آقا ﷺ کے حضور!!

آئیے ! اس کے در اقدس کی چوکھٹ کے اپنی نگاہوں سے بوسے لیتے ہیں جس کی پُر تاثیر نگاہ نے انسانیت کے بگڑے مزاج کو بدلا، برے حالات سے نجات دی ، خونیں واقعات کو لگام دی ، گندے خیالات کے زاویے موڑ دیے ، مردہ قوموں نے جس کی پاکیزہ حیات کے طفیل حیاتِ جاودانی کے گوہر سمیٹے ۔ گنبد خضریٰ کی آغوش نے اپنے اندر ایسے لَعل کو سلایا ہوا ہے جس نے انسانیت کو میٹھی نیند سلایا ۔ انوار الہٰی کی تجلیات کو جذب کر کے قلب اطہر سے نور ہدایت کی کرنیں بکھیریں ۔ جس کی بدولت انسانیت کی تمام اصناف نے کمال لازوال حاصل کیا ۔

اس کہسار سے پوری وادی میں علم و عمل ، تہذیب و تمدن ، عزت و شرافت، عظمت و وقار، غیرت و حمیت، سطوت و ہیبت ، جاہ وحشمت ، بصیرت و حکمت، عزیمت و فراست، شان و شوکت ، صداقت و عدالت ، سخاوت و شجاعت، خلافت و حکومت ، سیاست و حاکمیت کے صافی چشمے پھوٹ رہے ہیں۔اور گلستان میں امن و آشتی، آزادی و حریت، سکون وراحت اور قلبی طمانیت کے برگِ گل سے مشام جان کو معطر کیے ہوئے ہے ۔

کائنات کے محسن اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم نے نسل ، رنگ ، قوم ، قبیلہ ، برادری ، زبان ، علاقے اور ذات پات کے تفاوت کی بنیاد پر باہمی برتری و کمتری کی کسوٹی کو یکسر مسترد کر کے معرفتِ خالق اور پرہیز گاری کی اکائی پر یکساں متحد کردیا ۔ ایسا عظیم الشان دستور العمل پیش فرمایا جو صبح قیامت تک امنِ عالم کا بلا شرکت ِغیرے اکیلا ضامن ہے ۔

کل بھی ، آج بھی اور آئندہ بھی اسی دستور کو اپنانے میں فلاح و کامیابی کی ضمانت ہے ۔ یہ جز وقتی ، ہنگامی اور مخصوص اوقات کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا تھا کہ محض وقت گزرنے سے اپنی افادیت کھو بیٹھے ۔ جیسا کہ چند مفکرین ……فرائیڈ وغیرہ…… کی فکر و نظر کی کج روی اور شعور و دانش کی کمزوری نے اپنے ایسے فرسودہ خیالات کو عقل نارسا کی پاتال میں پناہ دے رکھی ہے ۔

گوشت پوست کے اس مشت خاکی کو خواہشات ، شہوات ، کبر و غرور ، تفاخر پسندی ، نسل ، زبان ، علاقے ، سیاسی و سماجی اقدار ، معاشی و معاشرتی اقدار کی زنجیروں نے ہر طرف سے لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ انسانیت اس کے پنجہ استبداد میں سسکیاں لے رہی تھی ۔ اگر رحمت کونین صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے دست کرم سے اس کو آزاد نہ کراتے تو کبھی بھی اس کی فضیلت و برتری ظاہر نہ ہوتی ۔

انسانیت کی ستم ظریفی دیکھیے آج اپنے اسی محسن کو فراموش کر بیٹھی ہے ۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی ہے جو آج کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ سانحات و حوادثات کا بے رحم شکنجہ اس کو دبوچے ہوئے ہے ۔ جنگِ عظیم اول اور دوم کی ہولناک بھٹی میں یہی ابن آدم اور بنت حوا خاکستر ہوئے ۔

اس کے لبوں پر امن و عافیت کی تمنا دعا کا روپ دھارنے کو ترس گئی ہے ۔ رحمت دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قوانین سے بغاوت کا اثر یہ ہے کہ زمینی و سماوی عذابوں نے ایسے چُرکے لگائے ہیں کہ انسانیت ابھی تک کرب و الم سے کراہ رہی ہے ، اور یہ اس وقت تک کراہتی ہی رہے گی تاوقتیکہ اس کو اسی در پر نہ لے جایا جائے ، جہاں کے ذرے مہر و ماہ کو شرماتے اور دل و نگاہ کو چمکاتے ہیں ۔وہ دیکھیے سامنے روضہ اقدس ﷺ ہے محبت والفت اور امن آشتی کے ٹھنڈے جھونکے قلب وجان کو فرحت بخش رہے ہیں آج سے چودہ سو سال پہلے والا مدینہ(یثرب)اپنے اندر وہی سکون وہی بہار رکھتا ہے مکہ کے ریگزاروں سے مدینہ تک، شعب ابی طالب سے طائف کی گلیوں تک، غار ثور سے لیکر غار حرا تک ،حضور ﷺ کی عملی زندگی قرطاس کے چہروں کو منور کر رہی ہے ۔ زبان مبارک سے ادا کیا ہوا ہر لفظ مبارک اعضاء سے وجود پانے والا ہر آشارہ آج بھی قابل عمل اورذریعہ نجات کی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے بلغ ما انزل الیک من ربک کو کتنی دیانتداری سے پہنچایا۔

