اہالیانِ کراچی کی دلجوئی؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
وزیراعظم میاں نواز شریف کراچی پہنچے،
مگر ان کے دورہ کا آؤٹ پٹ کیا تھا، کوئی نہ جان سکا۔ وفاقی دارلحکومت اسلام
آباد کا اپنا مزاج ہے، جس میں حکمرانی کا خمار غالب رہتا ہے۔ اس کی مرکزی
اہمیت کے پیش نظر یہاں وسائل کا استعمال بھی بے حد وحساب ہوتا ہے، شہر کی
نفاست، سکیورٹی اور خوبصورتی کے تمام تقاضے ترجیحی بنیادوں پر پورے کئے
جاتے ہیں۔ اسلام آبا د میں بیٹھنے والوں کے فرائض میں پورے پاکستان کی ترقی،
خوشحالی ، حفاظت اور دیگر سہولتیں بھی شامل ہیں، اسی لئے حکمرانوں کا دعویٰ
یہی ہوتا ہے کہ ان کی پورے پاکستان اور اس کے ضروری مسائل پر نگاہ ہے، مگر
عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ وطنِ عزیز میں ہی بے شمار علاقے ایسے ہیں جو
پسماندگی کا شکار ہیں، جہاں غربت اور جہالت عام ہے، جہاں بنیادی انسانی
سہولتیں تک میسر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کے چندپسندیدہ شہروں کے
علاوہ کہ جن میں اسلام آباد اور لاہور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں،کے علاوہ
کوئی اس فہرست میں شامل نہیں۔ پنجاب میں جنوبی پنجاب کے اضلاع کی حالت
دیکھئے، بلوچستان کا تو ذکر ہی کیا، سندھ کی حالت بھی خراب ہے، رہا خیبر
پختونخواہ تو اسے بھی مخالف حکومت کی وجہ سے وفاقی حکومت نے نظر انداز کر
رکھا ہے۔
کراچی جس قدر بڑا شہر ہے، فطری طور پر مسائل بھی اسی قدر زیادہ ہیں۔ ٹارگٹ
کلنگ، دہشت گردی، صوبائی حکمرانوں کی کرپشن کے قصے، ترقیاتی کاموں کا نہ
ہونا، بھتہ کلچر اور کچرے کے ڈھیروں کا ذکر تو ہم سب لوگ ٹی وی چینلز پر
دیکھتے اور اخباروں میں پڑھتے ہیں، مگر ایک ستم یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت
کراچی پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ (یہ الزام صرف موجودہ حکومت پر ہی نہیں،
ماضی میں خود پی پی کی حکومت میں بھی کراچی پر کوئی توجہ نہ دی گئی)دوروز
قبل وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کراچی آئے، انہوں نے مصروف ترین دن
گزارا اور شام کو واپس لوٹ گئے، انہوں نے یہاں دہشت گردی کے خلاف بیان جاری
کئے، ملکی ترقی کی نوید سنائی، امن کا پیغام دیا اور گھر پلٹ گئے۔ اگلے روز
جب وزیراعظم کے بیانات اخبارات میں شائع ہوئے تو ساتھ ہی وزیراعلیٰ سندھ
مراد علی شاہ کا بیان بھی موجود تھا، ’’وزیراعظم نے ملاقات کے لئے صرف پانچ
منٹ دیئے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے وزیراعظم سے کچھ گِلے
کرنے تھے، کچھ شکایات لگانی تھیں، کچھ تحفظات تھے، مگر انہیں حالِ دل کہنے
کا موقع ہی نہ مل سکا۔ یہ ایک اصولی اور فطری بات بھی تھی، اگر وزیراعظم
کراچی کے حالات جاننے کے لئے آتے ہیں، یا وہ کراچی کی حالت بہتر کرنا چاہتے
ہیں تو انہیں وہاں کے وزیراعلیٰ کو وقت دینا چاہیے تھا۔ پورے دن میں دس بیس
منٹ کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ وقت کوئی معمولی نوعیت کے مسئلے کے لئے نہیں
دینا تھا، بلکہ یہ تو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا سوال تھا۔ اگر کراچی
میں امن ہوگا تو ملک کی ترقی کا یہ راستہ کھلا رہے گا۔ آپ آئے کراچی کے
مسائل حل کرنے ہیں اور’’ مصروف ‘‘دن گزار کے واپس جارہے ہیں؟ آپ کی آمد سے
کراچی والوں کو کیا ملا؟
وزیراعظم نواز شریف کے کراچی جانے سے قبل اخباری شیڈول میں بتایا گیا تھا
کہ وہ عبدالستار ایدھی، امجد صابری اور کرکٹر حنیف محمد کے گھر بھی تعزیت
کے لئے تشریف لے جائیں گے۔ ممکن ہے یہ تعزیتیں انتظامیہ کے شیڈول میں شامل
ہی نہ ہوں، بہرحال یہی ہوا، وہ کراچی گئے بھی، مصروف ترین دن بھی گزار آئے،
نہ وزیراعلیٰ کو وقت دیا کہ معلوم کرتے، دہشت گردی اور کچرے کے خاتمے کے
لئے صوبائی حکومت کیا اقدام کر رہی ہے؟ ملکی ترقی میں صوبائی حکومت کس قدر
اور کیا حصہ ملا رہی ہے؟ اسی نوع کے دیگر معاملات تھے، مگر نہ ہوئے۔ دوسری
طرف تعزیتوں کا معاملہ تھا، مرحومین کے گھر والوں کو خبر پڑھ اور سن کا
انتظار تھا، وہ تو انتظار تو اس وقت ختم ہو چکا ہوگا جب ان لوگوں کو ایک
روز قبل تک کسی نے اطلاع نہیں دی ، اور سکیورٹی کے بندوبست نہیں کئے تو وہ
جان چکے ہوں گے کہ وزیر اعظم تعزیت کے لئے نہیں آرہے۔ صوبائی حکومت اگر
مخالف ہے تو وہ بھی عوام کی منتخب کردہ ہے، اور اسی سے کام چلانا ہے۔
سرکاری تقریبات میں شرکت تو معمول کی کارروائی ہے۔ کراچی کے مسائل حل کرنے
کے لئے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے، مذکورہ بالا دونوں کام کئے ہوتے
تو میاں صاحب کی عوام میں مقبولیت میں اضافہ ہوتا، عوام کی دلجوئی ہوتی ۔
|
|