اسلام اور پاکستان کے خلاف قادیانیوں کی
طرف سے تخریبی سرگرمیاں تو قادیانیت کے جنم دن اور قیام پاکستان کے وقت سے
ہی جاری ہیں۔ان کے کفریہ مذہبی عقائد کی وجہ سے ان کو کافر دینے کا مطالبہ
بھی ہر دور کے علمائے حق کی طرف سے جاری رہا ۔اس مطالبہ میں شدت1953ء میں
مولانا ابو الحسنات محمد احمد قادریؒ (خطیب جامع مسجد وزیر خاں لاہور) کی
قیادت میں چلنے والی تحریک ختم نبوت کے ایام میں آئی ۔لیکن نوزائیدہ ممکت
اسلامی کے کارپردازان حکومت ،غیر ملکی آقاؤں کا دباؤبرداشت نہ کر سکے اور
قائدین تحریک کو جیلوں ڈال کر اورہزاروں مجاہدین ختم نبوت پرگولیاں برسا
کراُن کو شہید کر کے وقتی طور پر تحریک ختم نبوت کودبانے میں کامیاب ہو گئے
اس تحریک کے دوران ہی مولانا عبدالستار خاں نیازی اور مولانا خلیل احمد
قادریؒ کو تحریک کی قیادت کرنے جبکہ مولانا مودودی کو ’’قادیانی
مسئلہ‘‘نامی کتاب مرتب کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔تحریک ختم
نبوت 1953ء کو حکومت کی طرف سے بزور قوت کچل دینے اور قائدین و کارکنان
تحریک کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھنے سے قادیانیوں کے حوصلے مزید بڑھے
اور وہ کھلے عام تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے رہے۔29مئی1974ء کو
قادیانیوں نے کھلی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،ربوہ(حال چناب نگر)ریلوے
اسٹیشن پر،نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ جو کہ شمالی علاقہ جات کی سیر سے ریل
گاڑی پرواپس آرہے تھے،بہیمانہ تشدد کیا ۔قادیانیوں کی اس دہشت گردی کی وجہ
سے ایک بار پھر تحریک شروع ہو گئی اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار
دینے کا اُصولی مطالبہ زور پکڑ گیا ۔ہر صاحب ایمان نے اس تحریک میں دامے
درمے قدمے سخنے، بھر پور قردار ادا کیا۔قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد
نورانی صدیقیؒ اس وقت پاکستان قومی اسمبلی کے ممبر تھے ،آپؒ نے قادیانیوں
کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبہ پر مبنی ایک قرارداد تیار کی
اور22دیگر اراکین قومی اسمبلی کے تائیدی دستخط کروا کر یہ قرار داد 30
جون1974ء کو قومی اسمبلی میں پیش کردی۔ملک بھر میں تحریک ختم نبوت کے زور
پکڑ جانے اور علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کے قرارداد پیش کر کے اس مسئلہ کو
باقاعدہ قومی اسمبلی میں لے آنے پر ذوالفقارعلی بھٹو وزیر اعظم پاکستان نے
پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیکر قادیانی مسئلہ کے حل کے لئے
اقدامات کرنے کا اختیار دے دیا۔اس خصوصی کمیٹی نے مسئلہ کے حل کے لئے مفصل
بحث کرنے اورقادیانیوں کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لئے قادیانی و لاہوری
گروہوں کے سربراہان کو اپنے نمائندوں سمیت خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر
اپنا مؤقف بیان کرنے کا پورا پورا موقع دیا ۔یہ خصوصی کمیٹی قادیانیولاہوری
گروہ کے سربراہوں کے بیانات اور ان پر ممبران قومی اسمبلی کی جرح سننے کے
بعداس امر پر متفق ہو گئی کہ مرزا قادیانی کے عقائد کفریہ ہیں اور اس کے
پیرو کار خواہ وہ قادیانی یا لاہور ی یا کوئی بھی نام اپنائیں خارج از
اسلام ہیں ۔چنانچہ7 ستمبر 1974کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا
گیا ۔اس طرح1974ء والی قومی اسمبلی پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس
اسمبلی کے ایک معززرکن نے قراداد پیش کر کے قادیانی مسئلہ قومی اسمبلی میں
اٹھایااورپوری اسمبلی نے اس انتہائی اہم مسئلہ پر مکمل تحقیق کر کے اس کو
حل کر دیا۔اس طرح علمائے حق کا90سالہ پرانامطالبہ تسلیم کر کے قادیانیوں کو
غیر مسلم اقلیت قرار دے دیاگیا ۔سپیکر قومی اسمبلی نے ملکی مفاد میں قومی
اسمبلی کی اس کاروائی کی اشاعت پر پابندی لگادی۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کے کارپردازان یہ برداشت نہیں کرتے کہ
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں دیگر مسالک کے راہنماؤں کی کوششوں اور
قربانیوں کا نام بھی لیا جائے چنانچہ ان کی شعوری کوشش رہتی ہے کہ ہر اہم
کام کو کھینچ تان کر دیوبندی اکابر سے منسوب کردیا جائے۔جس کام میں کسی
دیوبندی کا کوئی عمل دخل کسی طور پر ثابت نہ کر سکیں اس کے پیچھے’’فلاں
بزرگ کی دعا کا اثر‘‘تحریر کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیتے ہیں۔تحریک ختم
