پروٹوکول کی بیماری!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
سندھ کے سابق وزیراعلیٰ بڑے سائیں
جناب قائم علی شاہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد پہلی مرتبہ اپنے آبائی شہر خیر
پور گئے۔ اس موقع پر انہیں وی وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا، ان کے قافلے میں
پندرہ پولیس موبائل اور چالیس سے زائد دیگر گاڑیاں شامل تھیں۔ اس موقع پر
انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ وہ پارٹی کے کارکن ہیں اور رہیں گے، وہ سیاست
سے ریٹائر نہیں ہورہے اور یہ بھی کہ وہ اب بھی جوانوں سے کم نہیں۔ جب قائم
علی شاہ اپنے عہدے پر قائم تھے تو روایتی خبرنگاری کے ساتھ ساتھ ان کی ایسی
خبریں بھی جاری کی جاتی تھیں جو بعض اوقات مزاحیہ مگر کئی مرتبہ تضحیک آمیز
ہوتی تھیں، خاص طور پر اُن کی عمر کو سوشل میڈیا میں مذاق کا نشانہ بنایا
جاتا تھا، ان کی بھول جانے کی عادت کا بھی خبر وں کا اہم حصہ ہوتی تھی۔ وہ
سرکاری طور پر خبروں کے پس منظر میں چلے گئے ہیں، مگر سندھ حکومت کے بارے
میں کرپشن کا الزام ہمیشہ ساتھ رہا ہے۔ اب شاہ صاحب ایک سابق وزیراعلیٰ کی
حیثیت سے اپنے شہر گئے ہیں تو پروٹوکول ان کے ساتھ ہی رہا ہے، نہ جانے
پروٹوکول دینے والوں کی یاد داشت بھی کام نہیں کرتی، کہ وہ بھول ہی گئے کہ
قائم علی شاہ اب وزیراعلیٰ نہیں، اگر حکومت اور اس کے اداروں نے جان بوجھ
کر یہ کام کیا ہے، تو لوگ یقین کر لینا چاہیے کہ کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے،
اور پوری حکومت اس میں اشنان کر رہی ہے۔
یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس بے دردی سے خزانے پر بوجھ ڈالنے کے
بارے میں قائم علی شاہ سے کوئی نہیں پوچھے گا، کیونکہ ان سے پوچھا جانا
بنتا ہی نہیں، اب ان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ سرکاری طور پر پروٹوکول
حاصل کرسکیں، گویا یہ خدمت سندھ کی صوبائی حکومت نے انہیں از خود پیش کی ہے۔
اس لئے سوال حکومت سے ہی بنتا ہے کہ وہ کس قانون کے تحت سرکاری خزانے کو
لاکھوں کا ٹیکہ لگا رہے ہیں؟ مگر حکومت سے سوال کون کرے؟ اگر کوئی کر بھی
گزرے تو اسے جواب کون دے گا؟ پروٹوکول کا یہ عمل ہر جگہ اور ہر حکمران کے
ہاں رائج ہے۔ سندھ میں صرف موجودہ یا سابقہ وزیراعلیٰ کا ہی مسئلہ نہیں
بلکہ یہاں کی حکمران پارٹی کے مالکان اس سے بھی بڑھ کر پروٹوکول لیتے ہیں،
حکومت میں اگرچہ ان کا کوئی حصہ نہیں، مگر اسمبلی میں بیٹھنے والے حکمران
انہی کے مرہونِ منت ہیں، انہی کے دم سے حکومت اور انہی کی وجہ سے وزارتیں۔
بلاول زرداری جب بھی پاکستان آتے ہیں اور اندرونِ سندھ کے ان کے دوروں میں
پروٹوکول کا انتہائی خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی حال خاندان کے دیگر افرادِ
خانہ کے پروٹوکول کا ہے۔
پروٹوکول کی یہ وبا صرف سندھ میں ہی نہیں، اسلام آباد میں بھی یہی کچھ ہوتا
ہے اور اسلام آباد میں بھی اپنے جوبن پر ہے۔ وزیراعظم کے علاوہ وہاں ایک
شخصیت صدرِ مملکت کے نام سے بھی وہاں موجود ہے، جو اِسی قسم کا پروٹوکول
لیتے ہیں،لاکھوں روپے ماہانہ کا خرچہ کرتے ہیں، یقینا کچھ کام بھی کرتے ہوں
گے۔ پنجاب میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی
اولادیں بھی یہی کام کرتی ہیں، بعض اوقات کسی سڑک کے بند ہونے اور سرکاری
گاڑیوں کے ہجوم سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی حکمران کی ہی فوج ہو گی، بعد
میں پتہ چلتا ہے کہ یہ فلاں حکمران کے صاحبزادے (یا صاحبزادی) ہیں۔اولاد
ہونے کے استحقاق کے ساتھ قوم کے کندھوں بلکہ سر پر سوار ہیں۔ قوم ان
معاملات کو مستقل برداشت کرتی اور بھگتتی ہے۔
پروٹوکول کو تنقید کا نشانہ تو بنایا جاتا ہے، اس پر بہت زیادہ غصے اور
ناراضی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے، کیونکہ عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ
حکمرانوں کی ایک زیادتی ہے، جس کا سدِباب اور خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ مگر
حقیقت کچھ اور ہے، دراصل پروٹوکول ایک نشہ ہے، جسے حکمرانوں نے اپنی سہولت
اور آسانی کے لئے ضرورت کا نام دے رکھا ہے۔ اپنے معاشرے میں نشہ کے عادی
لوگوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، مگر ضرورت یہ ہے کہ نشہ کی عادت
کا خاتمہ کیا جائے، اس طلب کو ختم کیا جائے ، جس کی خواہش میں انسان نشے پر
مجبور ہوتا ہے۔ یہ کام کوئی حکمران تو کرے گانہیں، کون مفت کی عیاشی پسند
نہیں کرتا، یہ کام عوام ہی کرسکتے ہیں، پروٹوکول کی وجہ سے رکے ہوئے راستوں
پر عوام چڑھ آئیں، اپنے ہی ووٹوں سے منتخب ہونے والوں اور قومی خزانے سے
عیاشیاں کرنے والوں کو سر سے اتار پھینکیں، تو سب درست ہو سکتا ہے۔
|
|