کرگل اور گلگت بلتستان جڑواں شہر ہیں۔
انمیں جغرافیائی فاصلہ زیادہ نہیں۔ مگر 70سال سے یہ ایک دوسرے سے جدا ہیں۔
یوں تو منقسم ریاست جموں و کشمیر کے تقریباً تمام شہروں کا یہی حال ہے۔ مگر
کرگل اور گلگت بلتستان کی اپنی جداگانہ اہمیت ہے۔ آج جب بھارت مقبوضہ کشمیر
میں نہتے عوام کا قتل عام تیز کر رہا ہے۔ 42روز سے وادی میں سرکاری اور سول
کرفیو نافذ ہے۔ بھارت نے عوام کو جھکنے پر مجبور کرنے کے لئے جموں سے
سرینگر مال بردار ٹرکوں کی سپلائی روک دی ہے۔ جب کہ وادی کے دیہی علاقوں سے
شہروں کو سبزیاں، دودھ اور دیگر اشیاء کی سپلائی میں بھی رکاوٹیں پیدا کی
جا رہی ہیں۔ ان حالات میں کرگل کے عوام نے پہلی بار وادی کے عوام کا بھر
پور ساتھ نبھانے کا اعلان کیا ہے۔ کرگل در اصل لداخ کا ایک حصہ ہے۔ انتظامی
طور پر لداخ کوکشمیر ڈویژن کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ جبکہ وادی کی دوسری طرف
بانہال کے پار ڈوڈہ، کشتواڑ، بھدرواہ، پونچھ، راجوری، ہیرا نگر، کٹھوعہ،
اودھم پور اور دیگر علاقے جموں ڈویژن کے ساتھ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ان دو
ڈویژنوں کو دو ڈویژنل کمشنرز اور دو آئی جی پی چلاتے ہیں۔ جن کی نگرانی چیف
سیکریٹری اور ڈی جی پی کرتے ہیں۔ یہ سول انتظام ہے۔ عملی طور پر مقبوضہ
ریاست پر بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کا کنٹرول ہے۔ یہاں تک کہ فوج کو
ڈیوپلمنٹ فنڈز بھی دیئے جاتے ہیں۔
جب وادی میں بھارتی فورسز نے مسلمانوں کی نسل کشی تیز کر دی ہے۔ ایسے میں
لداخ کے بودھ اکثریت والے ضلع لیہہ کی طرف سے ایک بار پھر لداخ کو ریاست سے
کاٹ کر اسے یونین ٹریٹری یا بھارت کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے
کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ مطالبہ بی جے پی کی ایما پر کیا جا
رہا ہے۔ جس نے لیہہ میں تمام مذاہب پر مشتمل جوائینٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دی
ہے۔ اس کی کمان لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن کے ہاتھ میں ہے۔ تا ہم کمیٹی میں
انجمن امامیہ اور انجمن معین الاسلام نامی نام نہاد مسلم تنظیموں کو بھی
شامل کیا گیا ہے۔ لداخ کبھی آزاد خطہ تھا۔ مگر یہ گلگت بلتستان سے جدا نہیں
رہا۔ کرگل ضلع مسلم اکثریتی ہے۔ جس کا رابطہ سرینگر سے سونہ مرگ کے راستہ
زوجیلا پہاڑی سلسلہ سے ہوتا ہے۔ یہ راستہ سال میں بھاری برفباری کی وجہ سے
چھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک بند رہتا ہے۔ یہ خطہ اس دوران دنیا سے کٹ جاتا ہے۔
بھارت نے موسمی اور جغرافیائی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست سے باہر
ہماچل پردیش کو لیہہ سے جوڑ دیا ہے۔ لیہہ سے منالی تک 490کلو میٹر سڑک لیہہ
کو ہماچل سے ملاتی ہے۔ اب لیہہ کی آمد و رفت سرینگر کے بجائے ہماچل کے ساتھ
جاری ہے۔ جبکہ لیہہ سے سرینگر براستہ کرگل کا فاصلہ ہماچل کے مقابلے میں
تقریباً 80کلو میٹر کم ہے۔ یعنی لیہہ سے سرینگر کے بجائے منالی کو ترجیح
دینے سے عوام کے تقریباً تین گھنٹے زیادہ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس کے
باوجود لیہہ کے عوام کو کشمکر سے کاٹ کر ہماچل کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ
بھارت کاریاستی تقسیم کی جانب ایک قدم ہے۔ پہلے مرحلہ میں لداخ کو بھارت کے
زیر انتظام علاقہ قرار دلانے میں یہی حکمت عملی کا ر فرما ہو سکتی ہے۔
