جی ٹوئنٹی کانفرنس چین کا شہر ہانگزو دنیا کی توجہ کا مرکز۔
(Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachi)
دنیا کے آٹھ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں نے ’’جی ایٹ‘‘ یعنی آٹھ عظیم کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس میں بعدازاں مزید بارہ صنعتی ملکوں کو شامل کر کے اب اس کو ’’جی ٹوئنٹی‘‘ یعنی 20 ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم بنا دیا گیا جس کے اب تک مختلف ممالک میں 10 اجلاس ہوچکے ہیں جبکہ اس گروپ کا گیارہواں اجلاس چین کی میزبانی میں 04 سے 05 ستمبر کو چین کے صوبہ جیانگ کے مشرقی شہر ہانگزو میں ہونے جارہا ہے ۔ |
|
|
دنیا کے آٹھ صنعتی طور پر ترقی یافتہ
ملکوں نے ’’جی ایٹ‘‘ یعنی آٹھ عظیم کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس
میں بعدازاں مزید بارہ صنعتی ملکوں کو شامل کر کے اب اس کو ’’جی ٹوئنٹی‘‘
یعنی 20 ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم بنا دیا گیا جس کے اب تک مختلف ممالک
میں 10 اجلاس ہوچکے ہیں جبکہ اس گروپ کا گیارہواں اجلاس چین کی میزبانی میں
04 سے 05 ستمبر کو چین کے صوبہ جیانگ کے مشرقی شہر ہانگزو میں ہونے جارہا
ہے جس کی وجہ سے ہانگزو دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ، چینی صدر شی جن
پنگ کی دنیا بھر کے سربراہان سے ملاقاتیں اور عالمی معیشت کی مضبوطی کے
لیئے اقدامات قابل ستائیش ہیں 2014 میں آسٹریلیا کے شہر برسبین میں ہونے
والی جی ٹوئنٹی کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 2016 میں ہونے والی جی
ٹوئنٹی کانفرنس کی میزبانی چین کرے گا، اس سال کے آغاز سے ہی چین ہانگزو کے
سربراہی اجلاس کی تیاریوں میں مصروف ہے چین کی ہمیشہ سے روایت رہی ہےکہ وہ
ایک مضبوط اور مستحکم پالیسی کے ساتھ کام کرتا ہے مشوروں اور رائے کا
احترام کرتا ہے اور ہر جائز بات کو تسلیم کرتا ہے ، چین کی ہانگزو کانفرنس
میں یقینی کامیابیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چین اس جی
ٹوئنٹی کانفرنس سے پہلے اب تک چین کے بیس شہروں میں ساٹھ سے زائد پروگرام
منعقد کر چکا ہے جس میں کئی بینک کے گورنروں ، مالیاتی اداروں کے سربراہان
،کئی ممالک کے وزیروں کے ساتھ مشاورت کی گئی اس کے علاوہ جی ٹوئنٹی کانفرنس
کی مناسبت سے دی لیبر ٹوئنٹی ، دی تھنک ٹینک ٹوئنٹی،دی یوتھ ٹوئنٹی،دی وومن
ٹوئنٹی اور سول ٹوئنٹی کے اجلاس منعقد کئے گئے جو کامیاب رہے اس کے علاوہ
جی ٹوئنٹی گروپ کے ممبران ، عالمی تنظیموں اور اس کانفرنس میں مدعو مہمان
ملکوں سے مشاورت کرچکا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔
چین اور کینیڈا کا جی ٹوئنٹی کانفرنس میں کلیدی کردار ہے کینیڈا جی ٹوئنٹی
گروپ کا بانی رکن بھی ہے اب سے بیس سال پہلے سابق کینیڈین وزیر خزانہ پال
مارٹن نے ایشیائی مالیاتی بحران کے تناظر میں ایک جی ٹوئنٹی گروپ کی ضرورت
کو محسوس کیا،2010 میں کینیڈا کی میزبانی میں ٹورنٹو میں جی ٹوئنٹی کانفرنس
منعقد کی گئی جس میں چینی صدر نے شرکت کی اب ستمبر میں چین کے شہر ہانگزو
میں منعقد کی جانے والی کانفرنس میں کینیڈا کے وزیراعظم بھی شرکت کررہے ہیں
۔
چین کے ہانگزو شہر میں دنیا کی مضبوط معیشت کے حامل بیس ممالک کے سربراہان
گیارھویں مرتبہ سر جوڑ کر بیٹھیں گے جی ٹوئنٹی کانفرنس میں مالیاتی شعبوں
میں جدت کے لیئے ایجنڈے میں چار نکات شامل ہیں جن میں پائیدار ترقی،
بدعنوانی مخالف پالیسیاں،کثیر جہتی تجارتی حمایت اور غربت میں کمی اور
اصلاحات ،پاکستان سمیت پوری دنیا کی نظریں اس نہایت اہم جی ٹوئنٹی کانفرنس
پر لگی ہیں کیوں کہ چین اور مغرب کے درمیان افہام و تفہیم کی کمی روایتی
طور پر کشیدگی کا باعث ایک مسئلہ رہا ہے اور مغرب ایک مشکوک انداز میں چین
کو دیکھتا ہے ہانگزو کانفرنس ممکنہ طور پر مغرب اور چین کے باہمی تعلقات کی
طرف ایک مثبت قدم کے آغاز کا باعث ہوسکتی ہے ، دوسری طرف برطانیہ میں
ریفرنڈم کے نتیجے میں یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے اثرات کو بھی
مدنظر رکھا جارہا جبکہ جنوبی بحیرہ چین کا مسئلہ بھی چین کی ترقی سے منسلک
ہے جس کے بارے میں ایک متنازعہ اور یک طرفہ فیصلہ عالمی ثالثی عدالت کی
جانب سے سنا دیا گیا جسے چین نے یکسر قبول کرنے سے انکار کردیا جب کہ
امریکہ کا جھکاؤ چین مخالف فیصلے کے حق میں ہے ۔
جی ٹوئنٹی گروپ کے وُزرائے خزانہ نے چینی شہر چینگ ڈو میں منعقدہ اپنے
اجلاس میں عالمی معیشت پر تبادلہٴ خیال کرتے ہوئے ٹیکسوں سے متعلق پالیسیوں
کو بہتر بنانے پر زوردیا ہے چینی وزیر خزانہ لُو جی وائی نے اس موقع پر کہا
کہ عالمی معیشت ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں مالیاتی بحران کے اثرات
آہستہ آہستہ ظاہر ہورہے ہیں انھوں نے جی ٹوئنٹی گروپ پر زور دیا کہ وہ ایک
نئے بین الاقوامی ٹیکس نظام کی تائید و حمایت کے سلسلے میں قائدانہ کردار
ادا کرے۔یہ پہلا موقع ہے کہ چین نے کھلے عام ٹیکسوں کے بین الاقوامی نظام
میں اصلاحات کی بات کی ہے۔
چین دنیا بھر کے معزز مہمانوں کا استقبال کرنے کو تیار کھڑا ہے پاکستان جو
کہ چین کا آئرن دوست کہلاتا ہے اسے بھی اس اہم کانفرنس سے بہت سی امیدیں
وابسطہ ہیں اور امید کرتا ہے کہ یہ کانفرنس پوری دنیا کے لیئے بہتری لائے
گی طویل مدتی استحکام کی راہ ہموار ہوگی آنے والی نسلوں کے لیئے ترقی اور
روزگار کے اچھے مواقع پیدا ہونگے۔ |
|