لخت جگر بیٹیوں کو طلاقیں، ابولہب کاسگاچچا ہو کر پتھر اچھالنا، جسد اقدس پر اوجھڑی، معاشی بائیکاٹ، وہی طائف کے پتھر جن سے آپ کا مبارک جسم لہو لہان ہوگیا، ان سنگریزوں اورپتھروں کو بوچھاڑ میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک مرتبہ گرتے ہیں درندے بغلوں میں ہاتھ ڈلا کر پھر کھڑا کردیتے ہیں پھر پتھروں کا مینہ برساتے ہیں آپ پھر گرتے ہیں……………………نعلین مبارک لہو سے تر بتر ہو جاتے ہیں لیکن دین کی تبلیغ واشاعت کاسفر پھر بھی جاری وساری ہے ۔

اپنا وطن، گھر بار، خاندان، رشتہ دار،قوم،قبیلہ،علاقہ ایک خدا کے لیے قربان کیا جارہا ہے صرف اس کی خوشنودی کے لیے چٹانوں کے دامن میں بسیرا ہو رہا ہے کبھی غاروں میں روپوشی ہو رہی ہے ، بھوک اور بے سروسامانی کا عالم میں بدرواحد کے معرکے لڑے جارہے ہیں، پیٹ پر ایک پتھربلکہ دو دوپتھر باندھ کر خندق کو کھودرہے ہیں، اتنی عسرت اور تنگی کے عالم میں بھی خدائی احکام ادا کیے جارہے ہیں، امت کو آپس میں جانثاری کادرس سنایا جا رہا ہے ، رنگ، نسل، نسب کا فرق مٹ رہا ہے ، کالے گورے کی تمیز ختم ہورہی ہے ، عجمی اور عربی میں تفریق اپنی موت آپ مر رہی ہے ، خاندانی اورقبائلی تعصب حسدوکینہ سے پاک ہو رہے ہیں، مہاجرین وانصار یک جسم ویک جاں بنے ہوئے ہیں، ا وس وخزرج کی دشمنی باہمی مودت اور موانست میں ڈھل رہی ہے ۔

پھر اس میں عورت کہاں پیچھے ہے ؟ صحابیات خصوصاًامہات المومنین ان تمام مشکل اورکڑے اوقات میں دین کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکی ہیں۔ سب کی سوچ یہی ہے کہ باقی آنے والوں تک خدا کا یہ دستورِ حیات(قرآن کریم)پہنچ سکے ، اس کے لیے زمانہ کے سرد و گرم برداشت کر رہے ہیں خوشی وتنگی کے نشیب وفراز طے کر کے دین اسلام کو ہم تک پہنچانے کی سعی کی جارہی ہے ۔

لیکن!!!ہم نے اس دین کی کیا قدر کی ؟ اس کے احکامات کا مذاق اڑایا، آقاﷺ کے مبارک فرامین سے رخ دوسری طرف پھیرا، اخلاقیات کاجنازہ نکالا، معاشرت کو غیروں کے طریقوں سے گزارنے کے لائحہ ہائے عمل بنائے ،میلے ٹھیلے ناچ گانے اورموسیقی کو دین سمجھا، میں اسی طرح کی باتوں کوسوچ رہا تھا کہ وقت گزرنے کا احسا س بھی نہ ہوایقین جانیے !آنکھیں نم تھیں میں روضہ رسول ﷺ کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ کبھی دیدار کی کوشش کرتا پھر خود ہی نظرکو نیچے جھکا دیتا اوراپنے آپ سے سوال کرتا ان آنکھوں کو کیا حق ہے کہ اس ر سول ہاشمی ﷺ کی زیارت کریں؟

حالت عجیب ہورہی تھی، اپنے اعمال اور امت مسلمہ کی زبوں حالی دونوں مجھے آقا کے حضور میں شرمندہ کررہی تھیں کہ ہمارے اعمال آپ ﷺ پر پیش کیے جاتے ہیں اور ہم پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے ہماری وجہ سے آقا ﷺ کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی؟ دل مضطرب کو سوائے شفاعت کی کرن کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی تھی تحفہ دروروسلام پیش کرنے کے بعد بصد ادب واپس پلٹ آیا۔اﷲ مجھے اور آپ کو اپنے پیارے حبیب کے صدقے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے اور ان کی شفاعت خاصہ نصیب فرمائے ۔
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 120846 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.