گھر عالیشان بنانا ہے لیکن گلی کو اپنا نہیں
سمجھنا، تمام سیوریج کا گندا پانی گلی میں چھوڑ دینا ہے، گلی کو پختہ کرانے
کی زحمت نہیں ہو گی، نالیوں کو مناسب طریقے سے نہیں بنائیں گے۔ عام طور پہ
یہ سوچ لوگوں میں موجود ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ تو ٹی ایم
اے کا کام ہے۔
گردو پیش میں گندگی پھیلانے کے بعد لوگ اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر
اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے اگر گلی میں
وائرس اور بیکٹیریاپیدا ہو رہے پھیل رہے ہیں تو وہ ہوا کے ذریعہ ہر جگہ
پہنچیں گے، لہذا وہ بند کمروں میں بھی صحت کے اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔اور
اگر صاف پانی گندی نالی کی وجہ سے مضر صحت ہو رہا ہے تو وہ اس سے بھی اپنے
آپ کو محفوظ نہیں کر سکتے۔ کھلی اور گندی نالیوں کی وجہ سے صاف پینے کاپانی
کا آلودہ ہونا معمول کی بات ہے، کیونکہ صاف پانی کی لائنیں جب گندے نالے سے
گذاری جاتی ہیں تو ان میں ذرا سی لیکیج ہونے کی وجہ سے گندا پانی صاف پانی
کے ساتھ مل جاتا ہے، اس سے لاکھوں زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، لوگ
گندا پانی پیتے ہیں اور ہسپتالوں میں لائنیں لگ جاتی ہیں۔بد قسمتی کی بات
یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کے پاس باقاعدہ کوئی سینی ٹیشن پلان موجود ہے اور
نہ ہی صاف پانی کی لائنوں کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام اور تربیت یافتہ
سٹاف موجو د ہے،، اور نہ ہی کمیونٹی کے لوگ اس مسئلے کو اہم سمجھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کامزاج ایسا بن چکا ہے گھر سے کچرا نکال کر گلی میں پھینک دیا
جاتا ہے، ایک طرف تو نالیاں کھلی ہیں ، مین ہول کھلے ہوتے اوپر سے اس طرح
کوڑا بے ترتیبی سے پھینکنے کے نتیجے میں نالیاں اور گٹر بند ہونا شروع ہو
جاتے ہیں لہذا یہ صورتحال مزید ابتر ہو جاتی ہے۔ یہی ابتری کی صورتحال
سینکڑوں بچوں، اور بالغوں کو ہسپتالوں میں پہنچا رہی ہے۔ہم نے اپنے ارد گرد
خود ہی بیماریوں کے ذرائع اکٹھے کر رکھے ہیں۔بڑوں کا مزاج بچے بھی اپنا رہے
ہیں، لہذا ان کو بھی عادت نہیں کہ کچرے کو کس طرح ٹھکانے لگانا ہے، جب اس
مسئلے کو حل کرنے کی بات ہوتی ہے تو لوگ حکومتی اداروں کو کوستے ہیں اور
حکومتی ادارے وسائل کی کمی اور لوگوں کی بے احتیاطی کا رونا روتے ہیں، عملی
طور پہ کوئی بھی کام ہوتا نظر نہیں آتا، صرف زبانی جمع خرچ ہے، بعض لوگوں
کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے ادویات کے چھڑکاؤ کا بندو بست کریں تاکہ مچھروں
کو بھگایا جا سکے، حالانکہ گندگی کے ڈھیر اگر موجود ہوں گے ، صفائی کا بندو
بست نہیں ہو گا تو چھڑکاؤ سے یا کسی بھی اور احتیاطی تدابیر سے کبھی یہ
مسئلہ حل نہیں ہو گا۔کیا ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر چپ سادھ لیں اور اسی
طرح گندگی کو بڑھاتے رہیں؟ تو یقیناًً ہر سال ہماری بیماریوں میں اور اموات
میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا میٹرو پولیٹین شہر کراچی اس وقت ایسی ابتر صورتحال
سے دوچار ہے، کچرے کے ڈھیر اور گندگی نے لوگوں کا جینا ابتر کر دیا ہے، یا
اگر دوسرے الفاظ میں یہ کہوں تو زیادہ حقیقت پسندی ہو گی کہ لوگوں نے اس
شہر کراچی کو اس قدر گندگی میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب خود ان کی اپنی
چیخیں نکل رہی ہیں۔ایسی ہی صورتحال لاہور، راولپنڈی، اور دیگر شہروں کی ہے۔
اس بے تحاشہ گندگی اور سیوریج اور سینی ٹیشن کے مناسب انتظام کی عدم
موجودگی کی وجہ سے جب بارشیں ہوتی ہیں تو زندگی مزید عذاب میں مبتلا ہو
جاتی ہے، لیکن اس عذاب کا باقاعدہ انتظار کیا جاتا ہے، بارشوں سے نمٹنے کی
کوئی تیاری نہیں کی جاتی۔کسی دانشور کا قول ہے کہ’’عمل کرنے کے لئے انتہائی
سخت اور برے حالات کا انتظار نہ کرو،بلکہ جب حالات نارمل ہوں تو اچھے حالات
کے لئے کام کرو ‘‘اس وقت اجتماعی طور پہ پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ
اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں۔بلدیاتی نمائندوں کی یہ
اولین ذمہ داری ہے کہ شہر اور اپنے علاقوں کو ایک اچھا صحت مندانہ سینی
ٹیشن کا نظام دیں، تاکہ ماحول گندگی سے پاک ہو جائے، اگر وہ یہ کام کر لیتے
ہیں تو یقیناً لوگوں کے ستر فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔سب سے پہلے تو میری
درخواست ہے متعلقہ اداروں سے کہ وہ تمام بلدیاتی منتخب نمائندوں کو تربیت
فراہم کریں کہ کس طرح سے اپنے ٹاؤنز کو صاف ستھرا رکھنے کی حکمت عملی ترتیب
دینی ہے، کس طرح لوگوں کو موبلائز کر کے انہیں اکٹھا کر کے ان کو ساتھ ملا
کر اس مسئلے کے ٹھوس حل کی طرف بڑھنا ہے۔ دوسرا یہ کہ پبلک کے لئے بھی آگہی
اورتربیت کا اہتمام کیا جائے، اس کے لئے ہر علاقے کی سطح پہ مختلف قسم کے
پروگرام کئے جائیں، ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جائیں ، جو
انسانیت کا درد رکھنے والے ہیں ، خاص طور پہ وہ نوجوان جو کہ انسانیت کے
حوالے سے مختلف حلقوں سے وابستہ ہیں اورسماجی، سیاسی وغیرہ انقلاب کے متمنی
ہیں، ان کو چاہئے کہ انقلاب کی ابتدائی تیاری کے لئے یہ پہلا عمل ہے کیونکہ
اگر لوگ صحت مند ہوں گے تو ان کے دماغ صحتمند ہوں گے اور وہ معاشرے میں کسی
سیاسی تبدیلی کے لئے جدو جہد کرنے کے قابل ہوں گے، اور اگر وہ زندہ ہی نہ
رہے تو انقلاب کون لائے گا؟ اور مزید یہ کہ ہمارے انقلابی بھائی بھی اس
گندے ماحول کا شکار ہو کر اس جدو جہد میں کمزور ہو جائیں گے، لہذا ان پہ
دوگنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کام کے لئے کمیونٹی میں جائیں، گلیوں
محلوں میں لوگوں کو صحت و صفائی کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے
حوالے سے تربیت دیں، نیز لوگوں کے اندر وحدت فکر وعمل یعنی مل جل کر مسائل
حل کرنے کی تربیت دیں ، اس طرح ان کی بھی سیاسی تربیت ہو گی ۔اسی طرح ہمارے
تبلیغی دوستوں، مساجد کے ائمہ اکرام کی، سکول کے اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے
کہ اپنے اپنے حلقہ جات میں لوگوں کو اس حوالے سے تربیت دیں، اور خاص طور پہ
تبلیغی دوستوں سے گذارش ہے کہ اس سلسلے میں گلی محلوں کے گشت کے دوران
لوگوں کو گلی کی صفائی ستھرائی کی بھی تلقین کریں، اور اس کام میں عملی طور
پہ ان کا ساتھ بھی دیں، کیونکہ گرد وپیش کو صاف رکھنا اور لوگوں کی مدد
کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔ اور جو ہمارے سیاستدان ہیں جو یقیناً ووٹوں کے دنوں
میں ہماری گلیوں اور محلوں کے چکر لگاتے ہیں ان کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے
کہ قوم کے ٹیکسوں کی لوٹ کھسوٹ کی بجائے لوگوں کی صحت اور ان کے بچوں کی
حفاظت کی ذمہ داری بھی ادا کریں، کیونکہ ان ہی لوگوں کی وجہ سے آج وہ
اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، لہذا لوگوں کو چاہئے کہ جب بھی وہ ان کے علاقوں
کارخ کریں، انہیں اپنے ساتھ ملا کر اپنے مسائل ان سے حل کروائیں، انہیں
مجبور کریں کہ وہ تمام وسائل مہیا کریں جو کہ سینی ٹیشن اور کوڑا کرکٹ کے
نظام کو بہتر کرنے کے لئے ضروری ہیں۔
یقیناًانسانی معاشرے میں ماحول اور گھر کی صفائی صحت مند رہنے کے لئے
انتہائی ضروری ہے،قوموں کی تہذیب اور شائستگی کو پرکھنے کا یہ معیار ہے کہ
وہ قوم کس قدر صفائی پسند ہے، کیونکہ صحت مند ماحول صحت مند جسم پیدا کرتا
ہے اور صحت مند جسم، صحت مند دماغ پیدا کرتا ہے۔گندگی اور تعفن زدہ ماحول
میں پرورش پانے والی نسلیں کبھی بھی صحت مند نہیں رہ سکتیں۔ لہذا یہ معاشرے
کے ہر فرد اور ادارے کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس پہلو کی نزاکت کو سمجھیں
اور ماحول کو صاف رکھنے کے لئے انفرادی سطح پہ اور ادارہ جاتی سطح پہ
ہنگامی بنیادوں پہ بہترین، منصوبہ بندی کی جائے اور اس پہ عمل در آمد کر کے
اپنا شمار تہذیب یافتہ اقوام میں کرایا جائے۔۔۔۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.