اردو میں حلف برداری
(Falah Uddin Falahi, India)
اردو وہ زبان ہے جس نے جینے کا سلیقہ
سکھایا ،اتنا ہی نہیں بلکہ یہ زبان جتنی شیریں اور نرم خو ہے اتنی ہی تلخ
اور گرم کے ساتھ انقلابی بھی ہے ۔اسی زبان کی بدولت ہندوستان کے مجاہدین کے
دلوں میں آزادی کا جوش مارتا تھا اور اسی زبان نے انگریزوں کو تلملانے پر
مجبور کیا تھا ۔اسی زبان نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا جس کے سنتے ہی
انگریزوں کے ہوش آڑ جاتے تھے وہ انقلاب زندہ باد کہنے والے کا نہیں بلکہ
لفظ انقلاب کا پیچھا کرتے تھے لیکن وہ انقلاب کو کبھی روک نہیں پائے اور
ہندوستان کی سرزمین نے وہ وقت بھی دیکھا جب انگریز ہندوستانیوں کے آگے
جھکنے پر نہ صرف مجبور ہوا بلکہ گھٹنے ٹیک کر اپنا بوریا بسترا باندھ کر
ملک کو خیر آباد کہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔ہندوستان نے قومی زبان کا
درجہ بہت دیکھا ہے کبھی فارسی یہاں کی قومی زبان تھی تو کبھی کچھ اور اور
اب ہندی قومی زبان ہے لیکن کسی نے بھی کبھی اردو کا مقابلہ نہیں کیا اور نہ
اردو کے جیسا وہ مقام حاصل کیا جس کے پورا ہندوستان دیوانہ ہو ۔اردو ایک
ایسی واحد زبان ہے جس نے پورے بر صغیر میں پرچم لہرانے میں کامیاب ہو گئی
اور ملک کا کوئی کونا اس زبان سے عاری نہیں رہا ۔اب تو زبان اردو نے گلوبل
حیثیت اختیار کر لی ہے ۔پوری دنیا اس زبان کی دیوانی اور شیدائی نظر آتی ہے
۔جو لوگ کہتے ہیں کہ اردو ختم ہو رہی ہے دراصل وہ احساس کمتری میں مبتلا
ہیں ۔آج بھی ہر کوئی اردو زبان کو سننا پسند کرتا ہے اور جو بات خالص اردو
کہی جائے وہ اثر رکھتی ہے ۔ہندوستان کی پارلیمنٹ گواہ ہے کہ وہاں ہر ممبر
پارلیمنٹ اردو شاعری میں بات کرنا چاہتا ہے یہاں کے وزیر اعظم بھی جب اردو
کے اشعار میں اپنے مخالفین کو خطاب کرتے ہیں تو تالیوں کی گونج سنائی دیتی
ہے اور ہر کوئی متحرک ہو جاتا ہے۔اسی طرح کی مثال آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ
اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان میں دوسری بار منتخب ہونے والے پاکستانی نژاد رکن
حمزہ یوسف نے رکن پارلیمان کا حلف اردو میں لیا ہے۔بی بی سی اردو سے بات
کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ جتنے سکاٹش ہیں اتنے ہی پاکستانی بھی ہیں۔
’میرا اردو میں حلف لینے کا مقصد یہ تھا کہ میں اپنی جیت کو پاکستان کے نام
کروں اور یہ کہ پاکستانی اس پر فخر کریں۔‘اسکاٹش نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے
والے 31 سالہ حمزہ یوسف دوسری بار گلاسگو سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے ہیں
اور سکاٹ لینڈ کی گذشتہ حکومت میں یورپ اور انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کے وزیر
بھی رہ چکے ہیں۔ انھیں سکاٹش کابینہ میں پہلے مسلمان وزیر ہونے کا اعزاز
بھی حاصل ہے۔ حمزہ کی والدہ کینیا سے تھیں جب کہ ان کے والد کا تعلق
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں سے ہے۔حمزہ یوسف کا کہنا تھا کہ وہ
اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔انگریزی ان کی پہلی زبان ہے
لیکن انھوں نے حلف دونوں زبانوں میں اس لیے لیا کیونکہ وہ اپنی ثقافت کو
بھولنا نہیں چاہتے۔سوشل میڈیا پر جہاں حمزہ کے اردو میں حلف لینے کی تعریف
کی گئی وہیں کچھ حلقوں کی جانب سے ا سکاٹش پالیمان میں پاکستانی کی قومی
زبان میں حلف لینے پر انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔حالانکہ ایسے
لوگوں کی تعداد بہت کم ہے ۔اس بارے میں حمزہ یوسف کا کہنا تھا کہ اسکاٹش
پارلیمنٹ میں آپ کسی بھی دو زبانوں میں حلف لے سکتے ہیں اور اسی لیے میں نے
اردو زبان میں حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اردو اور پاکستان میرے دل
میں بستے ہیں اور میں پاکستان کی قومی زبان میں حلف لے کر اپنی جیت کو
پاکستان کے نام کرنا چاہتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ اسکاٹ
لینڈ ایک بین الثقافتی ملک ہے اور ہم دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کا بے حد
احترام کرتے ہیں۔ ’صرف یہ دیکھیں کہ میرے اردو میں حلف اٹھانے پر کسی رکن
پارلیمان نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ سب نے اسے سراہا۔ چاہے وہ ا سکاٹ
لینڈ کی مقامی آبادی ہو یا اسکاٹش پاکستانی ہوں، اکثریت کو میرا اردو میں
حلف لینا اچھا لگا ہے اور جن کو اچھا نہیں لگا وہ چند ہی لوگ ہیں۔‘اس طرح
کی کئی مثالیں ملیں گے کہ آج اردو زبان ایک گلوبل کی حیثیت اختیار کر چکا
ہے اسے پھیلنے اور پھولنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے اور نہ اس کی مقبولیت
میں کوئی کمی آئی ہے ۔ |
|