ایٹمی دوڑ، اور پاکستان کا مثبت کردا ر
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
دنیا بھر کی ایٹمی قوتوں کے درمیان
جاری جوہری دوڑوسائل کے ضیاع کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات اورانسانی جانوں کے
لئے لاتعداد بیماریوں کا موجب بن رہی ہے۔ ان ہی جیسے حالات کے پیش نظر
پاکستان نے مثبت و مثالی کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کو ایٹمی ہتھیاروں کے
مذید تجربے نہ کرنے کے دو طرفہ انتظامی معاہدے کی پیشکش کی ہے، جس کا مقصد
خطے میں امن و استحکام کے اقدامات کو فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں ترجمان دفتر
خارجہ کاکہناتھاکہ ایٹمی تجربے نہ کرنے کی پیشکش خطے میں امن و استحکام کے
مفاد میں ہے ،معاہدے سے ہتھیاروں کی دوڑ پرقابو پایا جا سکتا ہے جبکہ اس
تجویز سے اعتمادسازی کے اقدامات کوبھی فروغ ملے گا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے
میں پاکستان کا یہ اٹل موقف ہے کہ وہ کم از کم ڈیٹرنس کا قائل ہے جو اس کے
دفاع کے لئے ناگزیر ہے اس کی ترجیح یہ ہے کہ ملک کی معاشی حالت کو بہتر اور
مضبوط بنایا جائے پاکستان کے عوام کو غربت سے نجات دلائی جائے ملک سے
ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائے تمام شہریوں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کی
جائیں اور انہیں پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی و دیگر سہولیات کی فراہمی
یقینی بنائی جائے۔
ایٹم بم کے نقصانات اور تابکاری مضرات کے پیش نظر پوری دنیا 29 اگست کادن
ایٹم بم اورایٹمی تجربات کیخلاف عالمی دن کے طور پر مناتی ہے ۔ اس دن کے
منانے کا مقصد لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروانا ہے کہ کئی دہائیوں سے
ہونے والے جوہری تجربات نے لوگوں اور ماحول کو کتنا نقصان پہنچایا۔ایٹمی
تجربات کیخلاف عالمی دن منائے جانے کی تجویز قازقستان نے پیش کی تھی کیونکہ
سویت یونین نے سولہ جولائی انیس سو پینتالیس کو اس سرزمین پرایٹمی ہتھیار
کا جب پہلا ٹسٹ تب سے انسانیت سوزی کا ایک ایسا عمل شروع ہوگیا جس نے چند
دنوں کے بعد چھ اگست انیس سو پینتالیس کو ہیروشیما میں لاکھوں انسانوں کو
نگل لیا۔ انسانی جانوں کے لئے دہشت کی علامت اور مہلک ترین ہونے کے باوجود،
ایٹمی طاقتیں ناصرف اپنے ان ہتھیاروں کو تلف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں
بلکہ وہ اس کی شدت میں اضافہ کرکے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں
مصروف عمل ہیں۔ دنیا کے 90 فیصد سے زائد نیوکلیئر ہتھیاروں کے مالک صرف دو
بڑے ملک ہیں جن میں 7500کے ساتھ روس اور 7200 کے ساتھ امریکہ شامل ہیں۔ ایک
اندازے کے مطابق دنیا میں آج بھی 10292 نیوکلیئر وار ہیڈ مختلف عسکری
ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال میں ہیں۔ انٹرنیشنل آرمڈ کنٹرول
ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار کے مطابق 46 فیصد یعنی 4717 نیوکلیئر وارہیڈ
امریکہ نے اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نصب کر رکھے ہیں جبکہ 44
فیصد یعنی 4520 کے ساتھ روس دوسرے ،3 فیصد یعنی 300 کے ساتھ فرانس تیسرے ،2
فیصد یعنی 250 کے ساتھ چین چوتھے اور 2 ہی فیصد یعنی 225 کے ساتھ برطانیہ
پانچویں ، جبکہ پاکستان 110کے ساتھ چھٹے، بھارت 100 کے ساتھ ساتویں،
اسرائیل 80 کے ساتھ آٹھویں اور جنوبی کوریا 10 کے ساتھ نویں نمبر پر ہے۔ یہ
امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں 8 ایٹمی قوتیں ہیں تاہم اسرائیل نے کوئی ایٹمی
تجربہ تو نہیں کیا لیکن وہ بھی بھرپور ایٹمی صلاحیت رکھنے والا دنیا کا
آٹھواں ملک ہے۔عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوتی تعدادکو روکنے کے
