گزشتہ دنوں اسلام آباد میں’’مقبوضہ کشمیر
کی موجودہ صورتحال اور میڈیا کا کردار‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام
کیا گیا۔آدھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونے والی تقریب سے میزبان الطاف بٹ ،شیخ
تجمل الاسلام کے علاوہ پاکستانی صحافیوں مظہر عباس،افضل بٹ،مطیع اﷲ اور
جاوید صدیق نے اظہار خیال کیا۔اس کے بعد مہمان خصوصی وفاقی وزیر اطلاعات و
نشریات پرویز رشید تقریب میں پہنچے ۔اس پر دیگر شرکاء کی طرف سے اظہار خیال
کا سلسلہ ختم کر کے وفاقی وزیر پرویز رشید کوخطاب کی دعوت دی گئی۔ وفاقی
وزیر نے کشمیر کاز کے حوالے سے میڈیا کے کردار کے موضوع کو چھوڑ کر اور بہت
سی باتیں کیں۔وفاقی وزیر کی تقریر کی بعد سٹیج سیکرٹری یونس بیگ ڈاکٹر ولید
رسول کو قرار داد پیش کرنے کا کہہ ہی رہے تھے کہ میں نے مداخلت کرتے ہوئے
وفاقی وزیر پرویز رشید کو مخاطب کرتے ہوئے تقریب سے متعلق چند جملے ادا
کئے،جو کچھ یوں تھے،
’’ ہمیں بتایا گیا تھا کہ تقریب میں پچیس ،تیس صحافیو ں کو مدعو کیا گیا ہے
جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے میڈیا کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات
کے ساتھ بات چیت کریں گے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔ بھارت اپنے جھوٹ کو بھی
سچ میں بدل دیتا ہے اور ہم اپنے سچ کو بھی جھوٹ ثابت کر دیتے ہیں۔مقبوضہ
کشمیر کے لوگ باشعور ہیں،وہاں شرح تعلیم اچھی ہے اور وہاں کا تعلیمی معیار
بھی بھارت کے ہم پلہ ہے،آج کے سوشل میڈیا کے دور میں وہ یہاں کے حالات و
واقعات سے فوری طور پہ باخبر ہو جاتے ہیں۔اس طرح کی تقریبات نمائشی انداز
میں منعقد کی جاتی ہیں اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے بے
مثال قربانیاں دینے والے حریت پسند عوام کے ساتھ اپنا اخلاص ظاہر کرنے سے
بھی قاصر ہیں،یہاں کشمیری نمائندے نمائشی انداز اپناتے ہوئے ذاتی تشہیر میں
زیادہ دلچسپی لئے نظر آتے ہیں، کشمیر کے حوالے سے بھارت نے کشمیر کے موضوع
پر متعدد ٹی وی اور ریڈیو چینلز خصوصی طور پر قائم کر رکھے ہیں اور ہم نے ٔ
آزاکشمیر ریڈیو اور ٹی وی کا جو حال کر دیا ہے ،اس سے اور زیادہ برا نہیں
ہو سکتا‘‘۔ پہلے سے تیار شدہ قرار داد میں موضوع سے متعلق ایک جملہ بھی
شامل نہیں تھا اور نا ہی مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہار پر سخت پابندی کی
بات کی گئی۔تقریب مقررہ تین گھنٹے سے زائد وقت جاری رہی اور اس میں اظہار
خیال کرنے والوں نے دوسروں کی بات سننے کے بجائے لمبے تقریر نما اظہار خیال
کو ضروری تصور کیا۔میری رائے میں اگر اس تقریب کو مناسب انداز میں ترتیب
دیا جاتا تو وفاقی وزیر کی موجودگی کی وجہ سے کشمیر کازکے حوالے سے میڈیا
کی نشریاتی صورتحال میں بہتری کے چند اقدامات کرائے جا سکتے تھے لیکن موضوع
سے ہٹ کر نمائشی انداز اپنانے سے اصل مقصد ہی فوت ہوتے دکھائی دیا ،اور یہ
بات بھی واضح ہوئی کہ کشمیر کے نام پر نمائندگی کرنے والے صورتحال میں
بہتری کی بات /مطالبے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں۔
اچھے برے افراد ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن جب دولت ،نمود و نمائش کے رسیا
کشمیریوں کی تحریک آزادی کے نمائندہ بننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے حریت
پسند کشمیریوں کی جدوجہد ،تحریک شدید نقصان سے دوچار ہوتی ہے اور اس تحریک
کا فیصلہ کن مرحلہ شروع نہیں ہوپاتا۔وہ افراد کشمیریوں کی نمائندگی کے اہل
نہیں ہیں جن کی پوری توجہ مال و دولت بنانے کی طرف ہے،ان میں نہ کردار ہے
نہ اخلاص،ان کی ہر حرکت صرف اور صرف اپنے مفاد کے لئے ہوتی ہے۔جو کسی نا
کسی انداز میں کردار رکھتے ہیں،وہ بھی رہنمائی کے اوصاف سے محروم یا نظریں
چرائے معلوم ہوتے ہیں۔روز قیامت کا معاملہ اﷲ پر ہی چھوڑا جاتا ہے جو اعمال
کے مطابق بہترین فیصلہ کرے گا تاہم دنیاوی ذمہ داریوں کے معاملات میں اس
دنیا میں بھی جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے بدترین
انسانیت سوز مظالم کا دلیرانہ مقابلہ کرنے والے ہمارے بھائی ،بہن،بزرگ ،بچے
یہ تصور کرتے ہیں کہ ان کے جو بھائی آزاد کشمیر اور پاکستان میں ہیں، وہ
صورتحال کی سنگینی کے پیش نظرکشمیر کاز کے لئے پاکستان کی حکومت ،اداروں کے
کردار کو بہتر اور موثر بنانے کے لئے کام کر رہے ہوں گے لیکن جب انہیں
معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان کے بھائی نمائشی انداز اختیار کئے ہوئے ہیں اور
اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں تو ان پر کیا گزرتی ہو گی؟شعور اور
آگاہی کے اس دور میں منفی انداز پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا اور نا ہی اس
طرز عمل کو معصوم و محترم تصور کیا جا نا چاہئے۔بہتر یہی ہے کہ ہم کشمیر
کاز کی نمائندگی کے اپنے چہرے کو بہتربنانے پر توجہ دیں تاکہ کشمیری عوام
کی مسلسل بے مثال قربانیاں نتیجہ خیز ہو سکیں۔ |