بھارت اور نیپال

بھارت اوراسکے پڑوسی ممالک(2)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم

نیپال بھی بھارت کاایک پڑوسی ملک ہے۔دوسرے تمام پڑوسی ملکوں کے طرح یہ ملک بھی بھارت کی سرحدی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔بھارت اور نیپال کی سرحدسترہ سو باون کلومیٹر طویل ہے۔اتنی طویل سرحد پر اترپردیش،اتراکھنڈ،بہار،مغربی بنگال اور سکم کے بھارتی علاقے نیپالی سرحد پر واقع ہیں۔1814سے1816ء کے درمیان لڑی جانے والی گورکھا جنگ جو ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال کے شاہی اقتدار کے درمیان لڑی گئی،اس جنگ کے اختتام پردونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کادور ہوا۔نیپال کی مقامی قیادت اور انگریزکی بدیسی قیادت کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے۔یہ معاہدہ ’’سوگولی‘‘نامی مقام پر ہوا اسی نسبت سے اس کو ’’سوگولی معاہدہ‘‘(Treaty of Sugauli)کہتے ہیں۔اس معاہدے پر شاہ نیپال کی طرف سے راج گروگجرال مشرانے اور کمپنی کے نمائندے کے طورپر کرنل پارس براڈشانے دستخط کیے۔ 4مارچ 1816کو اس معاہدے کی منظوری دے دی گئی جس کے مطابق دریائے کالی گنگا کے کنارے دونوں مملکتوں کے حدود کا تعین کریں گے،اس دریا کومقامی طورپر’’شارداندی‘‘اور’’کالا پانی‘‘بھی کہتے ہیں۔ نیپالی شاہی اقتداراور ہندوستانی برطانوی اقتدار کے درمیان یہ سرحدی خطوط طے ہو گئے تھے اور اس وقت کوئی سرحدی تنازع کھڑا نہیں ہوا۔جبکہ آج ’’کالی گنگا ‘‘نامی دریا بھارت اور نیپال کے درمیان وجہ نزاع ہے۔یہ دریا نیپال کے ضلع ’’دارچولا‘‘جو ’’مہاکالی‘‘ڈویژن کی ایک ریاستی اکائی ہے اور بھارت کے ضلع ’’پتھوڑاگڑھ‘‘ جو ریاست ’’اتراکھنڈ‘‘کا حصہ ہے،میں بہتاہے اور متنازعہ علاقہ کا کل رقبہ کم و بیش 400مربع کلومیٹرہے۔نیپال اس دریا کے پیدائشی علاقے پر اپنا دعوی کرتاہے لیکن 1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعد سے اس نیپالی علاقے پر بھارتی سرحدی فوج کا تسلط ہے۔نیپال کا موقف ہے کہ 1816ء کے نیپال اورکمپنی معاہدے کے تحت ہمالیہ سے جاری ہونے والے دریائے کالی گنگا کے کنارے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کا تعین کیاکریں گے۔یہ کالی گنگا کے دریا پر بھارت ،نیپال اور چین،تینوں ملکوں کی سرحدیں مل رہی ہے۔چین کے ساتھ تو نیپال کا کوئی جھگڑانہیں ۔لیکن حیرانی کی بات ہے کہ بھارت کی حکومت چین کے ساتھ ان معاہدوں کی پاس داری چاہتی ہے جو تاج برطانیہ نے کیے اور نیپال کے ساتھ ان معاہدوں سے روگردانی چاہتی ہے،کیا یہ قوم شعیب کے پیمانے نہیں ہیں؟؟؟

