علامہ فضل حق خیرآبادی: جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے محرک اوّل

تحریک آزادی کے محرک اوّل حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی (متولد ۱۲۱۲ھ/ ۱۷۹۷۔متوفی ۱۸۶۱/۱۲۷۸ء )کی ولادت دہلی کی صدرالصدور حضرت علامہ فضل امام فاروقی خیرآبادی کے یہاں ہوئی۔آپ نے اپنے والد کے علاوہ حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔تیرہ سال کی عمر میں علوم نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل کر لی۔آ پ ایک یگانۂ روزگار عالم تھے۔عربی زبان کے مانے ہوئے ادیب اور شاعر تھے۔علوم عقلیہ کے امام اور مجتہد تھے۔اور ان سب سے بالا یہ خصوصیت تھی کہ وہ بہت بڑے سیاست داں ،مفکر اور مدبر بھی تھے۔مسند درس پر بیٹھ کر علوم وفنون کی تعلیم دیتے اور ایوان حکومت میں پہنچ کر دُوررَس فیصلے کرتے تھے۔آپ بہادر وشجاع بھی تھے۔ صدرالصدور ،حضور تحصیل ،سر رشتہ دار اور دیگر کئی بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔

محمد حسین آزاد مرزاغالبؔ کے دیوان کاتذکرہ کرتے ہوئے اپنی معروف کتاب ’’آبِ حیات ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:’’ علامہ فضل حق خیرآبادی نے ہی مرزا غالبؔ کے دیوان سے مشکل اشعار نکال کر اسے ایسا بنا دیا کہ لوگ آج اسے عینک کی طرح آنکھوں سے لگائے پھرتے ہیں ۔ ‘‘ (۱۸۵۷ء پس منظروپیش منظر،ص۲۱۶)

تذکرۂ شعرائے اردوموسوم بہ گل رعنامیں مولاناحکیم سید عبدالحئی صاحب لکھتے ہیں: ’’جب مولانافضل حق نے روک ٹوک شروع کی تو ان کے کان کھڑے ہوگئے، مولانا حالی لکھتے ہیں کہ مولاناکی تحریک سے مرزانے اپنے کلام سے دوثلث کے قریب اشعار نکال ڈالے اور اس کے بعد اس روِش پر چلنا چھوڑ دیا۔(گل رعنا،ص۲۱۳)

دہلی میں علما کی دو جگہ نشست تھی۔ایک علامہ فضل حق کے یہاں اور دوسرے مفتی صدرالدین آزردہ ؔ کے دولت کدہ پر۔علامہ کے علمی دربار میں آٹھویں روز شعرائے دہلی کا اجتماع ہوتا تھا۔غالبؔ، صہبائی ؔ، مومنؔ،آزردہؔ، احسانؔ، نیرؔ، نثارؔ، شیفتہؔ، ضمیرؔ، ممنونؔ، نصیرؔ، وغیرھم۔اور علمامیں وقت کے جید اور جلیل القدر علماء کا جم غفیر ہوتا تھا۔

علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں کہ ’’اندازہ لگائیے کہ اکبر بادشاہ کے شاہی دربار سے یہ دربار کسی طرح کم تھا؟ بادشاہ نے لاکھوں روپئے صرف کرکے نورتن جمع کیے تھے اور ان شاہان علم نے اپنے حسن اخلاق سے سینکڑوں باکمال حضرات کو درباری بنالیا تھا۔‘‘(باغی ہندوستان، ص ۱۶۲ ۔۱۶۳)

انقلاب ۱۸۵۷ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی نے کلیدی رول ادا کیا۔مولانا محمد شاہد شیروانی،علامہ یاسین اختر مصباحی اور مولانا خوشتر نورانی صاحب نے علامہ کی انقلابی سرگرمیوں کاتذکرہ مختلف حوالا جات سے اس طرح کیا ہے۔علامہ نے دہلی کے مرکز جہاد میں بھی حصہ لیا اور اودھ کے مرکز جہاد میں بھی۔معرکۂ ستاون کے دوران بہادر شاہ ظفر کو علامہ مخلصانہ مشورہ دیتے رہے اور بہادر شاہ اس اعتماد کی بنا پر جو اسے علامہ کے اخلاص اور ان کی اصابت رائے پر تھا،ان مشوروں پر عمل کیا کرتے تھے۔ (مختلف دستاویزات)مجاہدین کی اعانت روپے اور سامان رسدسے، اہل کار حکام کا تقرر، مال گزاری کی تحصیل کا انتظام اور ہمسایہ والیان ریاست کو جنگ میں اعانت وشرکت کی دعوت کے لیے لال قلعہ کے دارالانشاء (سیکریٹریٹ)سے علامہ کے حکم سے بہت سے پروانے جاری ہوئے۔