لیہہ کی بدھسٹ آبادی کو کشمیری عوام سے دور کیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں لیہہ
کو کرگل سے بھی الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ دونوں کے درمیان
200کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود کرگل کے عوام نے لیہہ والوں کے
مطالبے کو مسترد کر دیا ہے ۔ وہ کشمیر کے ساتھ رہنے میں ہی لداخ کا مفاد
سمجھتے ہیں۔ کرگل سے سرینگر کا فاصلہ 200کلو میٹ کے قریب ہے۔ تا ہم یہ
فاصلہ کرگل کو گلگت سے جوڑنے کے مساوی ہے۔ البتہ کرگل سے اسکردو کا فاصلہ
تقریباً90کلو میٹر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرگل اسکردو شاہراہ کو کھولنے کے
مطالبات ہو رہے ہیں۔ یہ قدرتی راستے ہیں۔ بھارت منقسم جموں و کشمیر کے
قدرتی راستوں کو کھلونے کے بجائے مقبوضہ ریاست کو بھارت سے جوڑنے کے مصنوعی
راستے تلاش کر رہا ہے۔ اس کی سیاست میں بھی یہی حال ہے۔
گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت اسلام آباد کو انتہائی محتاط
انداز اختیار کرنے کی مجبوری ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو جملہ حقوق کی
ضرورت ہے۔ یہاں کی تعمیر و ترقی ضروری ہے۔ یہاں یونیورسٹی، میڈکل کالج،
انجیئرنگ یونیورسٹی، با اختیار عدلیہ، اپنا چیف سیکریٹری، آئی جی پی، غرض
عوام کو تمام آئینی مراعات کی ضرورت ہے۔ یہ سب اس خطہ کو پاکستان کو صوبہ
بنائے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ یا پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے گلگت
بلتستان کو مسلہ کشمیر کے حل تک صوبے جیسے اختیارات دیئے جا سکتے ہیں۔ ان
میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام پالیسی ساز
اداروں میں اسے نمائیندگی ملنی چاہیئے۔ یہی مطالبہ آزاد کشمیر کا بھی ہو
سکتا ہے۔ اسے بھی مسلہ کشمیر کے حل تک مشروط طور پر پاکستان کے آئین میں
گنجائش کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔ تا کہ عوام کا استحصال بند ہو
سکے۔کہا جاتا ہے کہ ماضی میں آزاد کشمیر کو بھی پاکستان کا صوبہ بنانے کی
کوشش کی گئی۔ ایسا کرنا سیاسی حماقت ہو گی۔ تا ہم جوابدہی کا عمل اور
پالیسی سازی میں آئینی حیثیت کا تعین بھی ضروری ہے۔ مسلہ کشمیر کے حل تک
مشروط طور پر ایسا بندو بست ہو جس کی وجہ سے بھارت کو لداخ یا مقبوضہ ریاست
کے کسی حصہ کو مستقل قبضہ کرنے کی تاویل نہ مل سکے۔ آج اگر نریندر مودی لال
قلعہ کی فصیل پر کھڑے ہو کر اعلانیہ طور پر گلگت اور آزاد کشمیر سمیت
بلوچستان کی آزادی کی بھڑکیں مار رہے ہیں تو اس کھیل میں سازش کو عمل دخل
ہے۔ افغانستان اور ایران کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے یا متنازعہ ریاست
جموں و کشمیر کی بند بانٹ کے لئے بھارت سرگرم ہے۔ اس لئے پاکستان کو گلگت
بلتستان کا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے باریک بینی سے حقائق کا جائزہ لینا
چاہیئے۔ تا کہ بھارت کی ریاست جموں و کشمیر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور ان میں
مستقل سرحد قائم کرنے کی سازشوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے
کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی قتل عام کے خلاف اور ریفرنڈم کے حق میں آزاد
کشمیر اور گلگت بلتستان کو مشترکہ طور پر سفارتی اور سیاسی طور پر صف آراء
کیا جائے۔
|