الطاف حسین کی معافیاں
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
الطاف حسین کو سیاست میں آئے ہوئے 35 سال سے زیادہ ہوچکے ہیں لیکن اب تک ان کو سیاسی زبان نہیں آئی ہے۔ ایک اچھا سیاست دان وہ ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے مخالفوں کو مخاطب کرتا ہے تو انکی تمام برایئوں کا ذکر کرتا ہے لیکن اپنی زبان سے ناشاستہ بات نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے الطاف حسین کو اپنی زبان پر بلکل قابو نہیں ہے۔ |
|
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ
الطاف حسین نے اپنی پیر 22 اگست 2016 کو ‘‘پاکستان مخالف’’ کی گئی تقریر کے
بعد رات گئے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ ساتھ ڈی جی
رینجرز میجر جنرل بلال سے بھی اپنی ’پاکستان مخالف‘ اور ان دونوں کے خلاف
تقریر کرنے پر معافی مانگ لی۔ سوشل میڈیا پر الطاف حسین کی اس تقریر کے وہ
حصے شیئر کیے جا رہے ہیں، جن میں وہ پاکستان کے خلاف نعرے لگا اور لگوا رہے
ہیں اور جس میں انہوں نے پاکستان کو ’دنیا کے لیے ایک ناسور‘ کہا تھا۔ ایم
کیو ایم کے ترجمان واسع جلیل نے ٹوئٹر پر الطاف حسین کا معافی نامہ شائع
کیا، جس میں الطاف حسین کی جانب سے لکھا گیا ہے،’’میں پاکستان، جنرل راحیل
شریف اور ڈی جی رینجرز کے خلاف ادا کیے گئے اپنے الفاظ پر دل کی گہرائیوں
سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘ الطاف حسین اس بیان میں کہتے ہیں،’’اپنے ساتھیوں کے
ماورائے عدالت قتل، ان کی مسلسل گرفتاریوں اور ان کی مشکلات کو دیکھ کر میں
شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوا، بھوک ہڑتال پر بیٹھے ساتھیوں کی بگڑتی صورتحال
کو دیکھ کر میں نے ان ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف الفاظ
استعمال کیے، جو انتہائی شدید ذہنی دباؤ کا نتیجہ تھے۔‘‘ الطاف حسین نے
اپنے معافی نامے میں یہ بھی کہا کہ گذشتہ روز جو کچھ میڈیا کے ساتھ ہوا، اس
کے لیے وہ میڈیا سے بھی معافی کے طلب گار ہیں۔
الطاف حسین نےپیر 22 اگست 2016 کو اپنی تقریر میں پہلے تو پاکستان اور
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ ساتھ ڈی جی رینجرز میجر
جنرل بلال کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کی اور اس کے بعد پاکستان
مخالف نعرئےنہ صرف خود لگائے بلکہ پنڈال سے بھی پاکستان مخالف نعرئے
لگوائے۔ الطاف حسین کےساتھ نعرئے لگانے والوں مرد ہی نہیں ہر عمر کی خواتین
بھی شامل تھیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو فلم میں دیکھا کہ
الطاف حسین نے جیسے ہی پاکستان کے خلاف بات کرنی شروع کی کچھ خواتین چلی
گیں۔ جب الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرئے لگائے تو نعروں کا ساتھ دینے
والی کچھ خواتین دادی کی عمروں کی تھیں۔ پاکستانی میڈیا اداروں پر حملے کے
وقت ان خواتین کو دیکھ کر افسوس ہوا جو خود کئی بچوں کی مائیں تھیں، ان کے
چہرے پوری طرح عیاں تھے، وہ ڈنڈے لیکر ٹی وی چینل کے دفتر پہنچیں اور انوئں
نے قانون کو ہاتھ میں لیا۔آئندہ کسی بھی وقت پولیس اور رینجرز ان کو