اس متناعہ علاقے میں تین قصبے شامل ہیں،کوتی،گونجی اورکانابی۔بھارت اور نیپال دونوں کے پاس اپنے اپنے مطلب کے نقشے ہیں جن سے دونوں اس علاقے پر اپنا تاریخی حق ثابت کرتے ہیں۔1997میں نیپالی حکومت نے کالی گنگاپر ایک پن بجلی کامنصوبہ شروع کرنا چاہالیکن بھارت وہی دیرینہ ہمسایہ دشمنی آڑے آئی اور باوجود طویل گفت و شنید کے مسئلہ ہنوز تشنہ طلب ہے۔اس گفت و شنید کے دوران نیپال کے نمائندوں نے 1856ء کا برٹش انڈیا آفس کانقشہ بھی دکھایا جس کے مطابق یہ علاقہ اس وقت کے پہلے سے نیپال کی قلمرو میں شامل ہے،لیکن بھارت کی طرف سے مسلسل ’’میں نہ مانوں‘‘کی رٹ لگائی جا رہی ہے۔یہ علاقہ چونکہ چین کے ساتھ نیپال اور بھارت کا ساجھی علاقہ ہے اس لیے اس کی دفاعی اہمیت بھی مسلم ہے۔اسی دفاعی اہمیت کے باعث بھارت نے 1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعد سے اس علاقے پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اورکسی طوردستبردارہونے کے لیے تیارنہیں۔نیپال کے انتخابات میں بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات کا حل ایک بہت بڑامسئلہ بن کر سامنے آتاہے اور ہر سیاسی جماعت اس کے حل کر نے کے وعدے کرتی ہے،اقتدارمیں آنے کے بعد کتنی ہی بار سروے کئے گئے کرائے گئے،مشترکہ سرحدی کمشن بنے انہوں نے موقع کے دورے بھی کیے لیکن جب برہمن نہ ماننے پر بضدہوتویہ سب کچھ کارلاحاصل رہا۔’’سوستا‘‘کاعلاقہ بھارت اور نیپال کے درمیان ایک اور وجہ تنازعہ ہے۔اس علاقے پر بھی بھارتی فوج نے زبردستی قبضہ کر کے تواپنی عسکری مین گاہیں بنا رکھی ہیں۔’’سوستا‘‘کا علاقہ نیپال کے شمال میں ’’مادھیش نامی نیپالی علاقے اوراترپردیش نامی بھارتی علاقے کے درمیان میں واقع ہے۔اس متنازعہ علاقے کا رقبہ ایک سو چالیس مربع کلومیٹرسے زائد ہے۔

بھارت اور نیپال کے درمیان پانی کا تنازعہ ایک اور اہم مسئلہ ہے۔بھارت اور نیپال کی جغرافیائی صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ بھارت کے علاقوں کی طرف آنے والے سارے دریاؤں کی جنم بھونی نیپال کے بلند وبالا برفانی پہاڑ ہیں۔نیپال اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جب کوئی پانی کا بڑاذخیرہ تعمیر کرنا چاہتاہے تو بھارت میں پانی کا توازن خراب ہونے لگتاہے اور آب پاشی سمیت بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے توانائی کی ضروریات بھی داؤ پر لگ جاتی ہیں۔نیپال چونکہ ایسا ملک ہے جس کے پاس سمندر نہیں ہے اورایک طرف تبت کے بلندوبالا پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں جن کے پار چین کا ملک ہے تو دوسری طرف صرف بھارت کا ملک ہے۔نیپال اپنی اس جغرافیائی تنہائی کے باعث بہت سے معاملات میں بھارت پر انحصارکرنے پر مجبور محض ہے۔بھارت نے نیپال کی اس مجبوری سے اتنا کچھ فائدہ اٹھایا ہے کہ دنیاسے شرافت اور بنیادی انسانی اقدار بھی بھارت کے شرمناک رویے سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔نیپال جو دنیا کے غریب ممالک میں شمار ہوتا ہے اپنے ملک کے اندر ہی جب بجلی بنانے کے لیے ڈیم تعمیر کرنے لگتاہے تو بھارت کی طرف سے بڑی بڑی شرائط رکھ دی جاتی ہیں،جن کے باعث وہ بہت بڑے منصوبے نہیں بنا سکتااور جب کبھی چھوٹے منصوبوں سے بھی اسکی بجلی پیدا ہونا شروع ہوتی ہے تو بھارت کی حکومت اس سے اپنے من مانے کم ترین نرخوں پر خرید لیتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جگاٹیکس کے طورپر وصول کر لیتی ہے۔بھارت نے اپنی قوت کے بل بوتے پر نیپالی حکومت سے زبردستی ایسے معادوں پر دستخط کرائے جو نیپال کے وسیع تر مفاد کے عین خلاف تھے ،اور اس پر نیپال کی حزب مخالف کی بہت شورشرابا بھی کیالیکن نتیجہ ندارد۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اپنی آزادی کے فوراََبعد سے ہی اپنی ہمسایہ ریاستوں پر اسی طرح جالے کسنا شروع کر دیے تھے جس طرح مکڑی اپنے قابو میں آئی ہوئی مکھی پر جالوں کے تارکس دیتی ہے۔خاص طورپرجب چین سے مسلسل کھنچاؤ کی صورتحال پیداہوئی توچینی سرحد کے قریب ترین ملک نیپال تھا،چنانچہ بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے 1950میں ہی نیپال کے ساتھ ایک ’’دوستی معاہدہ‘‘کیاتھا۔بھلا طاقتوراور کمزور کی دوستی بھی کہیں ممکن ہے؟؟؟مثل مشہور ہے کہ بھیڑ اور بھیڑیا اسی صورت ہی اکٹھے رہ سکتے ہیں جب بھیڑ جیسا کمزورجانور بھیڑیے کے پیٹ میں سما جائے۔بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی میں نیپال کو بیگانا علاقہ(Buffer Zones)بنانا چاہا تاکہ کوئی دوسراملک یہاں اپنے اڈے نہ جما سکے اور بھارت نیپال کی قیمت پر چین سے اپنا دفاع کرتارہے۔31جولائی 1950کو واقع ہونے والے اس معاہدے کی رو سے دونوں ملکوں کے شہری ایک دوسرے کے ملک میں جاسکیں گے اور کاروبار ،خریدوفروخت اوردیگر امور بھی سرانجام دینے کی اجازت ہو گی۔اس معاہدے کی رو سے بھارت نے بڑی خوبصورتی سے نیپال کو امور خارجہ اور دفاعی قوت سے محروم کردیا۔معاہدے کے الفاظ کے مطابق اگر چہ یہ دوستی کامعاہدہ ہے جس میں تمام امور مشترکہ طورپر طے کیے جائیں گے لیکن حقیقت صرف دو سال بعد ہی واضع ہو گئی جب 1952ء میں اسی معاہدے کے مطابق بھارت نے دوستی کی آڑمیں دفاع اور خفیہ معلومات میں تبادلہ کے نام پر اپنا فوجی مشن نیپال میں داخل کر دیا۔ذہین اور حساس نیپالی دانشورآج تک 1950ء کے معاہدے کوکوستے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ یہ معاہدی غیر منصفانہ معاہدہ تھا۔نیپال ایک زمانے کی علاقے کی بہت بڑی قوت تھااور یہاں کا شاہی خاندان برصغیرکی قسمت میں فیصلہ کن کردار اداکیاکرتاتھا۔ایسٹ انڈیاکمپنی سے جنگ میں ہزیمت کے بعدکمپنی نے نیپال کے بہت سے علاقوں پرقبضہ کر لیاتھا۔آج کے قوم پرست نیپالیوں کامطالبہ ہے کہ 1947ء کے بعد تاج برطانیہ کی پالیسی کے مطابق وہ علاقے نیپال کوواپس ملنے چاہییں،لیکن بھارت نے ان نیپالی علاقوں پر بھی غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اور بچے کھچے نیپال کو بھی اپنا دست نگر بنا کررکھ دیا ہے۔