دہلی پر انگریزوں کا کامل تسلط ۱۸۰۳ء میں شاہ عالم ثانی کے عہد میں ہوچکا تھااور مغل بادشاہت برائے نام رہ گئی تھی۔ ستاون کا انقلاب برپا ہونے کے بعد علامہ نے بہادر شاہ کی شہنشاہی کو دستوری حکومت اور آئینی بادشاہت میں تبدیل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک دستور العمل بنایا جس کا نفاذ بھی عمل میں آیاتھااورآپ کا یہ’’ دستورالعمل سلطنت‘‘، ’’سیاست نامہ‘‘ اور ’’البدورالبازغہ‘‘کی سی اہمیت اور قدروقیمت کاحامل تھاجو اگست ۱۸۵۷ ء کے آخری عشرے میں بن گیاتھا۔(۱۸۵۷ء پس منظر وپیش منظر،ص۲۲۱)

غیر ملکی غاصبوں کے خلاف اہل وطن کی متفقہ جدوجہد کے لیے علامہ نے ہندومسلم اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔علامہ دیگر علمائے دہلی کے ساتھ جلسے کرکرکے ترغیب جہاد کے لیے وعظ کرتے رہے کہ حملے کی شکل میں دارالاسلام کو بچانے کی فکروکوشش شرعاً واجب ہے۔معرکے کے دوران علامہ نے شاہی فوج کی کمان بھی کی ۔بہادر شاہ نے جنگ کے ایام میں سہ رکنی ’’کنگ کونسل‘‘بنائی جس کے ایک رکن علامہ بھی تھے۔(دی گریٹ ریولیوشن آف 1857،بحوالہ :علامہ فضل حق اور انقلاب ۱۸۵۷ء ،ص۱۳۱)علامہ نے سلطنت کاجو دستور العمل بنایاتھا اس کے نفاذ کے لیے ایک مجلس منتظمہ تشکیل دی گئی،جس کا ڈائرکٹر (نگراں) علامہ کو بنایاگیا۔۱۹؍ستمبر کو دہلی پر انگریزی حکومت کا قبضہ ہوجانے کے بعد علامہ اودھ میں بیگ حضرت محل کے ساتھ سرگرم ہوگئے۔

مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا ۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:
’’علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اﷲ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے ہزار سپاہ جمع ہوگئی تھی۔(تاریخ ذکاء اﷲ،بحوالہ:باغی ہندوستان، ص۲۱۵)

۱۴؍ستمبر ۱۸۵۷ء کو ایسٹ انڈیاکمپنی نے دہلی پر پوری طاقت وقوت کے ساتھ حملہ کیا اور دہلی پر مکمل ان کا قبضہ ہوگیا۔بہادر شاہ ظفر گرفتار کر لیے گئے ۔۱۸۵۹ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی پر لکھنؤ میں مقدمہ چلا۔سرکاری وکیل کے مقابل خود علامہ صاحب بحث کرتے تھے۔بلکہ لطف یہ تھا کہ چند الزامات خود اپنے اوپر قائم کرتے اور پھر خود مثل تارِ عنکبوت عقلی وقانونی ادلّہ سے توڑ دیتے۔ جج یہ رنگ دیکھ کر پریشان تھااور ان سے ہم دردی بھی تھی۔ کرے تو کیا کرے؟ظاہر یہ ہورہاتھا کہ مولانا بری ہوجائیں گے۔غدر کے بعد نہ جانے کتنے سورمااور رزم آرا ایسے تھے جو گوشۂ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔لیکن مولانا ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیمان نہیں تھے۔آپ نے سوچ سمجھ کر میدان جہاد میں قدم رکھاتھا۔اپنے اقدام کے نتائج برداشت کرنے کے لیے آپ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔سراسیمگی، دہشت اور خوف یہ ایسی چیزیں تھیں جن سے مولانا بالکل ناواقف تھے۔ آپ نے بھرے مجمع میں حق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ جس مخبر نے فتویٰ کی خبر دی ،وہ فتویٰ صحیح ہے۔میرالکھا ہواہے اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے۔چنانچہ آپ کو کالا پانی کی سزاہوئی۔