نبوت 1953ء کی قیادت مولنا ابوالحسنات محمد احمد قادریؒ نے فرمائی۔ان کے
جیل میں چلے جانے کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے مولانا خلیل احمد قادریؒ
اورمجاہدِملت مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ نے جامع مسجد وزیر خاں کو تحریک
کا مرکز بنا کر تحریک کی قیادت فرمائی۔فوجی عدالتوں نے آپ دونوں بزرگوں کو
سزائے موت سنائی،لیکن دیوبندی لٹریچر میں تحریک ختم نبوت ،سید عطا اﷲ شاہ
بخاری او ر دیگر دیوبندی اکابرکے رہین منت ہی نظر آتی ہے۔اسی طرح 1974ء کی
تحریک ختم نبوت کے دوران قائد ملت اسلامیہ الشاہ احمد نورانیؒ نے بحیثیت
ممبر قومی اسمبلی،قادیانیوں کو غیر مسلم قراردلوانے کی قرار داد پیش کی اور
اسی قرارداد پر کاروائی ہو کر قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پاگئے۔مگر برا
ہو تعصب کاجس کی وجہ سے قریباً تمام دیوبندی مصنفین ومؤلفین جان بوجھ کر
تاریخی حقائق مسخ کرنے کے لئے تحریف تک کئے جا رہے ہیں ۔قومی اسمبلی کی
کاروائی سے متعلق دیوبند مسلک کی طرف سے آج تک جتنا لٹریچر دیکھنے کو ملا
ہے اس میں مولانا شاہ احمد نورانی کی پیش کردہ قرارداد کو ’’حزب اختلاف کی
قرادداد‘‘تحریر کیا گیا ہے ۔کسی دیوبندی کو یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ بھول
کر بھی لکھ دے کہ یہ قرار داد مولانا الشاہ احمدنورانی ؒ نے پیش کی تھی۔
اور قراداد میں جان بوجھ کر تحریف کرتے ہوئے قرارداد پر دستخطوں کی ترتیب
بدل کر اپنے اطمنان کا ساماں نکالتے ہیں۔دنیا میں کہیں بھی محرک قرارداد کا
نام تائید کنندگان کے بعد نہیں آتا لیکن دیوبندی لٹریچر میں شائع کی جانے
والی یہ قراداد شائد دنیا بھر کی قراردادوں میں واحد مثال ہے جس پر موئیدین
کے دستخط پہلے اور محرک قرارداد کے دستخط تیسرے نمبر پر دکھائے گئے ہیں۔ اب
حکومت کی طرف سے کاروائی منظر عام پر آگئی ہے تو قومی اسمبلی کے اصل ریکارڈ
میں سے قرارداد بھی منظر عام پر آئی ہے ۔اس ریکارڈ کے مطابق محرک کے قرار
داد الشاہ احمد نورانیؒ کے دستخط سرفہرست،پہلے نمبر پر روز روشن کی طرح چمک
رہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کسی بھی اہم مہم کو سر کرنے کے لئے ایک فرد نہیں
بلکہ ایک ٹیم کام کرتی ہے ۔اور اس ٹیم کے تمام اراکین اور ان کی کوششیں
اپنی اپنی جگہ پر اہم اور قابل تعریف ہوتی ہیں اسی طرح تحریک ختم
نبوت1974کے دوران بھی ہوا کہ سب اراکین اسمبلی نے اس موقع پر اپناپنا کردار
ادا کیا ،کسی نے قرارداد مرتب کی تو کسی نے اس کی تائید کی،کسی نے اس پر
بحث میں حصہ لیا تو کسی نے عوامی محاذ پر لوگوں کو مسئلہ کی نزاکت واہمیت
سے آگاہ کر کے عوامی دباؤ حکومت پر برقرار رکھا ۔بعضوں نے اس پر دستخط کرنے
سے انکار کر کے اپنی’’ مسلکی غیرت‘‘اورقادیانیت کے ساتھ’’دشمنی‘‘کا واضح
ثبوت بھی دیا۔جس نے جتنا کام کیا اس کو اتنا اعزاز نصیب ہوا ۔لیکن ریکارڈ
میں تحریف کر کے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کونسی دینی یا ملکی
خدمت سرانجام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے ۔
اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار ممکن نہیں کہ مرزا قادیانی کے خلاف سب سے
پہلے فتوی کفر دینے سے لیکر قادیانیوں کوقانونی طور پرغیر مسلم اقلیت
قراردلوانے کی سعی کے سلسلہ میں قراد داد پیش کرنے تک سب اعزازت اﷲ تعالیٰ
نے اپنے فضل سے اہل سنت کو نصیب فرمائے ہیں لیکن اہل دیوبند ’’سب سے پہلا
فتویٰ کفر‘‘ مرتب کرنے سے لیکر’’ قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی
مصدقہ رپورٹ ‘‘ ترتیب دینے تک سب اوراق اہل دیوبند کی تعریفوں اور ان کے’’
لہو لگے جسموں کو شہیدوں میں شمار کرنے‘‘صرف کرنے میں مشغول ہیں ۔انہیں
حالات میں برادرم جناب محمد احمد ترازی صاحب نے ’’قرار داد ختم نبوت کا اصل
محرک کون ؟‘‘مرتب کر کے مخصوص مکتبہ فکر کی جانب سے دانستہ حقائق مسخ کرنے
کی ایک داستاں بیان کی اور دستاویزی ثبوت مہیا کر کے یہ بات سمجھانے کی
پوری کوشش کی ہے کہ حقائق پر تعصب کے پردے نہیں ڈالے جاسکتے،جلد یا بدیر
حقائق واضح ہو کر ہی رہتے ہیں جب حقائق سامنے آجائیں تو حقائق کی پردہ پوشی
کرنے والوں کو سوائے شرمندگی اور خجالت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔صاحبان علم و
فراست کو اس دستاویزی تحریر کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے ۔میری دعا ہے کہ اﷲ
تعالی جناب محمد احمد قادری صاحب کو اس کاوش پر اجر عظیم سے نوازے۔ |