والدین کی خدمت
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
ان آیات کریمہ میں والدین کے حقوق کا بیان
ہے۔مفہوم یہ ہے کہ والدین سے ادب سے بات کرو اور ان کے ساتھ گستاخی سے پیش
نہ آؤ اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ والدین کا اپنی
اولاد پر بڑا حق ہے، ماں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا کر بچے کو جنتی ہے اور
بڑی محنت و مشقت سے اسے پالتی ہے،بچے کو ڈھائی برس تک دودھ پلانا اور اسے
سردی گرمی سے محفوظ رکھنا اور اسکا خیال رکھنا، وہ یہ سب تکلیفیں برداشت
کرتی ہے اور اف بھی نہیں کرتی۔ اور بچہ جب پل بڑھ کر جوان ہو جاتا ہے تو
پھر اسکے کاروبار،شادی بیاہ اورگھربار بسانے کے مسائل ہوتے ہیں یہ ذمہ
داریاں اسکے والدین بطریق احسن پورا کرتے ہیں اور اسے حوادثات زمانہ اور
اونچ نیچ سے بچاکراپنے سائے تلے محفوظ رکھتے ہیں۔ اور بچہ جب اپنے قدموں پر
کھڑا ہوجائے اور خود کفیل ہو جائے تو اب اسپر بھی واجب ہے کہ وہ اپنے
والدین کا احترام کرے اور انکا ہر طرح سے خیال رکھے اسلئے کہ احسان کا بدلہ
تو احسان ہی ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور والدین کے ساتھ احسان سے
پیش آؤ(القرآن)
اور فرمایااحسان کا بدلہ تو احسان ہی ہے (القرآن )حدیث شریف میں آتا ہے کہ
ایک بار نبی کریم ﷺ نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے مسجد تشریف لائے جب آپ نے
ممبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایاآمین اور جب دوسری سیڑھی پر قدم
رکھا تو فرمایا آمین اسی طرح جب آپ نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر
فرمایا آمین۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول
اللہ ﷺ آج ہم نے ایک عجیب بات نوٹ کی ہے اور پھر سارا واقعہ عرض کر دیا آپ
نے ارشاد فرمایا کہ جب میں نے ممبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو حضرت
جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہ دعا مانگی کہ باری تعالیٰ! جو شخص آپ کا
نام مبارک سنے اور آپ پر درودپاک نہ پڑھے تو وہ ناکام و نامراد ہو تو میں
نے کہا آمین اور جب میں نے ممبر کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو اس نے کہا
کہ جو شخص اپنے والدین میں سے دونوں یا ایک کو بڑھاپے میں پائے اور پھر
انکی خدمت کر کے جنت کا مستحق نہ ہو جائے تو وہ بھی ناکام و نامراد ہو تو
میں نے کہا آمین،اور جب میں نے ممبر کی تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو اس نے
کہا کہ جو شخص رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور پھر اس میں عبادت کر کے جنت
کا مستحق نہ ہو تو وہ بھی ناکام و نامراد ہو تو میں نے کہا آمین ۔ اب اس
حدیث شریف میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میں دعا مانگنے والے اللہ تبارک و
تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں اور دعا مانگنے والے
سرور کائنات حضرت محمد ﷺ ہیں تو اس دعا کی قبولیت میں کیا شک باقی رہ جاتا
ہے؟ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے والدین کی زیادہ سے زیادہ خدمت
کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انکی بددعا سے بچائے آمین!! |
|