لئے کئی اقدامات کئے گئے جو کہ ناکافی رہے، اس ضمن میں مذید اقدامات کی
ضرورت ہے ۔
جبکہ پاکستان روایتی یا ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف ہے اس کا شروع سے ہی
موقف رہا ہے کہ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ نہیں ہونی چاہیے اور تنازعات کو
باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے پاکستان کے موقف کی صداقت کا اس
سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے میں پہل
نہیں کی یہ بھارت تھا جس نے بہت پہلے ایٹمی پروگرام شروع کیا تاہم اس کی
جارحیت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع
کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ایٹمی پروگرام شروع کیا پروگرام کی کامیابی کے
باوجود اس نے ایٹمی دھماکے نہیں کئے لیکن جب بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے
ذریعے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تو اس کے بعد پاکستان نے بھی
کامیاب تجربات کئے لیکن ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد بھارت کو پیشکش کی کہ
دونوں ملک بیک وقت سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرتے ہیں اور یہ معاہدہ کرتے ہیں
کہ مزید ایٹمی تجربات نہیں کریں گے لیکن بھارت نے پاکستان کی اس پیشکش پر
مثبت رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اب پاکستان نے اس پیشکش کا اعادہ کرکے درست
سمت میں درست فیصلہ کیا ہے خطے کے امن و استحکام کیلئے یہ ضروری ہے کہ اسے
ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے پاک رکھا جائے اور متعلقہ ممالک اپنے زیادہ تر
وسائل کو اپنے اپنے عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے پر صرف کریں۔ بدقسمتی
سے بھارت پر علاقے کا تھانیدار بننے کا بھوت سوار ہے اور اسے اپنے عوام کے
معاشی حالات بہتر بنانے سے کوئی سروکار نہیں وہ مسلسل ہتھیاروں کے ذخائر
جمع کررہا ہے نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کیلئے سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں
کی موجودگی لازمی ہے حال ہی میں جب پاکستان اور بھارت نے گروپ کی رکنیت
کیلئے درخواستیں دیں تو بھارت جس کی لابنگ امریکہ نے اعلانیہ کی تھی وہ اسے
رکنیت دلوانے میں محض اس لئے کامیاب نہ ہو سکا کہ چین نے قواعد کے مطابق
رکنیت کیلئے سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کو لازم قرار دیا تھا اس نے یہ موقف
اختیار کیا تھا کہ اگر مذکورہ شق سے کسی کو استثنیٰ دینا مقصود ہے تو پھر
یہ استثنیٰ سب کیلئے ہونا چاہیے اس کا واضح اشارہ پاکستان کی طرف تھا
چنانچہ اس کے اس ٹھوس موقف کے بعد امریکہ کو بھارتی رکنیت کے معاملے میں
ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اگر پاکستان کی تجویز کے مطابق دونوں ملک سی ٹی
بی ٹی پر دستخط کرتے ہیں تو یقینا نتیجے میں نیوکلیئر گروپ کی رکنیت کیلئے
بھی دونوں ممالک کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ خطے کے امن اور خوشحالی کیلئے
بھارت کو پاکستان کی مذکورہ تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اسے اس طرف
بھی توجہ دینی چاہیے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر سوویت یونین کو معاشی
استحکام نہ دے سکے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ایٹمی ممالک اپنے ایٹمی
اسلحہ میں تخفیف کریں اور سامان جنگ و جدال کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو
عالمی امن اور اقوام عالم سے غربت و مہنگائی کے خاتمے کے لئے بروئے کار
لائیں۔ تاکہ یہ دنیا ہر ایک انسان کے لئے خوشیوں اور خوشحالی کا منظر پیش
کرے۔ |
|