علامہ فضل حق خیرآبادی امام لحکمۃ والکلام اورقائد جنگ آزادی ہونے کے ساتھ بلند پایہ مصنف بھی تھے۔دودرجن آپ کی تصانیف ہیں۔منطق و فلسفہ کے دقیق فنی مباحث پر آپ کی کئی ایسی تصانیف وحواشی ہیں جنھیں آج چند علما ہی سمجھ پائیں گے۔علامہ صاحب نے قید تنہائی میں رہتے ہوئے ’’الثورۃ الہندیہ‘‘(باغی ہندوستان)تحریر کی جو انقلاب آزادی کا ایک مستند ترین ماخذ ہے۔’’الثورۃ الہندیہ‘‘ اور’’ قصائد فتنۃ الہند ‘‘(منظوم)کو علامہ نے جزیرۂ انڈمان (کالا پانی)سے ۱۸۶۰ء(۱۲۷۷ھ)میں بذریعہ حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی اپنے فرزند مولاناعبدالحق خیرآبادی کے پاس کوئلہ اور پنسل سے کپڑاوغیرہ پرلکھ کر بحفاظت تمام بھیجا تھا۔اس کتاب پر مولانا ابوالکلام آزاد نے تعارف لکھا اور مولانا محمد عبدالشاہد خاں شیروانی نے ۱۹۴۶ء کو ترجمہ کرکے شائع کیا۔بعدازاں المجمع الاسلامی مبارک پور سے حواشی اور بعض اہم مضامین کے اضافے کے ساتھ ’’باغی ہندوستان‘‘کی اشاعت عمل میں آئی۔

آپ پر کئے گئے ظلم وستم کی لرزہ خیز داستان بتاتے ہوئے علامہ صاحب لکھتے ہیں کہ :
’’دشمن کے ظلم وستم نے مجھے دریائے شور کے کنارے ایک بلند و مضبوط، نا موافق ہوا والے پہاڑ پر پہنچادیاجہاں سورج ہمیشہ سر پر رہتا تھا۔اس میں دشوار گزار راہیں اور گھاٹیاں تھیں،جنھیں دریائے شور کی نہریں ڈھانپ لیتی تھیں،اس کی نسیم ِ صبح بھی گرم وتیز ہواسے زیادہ سخت اور اس کی نعمت زہر ہلاہل سے زیادہ مضرتھی۔اس کی غذا حنظل سے زیادہ کڑوی، اس کا پانی سانپوں کے زہر سے بڑھ کر ضرر رساں․․․․․․․․․․․․․․․․ہوا بدبودار اور بیماریوں کا مخزن تھی۔مرض سستا اور دواگراں ۔ بیماریاں بے شمار،خارش وقوبا(وہ مرض جس سے بدن کی کھال پھٹنے اور چھلنے لگتی ہے)عام تھی ․․․․․․․․․․․․․․․․یہاں کی معمولی بیماری بھی خطرناک ہے۔بخار موت کا پیغام،مرض سرسام اور برسام(دماغ کے پردوں کا ورم)ہلاکت کی علت تام ہے۔بہت مرض ایسے ہیں جن کا کتب طب میں نام ونشان نہیں۔نصرانی ماہر طبیب مریضوں کی آنتوں کو تنور کی طرح جلاتااور مریض کی حفاظت نہ کرتے ہوئے آگ کا قبہ اس کے اوپر بناتا ہے۔مرض نہ پہچانتے ہوئے دوا پلا کر موت کے منھ کے قریب پہونچادیتا ہے ۔ جب کوئی ان میں سے مرجاتا ہے تو نجس وناپاک خاکروب جو درحقیقت شیطانِ خناس یادیو ہوتاہے اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچتا ہواغسل و کفن کے بغیر اس کے کپڑے اتار کر ریت کے تودے میں دبا دیتا ہے۔نہ اس کی قبر کھودی جاتی ہے ،نہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔․․․․ ․․․․․․․․ اگر مسلمان کی خود کشی مذہب میں ممنوع اور قیامت کے دن عذاب وعتاب کو باعث نہ ہوتی تو کوئی بھی یہاں قید ومجبور بناکر تکلیف مالایطاق نہ دیا جاسکتا اور مصیبت سے نجات پالینا بڑا آسان ہوتا۔(باغی ہندوستان، ص۷۹ )

جس دن آپ کے صاحبزادے اور معتقدین رہائی کا پروانہ لے کر کالا پانی پہنچے تو ایک جنازہ پر نظر پڑی،بڑازدحام تھا،معلوم ہواکہ ۱۲؍صفر ۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ء کو علامہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اب سپرد خاک کر نے جا رہے ہیں۔یہ بھی بصد حسرت ویاس شریک دفن ہوئے اور بے نَیلِ مَرام واپس لوٹے:
قسمت کی بدنصیبی!کہاں ٹوٹی ہے کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا

علامہ صاحب کی قبر انڈمان کے ساؤتھ پوائنٹ (جسے عرف عام میں نمک بھٹہ کہتے ہیں)کی ایک ایسی بستی میں ہے ۔آپ کا مزار زیارت گاہ ِ خاص وعام ہے۔(علامہ فضل حق اور انقلاب ۱۸۵۷ء ،ص۱۰۴)
٭٭٭
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 732067 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More