نیپال دنیا بھر کے قوانین کے مطابق مکمل طورپرایک آزاداور خودمختار ملک ہے،اسے اپنی خارجہ پالیسی اور دفاعی ترجیحات کا مکمل حق حاصل ہے لیکن بھارتی استعمار اس ملک میں اس حد تک دخیل ہے کہ ملکی پارلیمان اپنی ریاست کے آئین میں تبدیلی یا ترمیم بھی بھارتی آشیر باد کے بغیر نہیں کر سکتی۔نیپالی افواج بھارتی مرضی کے بغیر متحرک نہیں ہو سکتیں۔نیپال میں1996ء سے2006ء تک ماؤ نواز باغیوں کی خانہ جنگی میں بھارت براہ راست دخیل رہااور 1950ء کے معاہدے کی آڑ میں بھارت سے آنے والے بھارتی شہری نیپال میں اپنے استحصالی اڈے جمائے بیٹھے ہیں جن کی تعداد لاکھوں سے متجاوزہے۔اس تمام صورتحال کے خلاف نیپال کی نئی نسل میں بے پناہ ردعمل دیکھنے میں آرہاہے۔اب تو حزب مخالف کی جماعتیں کھل کر بھارت کے خلاف بولنے لگی ہیں۔عوامی ذریعہ ابلاغ(سوشل میڈیا)پر نوجوانوں کے گروہ کے گروہ بھارت کے خلاف زہر اگلتے ہیں اوربرہمن قیادت کو اپنی نفرین کانشانہ بناتے ہیں۔ایسٹ انڈیاکمپنی کے خلاف سالوں پر محیط جنگ آزادی لڑنے والوں کی نسل کازیرزمین پکنے والایہ لاوہ کسی بھی وقت سطح پر پہنچ کر زمینی حقائق تبدیل کرکے کسی انقلاب کا پیش خیمہ بننے والا ہے،نشاء اﷲ تعالی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 521256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.