گرفتار کرسکتی ہے، وہ خواتین جنھوں نے کبھی جیل تو کیا کوئی تھانہ بھی اندر
سے نہیں دیکھا ہوگا وہ کس طرح کئی کئی دن جیلوں میں بسر کریں گیں۔ ابھی تک
کسی خاتون کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آئی ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو پھر
ایم کیو ایم کے مخالف یہ ہی کہہ رہے ہونگے دیکھو مہاجروں الطاف حسین نے
تمہاری مائوں اور بہنوں کو جیل پہنچادیا، افسوس صد افسوس۔
الطاف حسین کو سیاست میں آئے ہوئے 35 سال سے زیادہ ہوچکے ہیں لیکن اب تک
ان کو سیاسی زبان نہیں آئی ہے۔ ایک اچھا سیاست دان وہ ہوتا ہے کہ جب وہ
اپنے مخالفوں کو مخاطب کرتا ہے تو انکی تمام برایئوں کا ذکر کرتا ہے لیکن
اپنی زبان سے ناشاستہ بات نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے الطاف حسین کو اپنی زبان
پر بلکل قابو نہیں ہے۔ چند سال قبل دہلی میں الطاف حسین نے کھلے عام لفظوں
میں ہندوستان کی بیورو کریسی سے التجا کی تھی کہ کراچی میں ’’مہاجروں‘‘
کیلئے بارڈر کھول دیا جائے تاکہ وہ سب اپنے گھروں میں واپس لوٹ آئیں۔مئی
2013 کے انتخابات کے بعد نواز شریف کو سب سے پہلے الطاف حسین نے ہی مبارک
باد دی لیکن اسکے ساتھ ساتھ حسب دستور اپنی زبان پرقابو نہ رکھ سکے اور ان
پر پنجابی مینڈیٹ کی پھبتی کسی اور اسے جاگ پنجابی جاگ کے نعرے کا نتیجہ
قرار دئے ڈالا، ان کے اس بیان کو عام طور پر ناپسند کیا گیا۔ دوسرے روز
انہوں نے پاکستان کے حکمرانوں اور ارباب اختیار کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ"
اگرآپ کو کراچی اور کراچی کے عوام کا مینڈیٹ پسند نہیں ہے تو صبح شام کراچی
والوں کو مغلظات بکنے کی بجائے کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کیوں نہیں
کردیتے"، اس بیان پر پورئے پاکستان میں احتجاج کیا گیا۔ اگلا بیان پی ٹی
آئی کی حمایت میں دھرنا دینے والوں کو دھمکی تھا۔ پھر پاکستانی میڈیا کے
لیے فرمادیا کہ"کارواں چلتے ہیں، کتے بھونکتے ہیں"، اسکے علاوہ وہ مسلسل
اپنی تقریروں میں گندی زبان استمال کرتے رہے ہیں۔
الطاف حسین کا یہ پہلا معافی نامہ نہیں ہے، مئی 2013 کے انتخابات کے بعد سے
اب تک الطاف حسین تین یا چار بار پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف بول
چکے ہیں اور اس کے بعد معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف
حسین نےجمرات 30 اپریل 2015کی شب ایم کیو ایم کے مرکز ناین زیرو پر تقریر
کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں روزانہ ‘را’ کا ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے، ‘را’ والوں
سے کہتا ہوں کہ ایک دفعہ ہمارا ساتھ تو دے دو، حقوق نہ ملے تو نہ ملک رہے
گا اور نہ تمہاری چھڑیاں اور نہ تمہارے بلے۔ انہوں نے کہا کہ جو ہتھیار
ڈالتے ہیں وہ محب وطن کہلاتے ہیں اور پاکستان کے بانیوں کو غدار کہا جاتا
ہے۔ یکم مئی کو الطاف حسین نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ میری گذشتہ رات کی
تقریر کوسیاق وسباق سے ہٹ کر پڑھا گیا ہے ، میں نے ‘را’ سے مدد کی بات صرف
اورصرف طنزیہ طورپر کہی تھی تاہم اگرمیرے ان جملوں سے قومی سلامتی کے
اداروں اور محب وطن افراد کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں ان سب سے خلوص دل کے
ساتھ معافی کا طلبگار ہوں۔
بارہ جولائی 2015 کو نائین زیرو پر تقریر کرتے ہوئے الطاف حسین نے کارکنان
کے ہنگامی اجلاس سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے دوسری باتوں کے علاوہ کہاکہ
"اس وقت ڈی جی رینجرز وائسرائے کاکردار ادا کررہے ہیں اوروزیراعظم نوازشریف
کے ذاتی ملازم بن کر اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت
کامظاہرہ کررہے ہیں۔ یکم اگست 2015 کو امریکا کے شہر ڈیلاس میں ایم کیوایم
امریکا کے سالانہ کنونشن کے موقع پر ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین یا تو
ہوش میں نہیں تھے یا پھروہ اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھے تھے، لہذا ڈیلاس میں
انہوں نے نہ صرف پاک فوج کے خلاف بلکہ تمام مسلم فوج کے خلاف بھی زہر اگلا۔
الطاف حسین نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم میں سکھوں، ہندوؤں اورعیسائیوں نے
کعبۃ اللہ پر گولیاں چلانے سے انکارکردیا تھا لیکن ان مسلمان فوجیوں نے
انگریزوں کے حکم پر خانہ کعبہ پر گولیاں چلائیں۔میں ایسی فوج کو مقدس نہیں
سمجھتا جو خانہ کعبہ پر گولیاں چلاتی ہے ، جواپنے ہم مذہب اور کلمہ گو
بنگالی مسلمانوں کا قتل عام کرتی ہے، ایک لاکھ مسلم بنگالی خواتین کو
اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناکر حاملہ کردیتی ہے۔قائداعظم محمد علی جناح کو
سلو پوائزن دیکرماردیتی ہے، محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کردیتی ہے۔ الطاف
حسین نے اپنی تقریر میں ایک بار پھر براہ راست قانون نافذ کرنے والے اداروں
کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا مسلح افواج کو سلام اور سیلوٹ پیش کرکے
بڑی غلطی کی۔
الطاف حسین ایک بیمار انسان ہیں اوریہ بات انہوں نےخودجیو نیوز کے اینکر
شاہ زیب خانزادہ کے ایک پروگرام میں کہی کہ میں اپنے اوپر کنٹرول نہیں
کرپاتا اور الٹا سیدھا بول دیتا ہوں مگر میں بعد میں معافی مانگ لیتا ہوں۔
الطاف حسین کے متنازعہ بیانات سے نہ صرف ایک محبِ وطن پاکستانی کو دکھ ہوتا
ہے بلکہ انکی اپنی سیاسی جماعت کو بھی نقصان ہوتاہے اور سب سے بڑھ کر ان
لوگوں کو دکھ ہوتا ہےجن کے بزرگوں نے قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہا
اورپاکستان ہجرت کی۔ جیسا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنی منگل 23 اگست 2016
کی پریس کانفرس میں کہا ہےکہ ہم ہی ایم کیو ایم ہیں، ایم کیو ایم کو اب
پاکستان سے چلائیں گے، کارکن یا قائد کو پاکستان مخالف نعرہ نہیں لگانے دیں
گے۔ ایسے عمل کو نہ دہرانے کی ذمہ داری ایم کیو ایم لیتی ہے۔ ڈاکٹر فاروق
ستار کو چاہیے کہ اپنی جماعت کے بانی الطاف حسین کواگلے دو سال تک سیاست سے
دور رکھیں اور عوام سے براہِ راست ہر گز مخاطب نہ ہونے دیں ورنہ ایم کیو
ایم کی مشکلات میں ایسا اضافہ ہوگا جس کو ڈاکٹر فاروق ستار کو قابو کرنا
بہت مشکل ہوگا کیونکہ یہ بار بار ثابت ہوچکا ہے کہ الطاف حسین کو اپنی زبان
پر قابو نہیں۔ |
|